Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

برائے کرم شیعہ علماء کے تاجروں نے خمس کو موجودہ شکل دینے میں کن مراحل سے گزارا مختصر بیان کریں۔

  الشیخ عبدالرحمٰن الششری

برائے کرم شیعہ علماء کے تاجروں نے خمس کو موجودہ شکل دینے میں کن مراحل سے گزارا مختصر بیان کریں۔ 

جواب:

پہلا مرحلہ: امامت کے مزعومہ سلسلے کے انقطاع اور مہدی مزعوم کی روپوشی کے بعد کا مرحلہ: اس میں خمس صرف امام غائب کا حق شمار کیا گیا تو اس میں بیس کے قریب چور میدان میں اتر آئے ہر ایک امام کا نائب ہونے کا دعویدار تھا تا کہ امام کا خمس لوگوں سے وصول کر کے اس تک غار میں پہنچا سکے! 

(كشف الأسرار و تبرئة الأئمة الأطهار: صحفہ، 69 ملخص الطور نظرية الخمس)

دوسرا مرحلہ: دوسرے مرحلے میں ان چور نائبین کے حاسد پیدا ہو گئے تو انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ خمس ادا کرنا واجب ہے لیکن یہ رقم ان نائبین کو ادا کرنے کی بجائے زمین میں دبا دی جائے حتیٰ کہ امام غائب ظاہر ہوگا تو اسے ادا کر دی جائے۔

(المبسوط فی فقه الأمية جلد، 1 صفحہ، 264 فصل فی ذكر الانفال و من يستحقها، كشف الأسرار و تبرئة الأئمة الاطهار: صحفہ، 69 ملخص تطور نظرية الخمس للموسوى) 

تیسرا مرحلہ: تیسرے مرحلے میں کہنے لگے کہ خمس کی ادائیگی تو فرض ہے لیکن اسے زمین میں دبانے کی بجائے کسی امانت دار شخص کے پاس رکھا جائے اور امانت دار کی یہ شرط صرف شیعہ فقہاء میں پائی جاتی ہے اس لیے ان کے حوالے کی تاکہ مہدی غائب کو دے آئیں۔ 

(المبسوط فی فقه الأمية جلد، 1 صفحہ، 264 فصل فج ذكر الانقال و من يستحقها، كشف الأسرار وتبرئة الائمة الاطهار: صحفہ، 70 ملخص تطور نظرية الخمس الموسوى)

چوتھا مرحلہ: پھر ترقی ہوئی تو خمس کی ادائیگی فقہائے شیعہ کو کرنا واجب قرار پایا لیکن اس بار صرف حفاظت کی غرض سے نہیں بلکہ فقہاء اسے آلِ بیتؓ کے مستحق فقراء میں تقسیم کریں گے۔

(الوسيلة إلى نيل الفضيلة: صحفہ، 137، منهاج الصالحين: جلد، 1 صفحہ، 347 العبادات مسئلہ نمبر 1259، 1264 كشف الأسرار: صحفہ، 70 ملخص تطور نظرية الخمس)

پانچواں مرحلہ: پانچویں مرحلے میں خمس کی تقسیم فقہاء کی صوابدید پر چھوڑ دی گئی کہ وہ جہاں مناسب سمجھیں انہیں صرف کر دیں مثلاً اپنی کتابوں کی نشر و اشاعت وغیرہ اس کے علاوہ فقیہ کو یہ حق دیا گیا کہ وہ سب سے پہلے ایک بہت بڑی مقدار اپنے حصے میں رکھ لے۔

(العروة الوثقىٰ جلد، 9 صفحہ، 548 منهاج الصالحين: جلد، 1 صفحہ، 347 مسئلہ نمبر 1265 كشف الأسرار وتبرئة الائمة الاطهار: صحفہ،71 ملخص تطور نظرية الخمس)

اور خصوصاً اس لیے بھی کہ ہر شیعہ فقیہ دعویدار ہے کہ وہ آلِ بیتؓ میں سے ہے پھر جب کچھ شیعوں نے بھاری رقوم فقہاء کے اکاؤنٹ میں جمع کرنے میں پس و پیش سے کام لینا شروع کر دیا تو انہوں نے ایک نئی روایت جاری کر دی کہ جس شخص نے امام غائب کا ایک درہم یا اس سے بھی کم ادائیگی سے روکا، وہ ائمہ پر ظلم کرنے والے اور ان کے حقوق غصب کرنے والوں میں شمار ہوگا بلکہ جو شخص یہ کام حلال سمجھ کر کرتا ہو تو وہ کافر ہو جائے گا۔

(العرةالوثقیٰ: جلد، 6 صفحہ، 230 شیعہ علماء نے عوام سے زیادہ مال بٹورنے کے لیے باہمی مقابلہ بازی شروع کر دی اور انہوں نے اس کے لیےنت نئے طریقے متعارف کرانے شروع کر دیے مثلاً سب سے پہلے مال جمع کرانے والے کو خصوصی ڈسکاؤنٹ دی جانے لگی پھر ڈسکاؤنٹ میں بھی ان کا مقابلہ لگ گیا کیونکہ سبھی اس شریف تجارت کے تاجر تھے ایک عالم 50 رعایت کا اعلان کرتا تو دوسرا اس سے زیادہ رعایت کا اعلان کر دیتا اس طرح ان تاجروں نے لوٹ مار جاری رکھی۔ 

(كشف الأسرار وتبرئة الأئمة الأطهار: صفحہ، 7 ملخص تطوير نظرية الخمس) 

 اب آخری سالوں میں خمس کی آخری شکل یہ ہوگئی ہے کہ شیعہ فقہاء نے ایک فتویٰ جاری کیا ہے جس کی رو سے جو شخص حج یا عمرہ کرنا چاہتا ہے وہ اپنی جائیداد کا تخمینہ لگائے اور خمس فقہاء شیعہ کو ادا کر کے حج و عمرہ کے لیے جائے، وگرنہ اس کا حج و عمرہ باطل ہوگا۔

(كتاب مناسك الحج: صفحہ، 22)

داندان شکن:

عبد اللہ بن سنان کہتا ہے کہ میں نے ابو عبد اللہؒ کو فرماتے ہوئے سنا:

لَيْسَ الْخُمْسُ إِلَّا فِج الْغَنَائِمِ خَاصَّةٌ۔

(من لا يحضره الفقية: جلد، 2 صفحہ، 22 ح، 1647 كتاب: الخمس، تهذيب الأحكام: جلد، 4 صفحہ، 850 ح، 16 باب الخمس والغنائم، الاستبصار: جلد، 2 صفحہ، 392 ح، 6 باب وجوب الخمس فيما يستفيد الانسان حالا بعد حال، وسائل الشيعه: جلد، 6 صفحہ، 515 ح، 1 باب: وجوب الخمس فج غنائم دار الحرب و فی مال الحربج و الناصب الفصول المهمة جلد، 2 صفحہ، 144 ح،1491 كتاب الخمس)

ترجمہ: خمس صرف مال غنیمت میں خاص ہے۔

شیعہ علماء کا ٹیکس اور خمس کے عقیدہ میں بات کو سمیٹتے ہوئے آخر میں ہم یہ کہیں گے کہ انہوں نے یہ عقیدہ نصرانی پادریوں، پوپوں کی اقتداء اور پیروی کرتے ہوئے لیا ہے، جن کا تعلق یورپی دور کے قرون وسطیٰ سے ہے، جنہوں نے اپنے پیرو کاروں اور ماتحتوں پر جبری ٹیکس اور عشور (دسواں حصہ) فرض کر دیئے تھے۔ نصرانی ویلز لکھتا ہے: (کنیسہ) نے عشور کا ٹیکس اپنی عوام پر فرض کیا ہے اور وہ اسے نیکی اور احسان کے کاموں میں سے شمار کرتے ہوئے مقرر نہیں کرتا بلکہ (کنیسہ) اس کا مطالبہ اس طور پر کرتا ہے یہ اس کا حق ہے۔

(معالم تاريخ الانسانية: جلد، 3 صفحہ،890)