سید محمد باقر علی شاہ رحمۃ اللہ کا فتویٰ حضور اکرمﷺ کا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ و فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کو اپنے سُسر بنانے کا اعزاز اور عثمان غنی رضی اللہ عنہ و سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو اپنی دامادی میں لینا ایک ایسا فیصلہ تھا جو اللہ تعالیٰ جل شانہ کی طر
سید محمد باقر علی شاہؒ کا فتویٰ
نبی کریمﷺ نے سیدنا صدیق اکبرؓ سیدنا فاروق اعظمؓ کو اعلان نبوت کے بعد جو اپنے سُسر ہونے کا شرف عطا فرمایا اور سیدنا عثمان غنیؓ کو عزتِ دامادی بخشی۔ کیا یہ اعزاز و شرف ان حضرات کو جو مرحمت ہوا، وہ اللہ رب العزت کے ارشاد و امر سے ہوا یا صرف اور صرف حضور اکرمﷺ کی اپنی مرضی اور پسند تھی؟
جب ہم اس معاملہ کے سلسلہ میں قرآن کریم کی اس آیت کو دیکھتے ہیں کہ جس میں اللہ تعالیٰ جل شانہ نے ارشاد فرمایا
وَمَا يَنۡطِقُ عَنِ الۡهَوٰىؕ اِنۡ هُوَ اِلَّا وَحۡىٌ يُّوۡحٰى (سورۃ النجم: آیت، 3، 4)
ترجمہ: حضرت رسالت مآبﷺ اپنی خواہش سے کلام نہیں فرماتے بلکہ وہ تو ہوتا ہی وحی ہے جو آپﷺ کی طرف کی جاتی ہے۔
اس آیت کریمہ سے بالکل واضح اور صاف صاف معلوم ہوتا ہے کہ حضور اکرمﷺ کا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ و فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کو اپنے سُسر بنانے کا اعزاز اور عثمان غنی رضی اللہ عنہ و علی المرتضی رضی اللہ عنہ کو اپنی دامادی میں لینا ایک ایسا فیصلہ تھا جو اللہ تعالیٰ جل شانہ کی طرف سے تھا۔ اور ان قابلِ احترام و مقدس حضرات کی مذکورہ رشتہ داری اور حضور اکرمﷺ سے ان کی یہ نسبت بحکم خدا تعالیٰ تھی۔ حضور اکرم ﷺ کے ساتھ کسی کی نسبت اتنی بڑی عظمت کی آئینہ دار ہوتی ہے جس کے بارے میں خود حضورﷺ نے فرمایا کہ قیامت میں سب نسبتیں منقطع ہو جائیں گی، مگر وہ نسبت جو مجھ سے ہے، وہ ہرگز ٹوٹنے نہ پائے گی
لہٰذا ثابت ہوا کہ خلفائے اربعہؓ کی حضور اکرمﷺ سے قائم شدہ نسبت دنیا میں تو کجا قیامت میں بھی منقطع نہ ہو گی اور بموجب وعدہ اللہ رب العزت آپ سے ہرگز جدا نہ ہوں گے۔
جب یہ واضح ہوا تو ان حضراتِ عالیہ (صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین) کے کامل الایمان اور جنتی ہونے میں کیا شک و شبہ رہ جاتا ہے؟ اس صراحت و وضاحت کے ہوتے ہوئے پھر بھی اگر کوئی اپنی بدبختی اور سیاروئی سے ان مقدس ہستیوں کو اپنی تبرّا بازیوں اور لعن طعن کا نشانہ بنائے تو ایسے شخص کا دائرہ اسلام سے خارج ہونے میں کوئی شک و شبہ باقی نہیں رہ جاتا۔
حضور پاکﷺ نے اپنی سُسر بنانے کا فیصلہ، اپنی ازواج بنانے کا فیصلہ، اور اپنے داماد بنانے کا فیصلہ کیا ہے، اس پر جو بد بخت اعتراض کرتا ہے، اور ان پر تبرّا بازی کرتا ہے، گالیاں بکتا ہے۔ قرآن پاک کی روح سے کس طرح مؤمن رہ سکتا ہے؟
ہرگز نہیں، ہر گز نہیں جو آدمی کسی شخص کو گالی دیتا ہے، گالی دینے سے اس کا مقصد اس شخص کو اذیت دینا ہوتا ہے، گالی سے نہ صرف اس کو اذیت پہنچتی ہے بلکہ اس کے متعلقین کو بھی اذیت پہنچتی ہے۔ اسی اصول کو مد نظر رکھتے ہوئے ذرا سوچیے کہ حضور اکرمﷺ کے سُسرال، داماد، اولاد اور بیویوں کو جو گالی دیتا ہے، وہ نہ صرف ان مقدس حضرات کو اذیت دیتا ہے بلکہ ان سے تعلق کی وجہ سے سے حضور اکرمﷺ کو بھی اذیت دیتا ہے۔
بہر صورت جو شخص حضور اکرمﷺ کی آل پاک یا آپﷺ کی ازواجِ مطہرات یا آپﷺ کے سُسر سیدنا صدیق اکبرؓ و سیدنا فاروق اعظمؓ یا آپﷺ کے داماد سیدنا عثمان غنیؓ و سیدنا علی المرتضیٰؓ کو اذیت پہنچاتا ہے۔ وہ شخص اپنی ذلیل حرکت سے حضور اکرمﷺ کو بھی اذیت پہنچاتا ہے۔ اور جو شخص حضور اکرمﷺ کو اذیت پہنچائے اس کے متعلق قرآن مجید کا فرمان ہے
اِنَّ الَّذِيۡنَ يُؤۡذُوۡنَ اللّٰهَ وَرَسُوۡلَهٗ لَعَنَهُمُ اللّٰهُ فِى الدُّنۡيَا وَالۡاٰخِرَةِ وَاَعَدَّ لَهُمۡ عَذَابًا مُّهِيۡنًا (سورۃ الاحزاب: آیت، 57)
ترجمہ: جو لوگ اللہ تعالیٰ کو اور اس کے رسول کو اذیت پہنچاتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے ان پر دنیا اور آخرت میں لعنت فرمائی ہے، اور ان کے لیے عذاب الٰہی ہے۔
لہٰذا: میں اپنے متعلقین کو یہ وصیت کرتا ہوں کہ تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور خصوصاً خلفائے اربعہؓ کے حق میں تبرّا بازی کرنے والوں سے رشتہ ناطہ، اور باعتبار عقیدہ کے کسی قسم کا حسن تعلق پیدا نہ کریں ورنہ قیامت کے دن ان لوگوں کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں ہو گا۔
(تحفہ جعفریہ: جلد، 1 صفحہ، 544)