شہزادہ اعلیٰ حضرت، امام الفقہاء، مفتی اعظم ہند، حضرت علامہ مصطفیٰ رضا قادری نوری رحمۃ اللہ کا فتویٰ روافض (شیعہ) سے مسجد کے لیے روپیہ لینا اور ان سے میل جول رکھنا
شہزادہ اعلیٰ حضرت، امام الفقہاء، مفتی اعظم ہند، حضرت علامہ مصطفیٰ رضا قادری نوریؒ کا فتویٰ
سوال: اگر کوئی رافضی سنیوں کی مسجد میں اپنے روپے سے حوض میں پانی بھروائے یا تعمیر میں کوئی حصہ لیوے وغیرہ یہ جائز ہے یا نہیں؟ کہ سنیوں کی مسجد میں رافضی کے روپیہ سے حوض میں پانی بھروانا مسجد کی برجیوں پر کلس چڑھوانا یا مسجد میں سپیدی کروانا، از روئے شرع شریف جو حکم ہو آگاہ فرمائیں؟
جواب: روافض زمانہ کفار مرتدین ہیں اور کفار و مرتدین کو مسلمانوں کی مسجد سے کیا سروکار؟ قرآن کریم میں ہے
مَا كَانَ لِلۡمُشۡرِكِيۡنَ اَنۡ يَّعۡمُرُوۡا مَسٰجِدَ اللّٰهِ شٰهِدِيۡنَ عَلٰٓى اَنۡفُسِهِمۡ بِالـكُفۡرِؕ اُولٰۤئِكَ حَبِطَتۡ اَعۡمَالُهُمۡ وَ فِى النَّارِ هُمۡ خٰلِدُوۡنَ اِنَّمَا يَعۡمُرُ مَسٰجِدَ اللّٰهِ مَنۡ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَالۡيَوۡمِ الۡاٰخِرِ
(سورۃ التوبہ: آیت، 17،18)
تفسیرات احمدیہ میں ہے: قال صاحب المدارك وكذا القاضي الاجل اخذا من كلام صاحب الكشاف وعمارتها تتناول رم ماسرم منها وقمها وتنظيفها وتنويرها بالمصابيح وصيانتها ممالم تبن له المساجد من احاديث الدنيا لانها بنيت للعبادة و الذكر والمراد من الذكر درس العلم انتهى كلامه فعلم منه ان البناء الجديد ممنوع لهم بالطريق الأولى فان اراد کافر ان بنی مساجدا أو يعمرها يمنع منه وهو المفهوم من النص وان لم يدل عليه رواية
نزول آیت اگرچہ دربار مشرکین ہے مگر حکم مشرکین سے خاص نہیں، تمام کافرین کو عام ہے، اور کبھی مشرک کا ہر کافر پر اطلاق ہوتا ہے اور حدیث میں خود روافض پر مشرک کا اطلاق۔ پھر اس میں مسلمانوں کا مرتدین سے میل، ان کی طرف میل ظاہر ہے کہ بے اس کے ایسا نہ ہوتا اور مرتدین سے میل جول ان کی طرف ادنیٰ میل حرام ہے۔ اگر کسی نے روافض سے روپیہ لے کر صرف کر دیا تو اچھا نہ کیا۔
(فتاویٰ مصطفویہ: صفحہ، 263)