کیا سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا قاتل ابو لؤلؤ فیروز واقعی ایک مجوسی تھا یا مسلمان؟
دارالتحقیق و دفاعِ صحابہؓکیا سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا قاتل ابو لؤلؤ فیروز واقعی ایک مجوسی تھا یا مسلمان؟
ایک رافضی (شیعہ) دجال کا دھوکہ اور فریب، لکھتا ہے:
اہل سنت علماء اپنی عوام کو یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ سیدنا عمر بن خطابؓ کی حکومت میں چونکہ فارس فتح ہوا لہٰذا اس کے قاتل بھی وہاں کے مجوسی ہی تھے اور انکا دعویٰ ہے کہ ابو لولو جس نے سیدنا عمر بن خطابؓ کو قتل کیا تھا وہ بھی ایک مجوسی ہی تھا، جبکہ حقیقت اسکے برعکس ہے
ابو یعلیٰ موصلی نے اپنی سند سے بیان کیا ہے کہ ابو رافع نے فرمایا ابو لولو مغیرہ کا غلام چکیان بناتا تھا، مغیرہ اس سے چار درہم روزانہ وصول کرتا تھا، جس وقت وہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے ملا اس نے شکایت کی کہ اے امیر المومنین! مغیرہ مجھ سے زیادتی کرتا ہے آپؓ انہیں تنبیہ کر دیجیئے آپؓ نے جواب میں فرمایا: اللہ کا خوف کرو اور اپنے مالک کے ساتھ اچھی طرح پیش آنا(مسند ابو یعلیٰ موصلی: جلد، 2 صفحہ، 559،560 رقم، 2723 طبع دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان)
نور الدین ہیثمی نے اس روایت کو اپنی کتاب میں نقل کیا اور پھر یوں لکھا:
اس کو ابو یعلیٰ نے روایت کیا ہے اور اس کے تمام راوی صحیح ہیں(مجمع الزوائد، نور الدین ہیثمی: جلد، 9 صفحہ، 51 رقم، 14464 طبع دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان)
ابنِ شبہ نمیری نے اس کو سیدنا عبداللہ بن عمرؓ کی سند سے نقل کیا ہے وہاں بھی یہی الفاظ ہیں (تاریخِ مدینہ، ابنِ شبہ: جلد، 2 صفحہ، 64 طبع دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان)
ان احادیث سے صاف ظاہر ہے کہ سیدنا عمر بن خطابؓ کے نزدیک وہ ایک مسلمان تھا ورنہ ایک مجوسی کو وہ اِتَّقِ اللّٰهَ (اللہ سے ڈرو) کیوں کہتا؟ تاریخِ خلفاء میں بھی یہ روایت موجود ہے لیکن وہاں ترجمہ کرنے والے نے خیانت کرتے ہوئے "اللہ سے ڈرو" والے الفاظ کو ہی حذف کیا ہوا ہے(تاریخ الخلفاء جلال الدین سیوطی: اردو ترجمہ، شمس بریلوی صفحہ، 213 طبع ادلامک پبلشر دہلی ہندوستان)
الجواب: امام ابو یعلیٰ یا علامہ نور الدین ہیثمی نے کہیں نہیں لکھا کہ ابو لؤلؤ فیروز نامی قاتل کوئی مسلمان تھا، اس لیے یہ دونوں محدثین پر اس مشرقی دجال کا بہتان عظیم ہے۔
علماء نے اس کے مذہب کےتعین میں اختلاف کیا ہے، بعض نے اس کو مجوسی لکھا ہے اور بعض نے نصرانی، ہاں مگر اس کا مسلمان ہونا بالکل بھی ثابت نہیں ہے۔
1: امام حاکم نیشاپوری نے اپنی سند سے ابو لؤلؤ کو نصرانی لکھا، روایت نقل کی:
حدیث نمبر 4512: حدثنا ابوسعید احمد یعقوب الثقفک و ابوبکر محمد بن احمد بن بالویه (ثقه) قالا ثنا الحسن بن علی بن شبیب المعمری (صدوق) ثنا محمد بن عبید بن حساب (ثقه) ثنا جعفر بن سلیمان (ثقه) عن ثابت (ثقه) عن ابی رافع (ثقه) قال کان ابولؤلؤۃ للمغیرۃ بن شعبة وکان یصنع الرحاء وکان المغیرۃ یستعمله کل یوم باربعة دراھم فلقی ابو لؤلؤ عمرؓ فقال یا امیر المؤمنینؓ ان المغیرۃ قد اکثر علی فکلمه ان یخفف عنی فقال لہ عمرؓ اتق الله و احسن الی مولاك قال ومن نیة عمر ان یلقی المغیرة فیکلمه فی التخفیف عنه قال فغضب ابو لؤلؤ وکان اسمه فیروز وکان نصرانیا۔
(المستدرك على الصحيحين)
1: محمد بن بالويہ النيسابوری الكنيہ: أبو علی (ثقہ)
2: الحسن بن علی المعمری الكنيہ: أبو علی (الدارقطنی صدوق)
3: محمد بن عبيد الغبری، البصری (ثقہ) توفی عام: 238
4: جعفر بن سليمان الضبعی الكنيہ: أبو سليمان (صدوق يتشيع)
5: ثابت بن أسلم البنانی الكنيہ: أبو محمد، البصری (ثقہ)
6: أبو رافع القبطی الكنيہ: أبورافع (صحابی)
2: ابنِ عبدالبر الاندلسی نے اس کے بارے میں اختلاف نقل کیا کہ کوئی اس کو مجوسی کہتا ہے اور کوئی نصرانی، پھر لکھا:
فقال بعضھم کان مجوسیا وقال بعضھم کان نصرانیا فحدثنا ابوسنان سعید بن سنان عن ابی اسحاق الھمدانی عن عمرو بن میمون الادوی قال کان ابو لؤلؤ ازرق نصرانیا (الاستيعاب فی معرفة الأصحاب)
یعنی ثقہ تابعی عمرو بن ميمون الاودیؒ متوفی (75ھ) سے اس کا نصرانی ہونا نقل فرمایا ہے۔
3: مؤرخ محمد بن سلامۃ القضاعی المصری (ثقہ) متوفی (454ھ) نے اپنی تاریخ میں لکھا:
ضربه ابو لولو فيروز الفارسی، غلام المغيرة بن شعبة، وكان مجوسيّاً، وقيل: كان نصرانيّاً۔
(تاريخ القضاعی كتاب عيون المعارف)
ابو لؤلؤہ فیروز الفارسی، مغیرہ بن شعبہ کا غلام اور مجوسی تھا، اور کہا گیا کہ وہ نصرانی تھا۔
4: محمد بن حبیب الہاشمی، ابو جعفر البغدادی (متوفی 245ھ) نے لکھا:
النمری قتله ابو لؤلؤة المجوسی۔ (المحبر)
5: علامہ ابنِ کثیرؒ نے لکھا:
فاتفق لہ ان ضربه ابو لؤلؤ فیروز المجوسی الاصل الرومی الدار فقال الحمدلله الذی لم یجعل منیتی علی یدی رجل یدعی الایمان ولم یسجد لله سجدۃ(البدايہ والنہايہ)
ابو لؤلؤ مجوسی الاصل رومی گھرانے سے تعلق رکھتا تھا اس کے بعد سیدنا عمر فاروقؓ کا قول نقل کیا اللہ کا شکر ہے کہ جس نے میری موت کسی ایسے شخص کے ہاتھوں نہیں کرائی جو ایمان کا دعوے دار ہے اور اس نے اللہ کو ایک سجدہ بھی نہیں کیا ہے۔
پس ثابت ہو گیا کہ سیدنا عمر بن خطابؓ کا قاتل ابو لولو فیروز ایک مجوسی یا نصرانی تھا، کوئی مسلمان نہیں تھا، اور اس نصرانی کو مسلمان قرار دے کر لوگوں کو گمراہ کرنے والوں کو اللہ ہلاک کر دے اور دنیا اور آخرت میں سب کے سامنے ذلیل اور خوار کرے، آمین۔