Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

ایک لڑکے نے شیعہ کے مکان میں سکونت اختیار کی اُن کی طرح لباس اختیار کیا ان کی طرح عبادت کرنے لگا وہیں کھاتا پیتا رہا ہے ایسے لڑکے کا کیا حکم؟ اور ایک سال سے اپنی بیوی بچہ کے پاس بھی نہیں آیا اور بیوی بچہ کا نان و نفقہ بھی بھیجا نہیں ہے، اس صورتِ مسئولہ می


ایک لڑکے نے شیعہ کے مکان میں سکونت اختیار کی اُن کی طرح لباس اختیار کیا ان کی طرح عبادت کرنے لگا وہیں کھاتا پیتا رہا ہے ایسے لڑکے کا کیا حکم؟ اور ایک سال سے اپنی بیوی بچہ کے پاس بھی نہیں آیا اور بیوی بچہ کا نان و نفقہ بھی بھیجا نہیں ہے، اس صورتِ مسئولہ میں لڑکی اپنے خاوند کے نکاح میں رہی یا نہیں؟

سوال: ایک شخص نے اپنے لڑکی اپنے بھانجے کے نکاح میں دی، دونوں مسلمان اہلِ سنت والجماعت تھے اور ان سے ایک لڑکا بھی پیدا ہوا اب لڑکی کا خاوند ایک سال سے زیادہ عرصہ ہوا شہر چھوڑ کر چلا گیا اور ایسی بستی میں جا بسا جہاں کثرت سے شیعہ رافضی داؤدی رہتے ہیں اور وہ لڑکا ایک شیعہ داؤدی کے مکان میں ایک شیعہ کا لڑکا بن کر رہا اور انکے مذہب کے مطابق رہنے لگا، انہی کی طرح لباس اختیار کر لیا اور انہیں کی طرح عبادت کرنے لگا ہے وہیں رہتا ہے وہیں کھاتا ہے پیتا ہے اور ایک سال سے اپنی بیوی بچہ کے پاس بھی نہیں آیا اور بیوی بچہ کا نان و نفقہ بھی بھیجا نہیں ہے، لڑکی باپ کے مکان پر رہتی ہے۔ لہٰذا اس صورتِ مسئولہ میں لڑکی اپنے خاوند کے نکاح میں رہی یا نہیں اور اگر نکاح ٹوٹ گیا تو اس کی عدت کیا ہے؟

جواب: روافض زمانہ عموماً مرتدین ہیں، جب اس نے بے اکراہ، بے ضرورت ملجۂ اور بے فائدہ شرعیہ ان کی صورت بنائی سیرت اختیار کی تو وہ انہیں میں کا ایک ہو گیا۔ حدیث شریف میں ہے نبی کریمﷺ نے فرمایا من تشبه بقوم فهو منهم

فتاویٰ الصغرىٰ پھر فقہ اکبر امام اعظم کی شرح ملا علی قاریؒ میں ہے من تقلنس بقلنسوه المجوس اى لبسها وتشبه بهم فيها او خاط خرقة صفراء على العاتق اى هو من شعارهم او شد في الوسط خيطا كفرا اذا كان مشابها بخيطهم او ربطهم او سماه زنارا یہاں تک کہ اگرچہ مزاح و ہزل ہی سے پناہ بخدا کسی سے واقع ہو جب بھی یہی حکم ہے۔

اسی میں ہے ولو شبه نفسه باليهود والنصارىٰ اى صورة اور سيرة على طريق والمزاح والهزل ولو على هذا المنوال۔

فتاویٰ خلاصه میں ہے من تزنر بزنار اليهود والنصارىٰ وان لم يدخل كينستهم کفر پھر اس کا کیا پوچھنا جو نہ صرف ان کی وضع سے ان کے کنیسہ میں جایا کرے بلکہ انہیں کی طرح عبادت بھی کرے؟

مجمع الانهر شرح ملتقى الابحر 

میں ہے يكفر بخروجه الى نيروز المجوس والموافقة معهم فيما يفعلونه في ذلك اليوم ويوضع قلنسوة المجوس على راسه على الصحيح الا التخليص اور جب وہ انہیں میں کا ایک ہو گیا تو نکاح باطل ہوگا۔ فان ارتداد احد الزوجين و فسخ في الحال

شرح فقه اكبر میں خلاصه و ظهیریه سے ہے: من شد على وسطه حبلا وقال هذا زنار کفر اسی میں ہے وفی الظهيرية و حرم الزوج عورت پر اسے کوئی دسترس نہ رہی وہ مختار ہو گئی کہ وہ بعد عدت جس سے چاہے نکاح کرلے۔

وہ شخص ہزل و مزاح کا دعویٰ تو کر نہیں سکتا اور کرے تو بےکار کہ اس سے حکم نہیں بدل سکتا جیسا کہ او پر ثابت ہوا نہ اکراہ ہی کا دعویٰ کر سکے گا کہ ہزل و اکراہ اگر ہوتا تو اتنے عرصہ دراز تک اس کا انہیں میں گھلا ملا رہنا یعنی چہ؟ قید تو نہ تھا؟ کیا اسے وہاں سے چلے آنے کا موقع نہ تھا؟ کیوں یہ وہیں رہتا بستا؟ انہیں جیسا رہا؟ پھر اس کا ثبوت دیتے دیتے؟ وہ اوندھا ہو جائے گا کہ اکراہ شرعی ہو اور برابر سال بھر یا اس سے زائد جب سے اب تک بدستور رہا تو یہ ادعا تو غالباً نہ کرے گا ہاں اگر چلے تو کسی ضرورت اور فائدہ کی راہ چلے گا۔ وہ اگر ایسا ادعا کرے تو اس سے ضرورت و فائدہ دریافت کیا جائے، اگر ضرورت و فائدہ نا قابل قبول شرع ہو گا اس کے منہ پر مارا جائے گا اور حکم یہی رہے گا اور اگر کوئی ضرورت شرعیہ و فائدہ مترتبہ بتائے بھی تو اس سے اس کا ثبوت شرعی لیا جائے کہ وہ ضرورت جب سے اب تک برابر رہی؟ اگر کسی وقت وہ ضرورت نہ پائی گئی اور وہ بدستور روافض کا ہم طریقہ ہی اپنے آپ کو ظاہر کرتا رہا ہو تو بھی یہی حکم رہے گا، اور وہ جو ملا علی قاریؒ نے شرح فقہ اکبر میں فرمایا لیس تاج الرفضة مكروه كراهة تحريم وان لم يكن كفرا و بناء على عدم تكفيرهم لقوله عليه السلام من تشبه بقوم فهو منهم یہ مبنی بر اختیار عدم تکفیر بعض روافض ہے جیسا کہ خود اسی قول میں مصرح ہے۔

یہ اختلاف پہلے تھا کہ روافض میں فرق تھا بعض غالی ہوتے تھے اور بعض غیر غالی۔ غالی کی تکفیر پر اتفاق تھا اور غیر غالی کی تکفیر میں اختلاف۔ بہت لوگ سب کو کافر کہتے تھے اور محتاطین غیر غالی کی تکفیر نہ فرماتے تھے۔ آج یہ اختلاف نہیں کہ ہر رافضی غالی ہے اور جو بالفرض خود ایسے عقائد کفریہ نہ رکھتا ہو جن کی بنا پر اس کی تکفیر قطعی ہو تو ان کفریات کے معتقدین کو مسلمان جاننا بلکہ ان میں جو مجتہد مانے جاتے ہیں انہیں مجتہد و پیشوا مانتا ہے اور ایسے کافر کو جو قطعاً حتماً جزماً کافر کو مسلمان ہی جاننا کفر ہے نہ کہ امام و مجتہد پیشوا ماننا۔

غالی روافض کا حکم اسی شرح فقہ اکبر میں دیکھئے:

الغلاة من الروافض الذين يدعون أن جبرئيل عليه السلام غلط فى الوحي فان الله تعالیٰ ارسله الى على وبعضهم قالوا انه اله وان صلوا الى القبلة ليسوا بمؤمنين

فتاویٰ بزازيه پھر تنبيه الولاة علامہ شامی میں ہے یجب اكفار الروافض برجعة الاموات الى الدنيا وبنسخ الأرواح وانتقال روح الاله الى الائمة وان الائمة الهة وفي قولهم بخروج امام ناطق بالحمق وانقتطاع الأمر والنهي وبقولهم أن جبرئيل عليه السلام غلط في الوحي الى محمدﷺ دون علىؓ واحكام هؤلاء احكام المرتدين

غنية المستملى میں ہے یجوز الاقتداء به مع الكراهة اذا لم يكن ما يعتقده يؤدى الى الكفر عند اهل السنة اما لو كان مؤديا الى الكفر فلا يجوز اصلا كالغلاة من الروافض والذين يدعون الالوهية لعلیؓ او ان النبوة كانت له فغلط جبرئيل عليه السلام ونحو ذلك مما هو كفر وكذا من يقذف الصديقةؓ

اسی میں ہے غلاة الروافض و من ضاها هم فان امثالهم لم يحصل منهم بذل وسع في الاجتهاد فان من يقول بأن علياً هو اله او بان جبرئيل عليه السلام غلط ونحو ذلك من السخف انما هو متبع محض الهوى وهو اسراً حالا ممن قال ما نعبدهم الا ليقربونا الى الله زلفى فلا يتأتى من مثل الامامين العظيمين ان لا يحكم بأنهم من أكفر الكفرة وانا كلامهما في مثل من له شبهة فيما ذهب اليه وان كان ما ذهب اليه عند التحقيق في حد ذاته كفرا كمنكر الرؤية وعذاب القبر ونحو ذلك فانه فيه انكار حكم النصوص المشهورة والاجماع الا انهم شبهة قياس الغائب على الشاهد ونحو ذلك مما علم في الكلام وكمنكر خلافة الشيخينؓ والساب لهما فان فيه انكار حكم الاجماع القطعي الا انهم ينكرون حجة الاجماع باتهامهم الصحبة فكان لهم شبهة في الجملة وان كانت ظاهرة البطلان بالنظر إلى الدليل فبسبب تلك الشبهة التي ادى اليها اجتهادهم لم حكم بكفرهم مع ان معتقدهم كفر احتياطاً بخلاف مثل من ذكرنا من الغلاة فتأمل

شفاء قاضی عیاض و در مختار وغیرہ معتمدات اسفار میں ایسے کے بارے میں جس کا کفر قطعی ہو فرمایا: من شك في كفره و عذابه فقد كفر

تو اگر کوئی رافضی (شیعہ) ایسا ہو جو خود ان کفریات قطعیہ کا معتقد نہ ہو ممکن ہے مگر ان میں ایسا کوئی نہ نکلے گا جو ان عقائد کفریہ رکھنے والے کو کافر جانے اور ان اپنے مجتہدین کو جو ان کفریات کے معتقد ہیں امام و پیشوا اور مجتہد نہ مانے۔

یہ شخص اگر ان کفریات اور ان کے مثل مثلاً تحریف قرآن و تبدل و تنقیص قرآن یا تفصیل سیدنا علیؓ واہل بیت و اطہارؓ پر انبیاء سوا سید الانبیاء علیہ و علیہم السلام کا معتقد نہ مانا جائے اور نہ یہ کہ وہ قذف سیدہ عائشہ صدیقہؓ کا مرتکب ہوا نہ یہ کہ اس نے سبّ شیخینؓ یا انکار صحبت و خلافت کا ارتکاب کیا کہ پہلے کفریات کی بنا پر اجماعی قطعی کافر کہا جاتا اور سبّ و انکار صحبت و خلافت پر بھی اکثر فقہاء کے طور پر کافر ٹھہرتا مگر جب وہ اُن میں ایسا گھلا ملا تو لا اقل اس پر اتنا الزام ضرور آیا کہ وہ روافض (شیعہ) کو کافر نہیں جانتا بلکہ ان کی طرح عبادت کا اختیار بھی بتاتا ہے کہ وہ انہیں کو حق پر مانتا ہے جب تو اپنا طریقہ چھوڑ کر اُن کا پکڑتا ہے تو یہی اس کے کافر ہونے کو بس ہے۔

مگر ممکن ہے کہ وہ یہ دعا کرے کہ مجھے روافض کے ان عقائد خبیثہ کفریات قطعیہ کا علم نہ تھا اتنا ہی جانتا تھا کہ روافض سبّ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کرتے اور خلافت شیخینؓ سے انکار رکھتے ہیں بس اس ادعا سے اگرچہ اس پر اجماعی حکم نہ ہو گا مگر حکم رفض ضرور ہوگا کہ انہیں اہلِ حق مانا اس حکم بینونت زوجہ میں کوئی فرق نہ ہو گا کہ سبّ و انکار صحبت و خلافت شیخینؓ ضرور کفر ہے اگرچہ مرتکب کو شبہہ کا فائدہ دیا جائے اور لفظ کافر کا اطلاق نہ کیا جائے، شبہہ کا فائدہ اتنا ہی ہے کہ وہ لفظ اسے نہ کہا جائے گا مگر اس قول و فعل کی بنا پر جس کا وہ مرتکب ہوا اس پر حکم توبہ تجدیدِ ایمان و نکاح یقیناً ہو گا۔

فتح القدير و حاشيه شامى على التبيين وغنيه وغیرہ میں ہے ذلك المعتقد في نفسه كفر فالقائل به قائل بما هو كفر و ان لم يكفر مجمع الانهر وغیرہ میں ہے ما يكون كفرا بالاتفاق يوجب احباط العمل كما في المرتد و تلزم اعادة الحج و يكون وطؤه حيننذ مع امرأته زنا والولد الحاصل منه في هذه الحالة ولد زنا

بلکہ جس کا کفر ہونا مختلف فیہ ہو ایسے کفر کے ارتکاب پر بھی علماء حکم توبہ تجدیدِ ایمان و تجدیدِ نکاح فرماتے ہیں اسی میں ہے ما کان في كونه كفرا اختلاف يؤمر قائله بتجديد النكاح وباالتوبة والرجوع عن ذلك احتياطاً۔

اگر فی الواقع وہ ان کے ان عقائد کفریہ میں شریک نہیں اسے وہ عقائد معلوم ہی نہیں اور معلوم ہونے پر وہ بے تکان انہیں کافر و مرتد جانے نہ اس سے تبرا واقع ہوا وہ تبرا کو ملعون جانتا اور تبرائی کو مذہب سے خارج مانتا ہے نہ اس سے انکار خلافت و صحبت واقع ہوا انکار کرنے والے کو گمراہ جانتا ہے دل سے سنی مذہب کے علاوہ ہر مذہب کو باطل جانتا ہے؟ اب بھی قضاء ضرور یہی حکم ہو گا کہ سبّ شیخینؓ و انکار خلافت بلکہ قذف سیدہ عائشہ صدیقہؓ مشہور و معروف اور روافض کا طریقہ عبادت ان کا شعار اور بے اکراہ بے فائدہ اس کا اختیار اس کے حکم کیلئے کافی اور عورت کالقاضی وہ ہرگز نہ مانے گی بلکہ دیانتاً بھی اور عدت وہی تین حیض کے بعد طلاق شروع ہو کر ختم ہو جاتا ہے جو عدت طلاق ہے وہی اس کی عدت ہے۔

(فتاویٰ مصطفويہ: صفحہ، 354)