کیا کسی شیعہ کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ اپنے نام نہاد قائم کے باہر نکلنے سے قبل مسلمان امراء میں سے کسی ایک کی بیعت کرے؟
الشیخ عبدالرحمٰن الششریکیا کسی شیعہ کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ اپنے نام نہاد قائم کے باہر نکلنے سے قبل مسلمان امراء میں سے کسی ایک کی بیعت کرے؟
جواب: بلاشبہ وہ نصوص جنہیں شیعہ علماء اپنے ائمہ سے روایت کرتے ہیں وہ گیارہ صدیوں سے زائد عرصے سے اپنے ہر شیعی کو یہ دعوت دے رہی ہیں کہ وہ مسلمان خلفاء میں سے کسی بھی خلیفہ کی بیعت نہ کرے ماسوائے تقیہ کے اور ان پر یہ بھی واجب ہے کہ وہ روانہ صبح اپنے قائم کے لیے اپنی بیعت کی تجدید بھی کریں۔
ان کے شیوخ کی دعاؤں میں سے ایک دعاء العہد بھی ہے اس میں یہ الفاظ بھی ہیں:
اللھم انی اجدد لہ فی صبیحة یومی ھذا وما عشت فیه من ایامی عھدا وعقدا وبیعة له فی عنقی لا احول عنھا ولا ازول ابدا۔
(مفاتیح الجنان: صفحہ، 539، 538 دعاء العہد)
ترجمہ: اے اللہ بے شک میں آج کی صبح اس کے لیے تجدید کرتا ہوں اور میں اپنے دنوں میں سے اس دن میں جب تک بھی زندہ رہوں اس کے ساتھ عہد و پیمان کرتے ہوئے اس کی بیعت میری گردن میں ہے، نہ میں اس سے پھروں گا اور نہ ہی کبھی اس سے ملوں گا۔
اور اس کا سبب وہ ہے جسے ان کے معاصر شیخ محمد جواد مغنیہ نے واضح کیا ہے وہ کہتا ہے شیعیت کا اصول اور قاعدہ ہے کہ کسی بھی حالت میں حاکم سے معارضہ ختم نہیں ہوتا، جب تک اس میں درج ذیل شروط نہ پائی جائیں نص، حکمت اور افضلیت یہی باعث ہے کہ وہ حزب اختلاف کو دین اور ایمان ہی سے تعبیر کرتے ہیں۔
(الشيعة والمحاكمون: صفحہ، 24 شروط الامام) الحكومة)