اگر آپ ان چند واضح ترین فتوحات کا بھی ذکر کر دیں جنہیں رافضیہ شیعہ یہ گمان کرتے ہیں کہ انہوں نے تاریخ کے مختلف ادوار میں یہ کارہائے نمایاں سر انجام دیتے ہیں اور یہ باتیں ان کی معتبر اور معتمد کتب سے ہوں تو بہت ہی اچھا ہو؟
الشیخ عبدالرحمٰن الششریاگر آپ ان چند واضح ترین فتوحات کا بھی ذکر کر دیں جنہیں رافضیہ شیعہ یہ گمان کرتے ہیں کہ انہوں نے تاریخ کے مختلف ادوار میں یہ کارہائے نمایاں سر انجام دیتے ہیں اور یہ باتیں ان کی معتبر اور معتمد کتب سے ہوں تو بہت ہی اچھا ہو؟
جواب: شیعہ نے آج تک کفار کی زمین سے ایک بالشت بھی فتح نہیں کی بلکہ حسب استطاعت تمام کافروں کو آج تک مسلمان ممالک ان کے راز اور اموال حوالے کرتے آئے ہیں تاریخ اس کی شاہد ہے۔ مثلاً ابو طاہر القرمطی کے کرتوت جس نے بیت اللہ، کعبہ شریف اور 317 ھ میں حج کے لیے آنے والے حجاج کے ساتھ بدترین سلوک کیا اس کی روداد خود شیعہ علماء نے بیان کی ہے حجاج کرام بیت اللہ شریف امن و سلامتی کے ساتھ پہنچ گئے تھے اور وہ دنیا کے ہر ہر علاقے سے آئے تھے انہیں اس وقت خبر ہوئی جب ابوطاہر القرمطی نے 8 ذوالحجہ یوم الترویہ میں ان پر دھاوا بول دیا حاجیوں کے مال لوٹ لیے اور ان سے قتل کو حلال کر لیا لہٰذا مسجدِ حرام کے صحن، مکہ مکرمہ کی گھاٹیوں اور راستوں پر اور کعبہ شریف کے اندر بے شمار حامی قتل کر دیئے گئے القرمطی کعبہ شریف کے دروازے پر بیٹھ گیا اور حجاج کرام کو کاٹ کاٹ کر اس کے اردگرد پھینکا جا رہا تھا جبکہ وہ کہ رہا تھا: انا لله و بالله انا یخلق الخلق واقیھم انا۔
ترجمہ: میں اللہ کے لیے ہوں اور میں اللہ کی ہی توفیق سے ہوں وہ مخلوق پیدا کرتا ہے اور میں انہیں فنا کرتا ہوں۔
القرمطی نے حاجیوں کو زمزم کے کنویں میں دفن کرنے کا حکم دیا اور بہت سارے حاجی اپنی جگہوں پر حرم کی حدود میں اور کچھ مسجد حرام کے اندر دفن کر دیے گئے زمزم کا قبہ گرا دیا گیا اور اس نے کعبہ شریف کو اکھیڑنے کا حکم دیا اور اس کا غلاف نوچ لیا اور اسے ٹکڑے ٹکڑے کر کے اپنے ساتھیوں تقسیم کردیا۔ ایک شخص کو حکم دیا کہ چھت پر چڑھ کر بیت اللہ کا میزاب (پر نالہ) اتار پھینک، مگر وہ سر کے بل گرا اور مر گیا اس کو دیکھ کہ وہ میزابِ کعبہ اتارنے سے رک گیا پھر اس نے حجر اسود اکھاڑنے کا حکم دیا اس کی فوج کا ایک بدبخت آیا تو اس نے ایک بھاری ہتھوڑا حجرا سود کر مارا اور ساتھ کہنے لگا آج ابابیل کی فوج کہاں ہے؟ وہ کنکر کنکریاں کہاں ہیں؟ پھر حجر اسود کو اکھیڑ کر ساتھ لے گئے۔ حجر اسود ان کے قبضے میں 22 سال رہا اور اس سال حج نہیں ہوا کیونکہ لوگوں کو میدان عرفات میں وقوف سے روک دیا گیا تھا۔
(دیکھیئے المسائل العبکرىة: جلد، 84 صفحہ، 102)
شیعوں کی تاریخی فتوحات کی دوسری مثال: عباسی خلیفہ مستعصم کے وزیر ابنِ علقمی شیعی کی کرتوت یا نصیر الدین طوسی کا سیاہ کارنامہ ہے۔ ان دونوں نے مل کر اسلامی لشکر کو منتشر کیا۔ بے شمار فوجیوں کو بغداد سے بھگا دیاحتیٰ کہ وہ صرف دس ہزار رہ گئے ان دونوں نے تاتاریوں کے ساتھ ساز باز کر کے انہیں بغداد پر قبضہ کرنے کی ترغیب دلائی انہوں نے تاتاریوں کو بغداد کے راز اور کمزور پوائنٹ سے آگاہ کیا پھر جب تاتاری لشکر حملہ آور ہو گیا تو ابنِ علقمی نے مسلمانوں اور خلیفہ کو جنگ سے روک دیا اور انہیں یہ باور کرایا کہ تاتاری ان کے ساتھ صلح کے لیے آرہے ہیں اس لیے اپنے چند مصاحبین کے ساتھ تاتاریوں کے ساتھ صلح کے لیے جانے پر آمادہ کر لیا۔ دوسری طرف ابن علقمی اور اس کے بھائی طوسی نے تاتاریوں کو صلح نہ کرنے کا مشورہ دیا کہ خلیفہ اور اس کے ساتھیوں کو قتل کرنے کا مشورہ دیا۔ لہٰذا خلیفہ اور اس کے تمام مصاحبین قتل کر دیئے گئے۔ پھر تاتاریوں نے بغداد پر زور دار حملہ کر کے مردوں، عورتوں اور بچوں کو تہ تیغ کر دیا۔ اور ان میں سےکوئی زندہ نہ جا سکا سوائے اہلِ ذمہ یہودیوں اور عیسائیوں کے۔ اس طرح انہوں نے بغداد میں تقریباً دس لاکھ مسلمان قتل کیے تاتاریوں کی اس خونریزی جیسی خونریزی اسلامی تاریخ میں نہیں ملتی (اور یہ خونریزی دو شیعوں ابنِ علقمی اور طوسی کا کارنامہ ہے) انہوں نے ہاشمیوں کو بھی قتل کر دیا اورعباسی اور غیر عباسی سب کی عورتوں کو لونڈیاں بنا لیا۔
(مختصر أخبار الخلفاء: صفحہ، 126 ح، 137 أعيان الشيعه: جلد، 13 صفحہ، 287)
اس کے بعد ہم دیکھتے ہیں کہ شیعہ شیوخ ابنِ علقمی اور اس کے دست راست طوسی کو اپنا جلیل القدر بزرگ شمار کرتے ہیں اور ان کی انتہائی عزت و احترام کرتے ہیں مسلمانوں کے ساتھ ان کے بھیانک کردار کو ان کی تعظیم کاروائی اور معرکہ شمار کرتے ہیں۔ چنانچہ ملاں مجلسی نے ان الفاظ میں طوسی کو یاد کیا ہے لکھتا ہے خواجہ نصیر الدین طوسی شیخ اعظم اللہ ان کی روح کو پاک کرے سلطان ہلاکو کے وزیر تھے۔
(بحار الأنوار: جلد، 12 صفحہ، 106 كتاب الاجازات صورة اجازة الشيخ حسن بن الشهد الثانی السيد نجم الدين بن السيد محمد الحسينی بالإجازة الكبيرة المعروفة امل الأمل: جلد، 2 صفحہ، 347 نمبر، 1070 معجم رجال الحديث جلد، 21 صفحہ، 33 نمبر 13480)
اور خمینی نے ان الفاظ میں اسے خراج تحسین پیش کیا ہے: لوگوں کو خوانہ نصیر الدین طوسی اور اس جیسے لوگوں کی وفات کا آج تک افسوس ہے اور ان کی کمی شدت سے محسوس ہوتی ہے۔ انہوں نے اسلام کے لیے جلیل القدر خدمات سر انجام دی ہیں۔
(الحكومة الإسلامية: صفحہ، 132 سبيل تشكيل الحكومة الإسلامية التبليغ الإسلام الحقيقی اللناس)
یہ کون سی جلیل القدر خدمات تھیں؟ خمینی کے استاد خوانساری نے اس کا انکشاف ان الفاظ میں کیا ہے: اس سے پہلے نصیر الدین طوسی کے حالاتِ زندگی لکھتے ہوئے بیان کر دی تھیں اس کی مشہور و معروف خدمات میں سے یہ بھی ہے کہ اس نے سلطان معظم ہلاکو خان سے ملاقات کی تھی اور پھر سلطان کے لشکر کے ساتھ مکمل تیاری کر کے دار السلام بغداد پہنچاتا کہ لوگوں کی اصلاح اور راہنمائی کی جا سکے، بغاوت و فساد کی جڑ کاٹی جا سکے، اور علم و جور کی آگ ختم ہو سکے، بنی عباس کے بادشاہ کو ختم اور اس کمینے کے مانے والوں کا قتل عام کیا جاسکے۔ حتیٰ کہ اس نے ان کے گندے خون کی نہریں بہادیں جو دریائے دجلہ میں جاگریں اور وہاں سے ہلاکت اور شریر و اشقیاء کے گھر جہنم رسید ہو گئے۔
(روضات الجنان في أحوال العلماء والسادات: جلد، 1 صفحہ، 279 الكنى والالقاب: جلد، 2 صفحہ، 743)
لیجیئے! ایک اور شیعہ علامہ کی کارستانی ملاحظہ فرمائیں خلیفہ رشید کا وزیر علی بن یقطین شیعہ تھا۔ اس نے ایک رات میں پانچ سو مسلمان قتل کیے۔ الجزائری لکھتا ہے کہ: روایت میں آیا ہے کہ علی بن یقطین جو کہ رشید کا وزیر تھا، اس کے قید خانے میں مخالفین (سنیوں) کی ایک جماعت قید تھی اور علی بن یقطین خاص الخاص شیعہ تھا، اس نے اپنے سپاہیوں کو حکم دیا تو انہوں نے قید خانے کی چھت قیدیوں پر گرا دی جس سے وہ سب مر گئے اور وہ تقریباً پانچ سو آدمی تھے۔
(الأنوار النعمانية: جلد، 2 صفحہ، 308 ظلمة حالكة فی بيان احوال الصوفية والنواصب)
لیجیئے شیعہ کے امام سلطان اعظم شاہ عباس اول کی کرتوت بھی سنتے جائیں۔ جب اس نے بغداد فتح کر لیا تو اس نے حکم دیا کہ امام ابوحنیفہؒ کی قبر کو لیٹرین بنا دیا جائے اور دو خچر اس کام کے لیے وقف کیے جو کہ بازار میں باندھے جاتے تھے، جو شخص قضائے حاجت کے لیے امام ابوحنیفہؒ کی قبر پر بنی لیٹرین تک جانا چاہے وہ ان سرکاری خچروں کو استعمال کرے۔ پھر ایک دن اس نے قبر کے مجاور کو بلایا اور کہا: اب تم اس قبر کی کیا خدمت کر رہے ہو جبکہ اس وقت ابوحنیفہؒ جہنم کے سب سے گہرے گڑھے میں پڑا ہے؟ تو اس نے جواب دیا یقیناً اس قبر میں ایک سیاہ کتا دفن ہے۔
تیرے دادا مرحوم شاہ اسماعیل نے تم سے پہلے جب بغداد فتح کیا تھا تو اس نے ابوحنیفہؒ کی ہڈیاں قبر سے نکلوا کر اس میں سیاہ کتا دفن کر دیا تھا تو میں اس کتے کی خدمت پر مامور ہوں۔ پھر شیعہ علامہ الجزائری نے اس واقعہ پر تعلیق چڑھائی کہ وہ مجاور سچا تھا، کیونکہ شاہ اسماعیل مرحوم نے ایسے ہی کیا تھا۔
(الأنوار النعمانية: جلد، 2 صفحہ، 324 نور فی الطهارة والصلاة، الكشكول: جلد، 1 صفحہ،351 بعض كرامات قبر ابی حنيفة)