غیر مسلم کی روپیہ مسجد میں صرف کرنا
سورة التوبہ میں اللہ تعالیٰ جل شانہ فرماتے ہیں:
مَا كَانَ لِلۡمُشۡرِكِيۡنَ اَنۡ يَّعۡمُرُوۡا مَسٰجِدَ اللّٰهِ شٰهِدِيۡنَ عَلٰٓى اَنۡفُسِهِمۡ بِالـكُفۡرِؕ اُولٰۤئِكَ حَبِطَتۡ اَعۡمَالُهُمۡ ۖۚ وَ فِى النَّارِ هُمۡ خٰلِدُوۡنَ۔ اِنَّمَا يَعۡمُرُ مَسٰجِدَ اللّٰهِ مَنۡ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَالۡيَوۡمِ الۡاٰخِرِ وَاَ قَامَ الصَّلٰوةَ وَاٰتَى الزَّكٰوةَ وَلَمۡ يَخۡشَ اِلَّا اللّٰهَ فَعَسٰٓى اُولٰۤئِكَ اَنۡ يَّكُوۡنُوۡا مِنَ الۡمُهۡتَدِيۡنَ
(سورۃ التوبہ: آیت، 17،18)
ترجمہ: کہ مسجد بنانے اور اس کو اپنے سجدوں سے بسانے کا غیر مسلموں کو کوئی حق نہیں، ان کے بنائے مسجد، مسجد نہیں، اور مسلمانوں کو اس کام کیلئے ان کی مدد قبول کرنا جائز نہیں۔
چنانچہ فتاویٰ عالمگیری میں ہے کہ کسی غیر مسلم نے اپنے گھر کو مسجد کے جیسا بنا کے مسجد قرار دیا اور مسلمانوں کو نماز پڑھنے کی عام اجازت دی اور مسلمانوں نے اس کی زندگی بھر وہاں نماز بھی پڑھی، تب بھی وہ مسجد نہ ہوئی، اس کے مرنے کے بعد وہ مال اس کے وارثوں کو دے دیا جائے گا۔ غیر مسلم اور مرتد تو ملت سے باہر ہیں، مسجد کا مسئلہ اس درجہ نازک ہے کہ اگر ایک صحیح العقیدہ مسلمان بھی نا جائز ذریعہ سے حاصل کی ہوئی زمین کو مسجد بنائے یا نا جائز کمائی کا پیسہ مسجد کی تعمیر میں صرف کرنا چاہے تو مکروہ و ممنوع ہے۔
خلاصہ کلام یہ کہ غیر مسلموں کی امداد مسجد میں صرف نہیں کی جاسکتی۔
(فتاویٰ بحر العلوم: جلد، 2 صفحہ، 229)