اہل تشیع موجودہ قرآن کریم کو نا مکمل اور محرف تسلیم کرتے ہیں، اور حضور اکرمﷺ کے سُسر اور داماد کو ظالم، کافر اور ملعون قرار دیتے ہیں۔ ایسے بدعقیدہ لوگوں سے کسی سنی کا دینی اور مذہبی تعلق جائز نہیں، ان گستاخ لوگوں کے ساتھ نہ رشتہ ناطہ کریں نہ کرائیں اور نہ
اہل تشیع موجودہ قرآن کریم کو نا مکمل اور محرف تسلیم کرتے ہیں، اور حضور اکرمﷺ کے سسر اور داماد کو ظالم، کافر اور ملعون قرار دیتے ہیں۔ ایسے بدعقیدہ لوگوں سے کسی سنی کا دینی اور مذہبی تعلق جائز نہیں، ان گستاخ لوگوں کے ساتھ نہ رشتہ ناطہ کریں نہ کرائیں اور نہ ہی ان کی محافل و مجالس میں شمولیت کریں:
قرآن کریم وہ عظیم کتاب ہے جس کی حفاظت اللہ تعالیٰ جل شانہ نے خود اپنے اوپر چھوڑی ہے۔ لیکن اس کے برعکس اہلِ تشیع کا اجماعی عقیدہ ہے کہ موجودہ قرآن کریم نا مکمل اور محرّف ہے، اور اس سلسلہ کی تائید میں ان کے ہاں اس قدر روایات پائی جاتی ہیں جو ان کے بقول حد تواتر سے بھی بڑھ جاتی ہیں۔ ان کے عقیدہ کی ترجمانی کیلئے ایک حوالہ ملاحظہ ہو
تفسير مرأة الانوار کے جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 19 پر ہے کہ تمہیں اچھی طرح جان لینا چاہیے کہ ان مذکور امور (قرآن کریم کے محرّف اور نا مکمل ہونے) پر لا تعداد احادیث دلالت کرتی ہیں، بلکہ ان میں اکثر پر شیعہ امامی علماء کا اجماع ہے، اور ان کے حق ہونے پر نص کی گئی ہے، بلکہ یہ بات تو شیعہ مذہب کی ضروریات دینیہ میں سے ہے۔ علاؤہ ازیں اہلِ تشیع یہ بھی نظریہ رکھتے ہیں کہ اصل قرآن سیدنا علیؓ لے کر آئے تھے جس میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور قریش وغیرہ کی مذمت تھی، جب اسے ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ نے دیکھا تو رد کر دیا۔ اس پر سیدنا علیؓ نے کہا کہ اب یہ قرآن تمہیں نہیں ملے گا۔ چنانچہ خلفائے ثلاثہؓ نے ملی بھگت سے ادھر اُدھر سے اپنی مرضی کی آیات جمع کئے، اور بوجہ غاصب اور ظالم ہونے کے انہوں نے اپنے حق میں بہت سی آیات جمع کر دیں۔ اور اصل قرآن میں سے وہ آیات جو ائمہ اہلِ بیتؓ کے اسمائے گرامی پر مشتمل ہیں، جن میں ان کے فضائل و مناقب تھے، نکال باہر کر دیا۔ (معاذاللہ)
قارئين كرام.....!
ان حوالہ جات کے ذکر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اہلِ تشیع موجودہ قرآن کریم کو نا مکمل اور محرّف تسلیم کرتے ہیں، اور حضور اکرمﷺ کے سُسر اور داماد سیدنا صدیق اکبرؓ سیدنا فاروق اعظمؓ سیدنا عثمان غنیؓ کو (معاذ اللہ) ظالم، کافر اور ملون قرار دیتے ہیں۔ ایسے بدعقیدہ لوگوں سے کسی سنی کا دینی اور مذہبی تعلق کب جائز ہے؟
مختصر یہ کہ اہلِ تشیع کا نہ موجودہ قرآن پر ایمان ہے اور نہ ہی ان کے پاس ائمہ اہل بیتؓ کے صحیح فرامین و ارشادات موجود ہیں یہی دو باتیں تھیں کہ جن کو مضبوطی سے تھامنے کا حضور اکرمﷺ نے حکم دیا ہے۔ ان دونوں سے محرومی کے علاؤہ سرکار دو عالمﷺ کے سسرال (سیدنا صدیق اکبرؓ اور سیدنا فاروق اعظمؓ) اور آپﷺ کے داماد (سیدنا عثمان غنیؓ) اور دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو مسلمان نہ سمجھتے ہوئے ان پر لعن طعن کرنا جائز قرار دیا۔ تو ایسے لوگوں سے سرکار دو عالمﷺ کا کیا تعلق ہو سکتا ہے؟ ان سے اللہ تعالیٰ جل شانہ اور اس کے حبیبﷺ کب راضی ہو سکتے ہیں؟
لہٰذا میں اپنے تمام مریدین متوسلین اور متعلقین کو حکم دیتا ہوں کہ ان گستاخ لوگوں کے ساتھ نہ رشتہ ناطہ کریں نہ کرائیں اور نہ ہی ان کی محافل و مجالس میں شمولیت کریں۔ کیونکہ اسکا نتیجہ یہی نکلے گا کہ نہ ہی اس سے رسول اللہﷺ راضی رہے گے۔ اور: خسر الدنيا والاخرة ذلك هو الخسران المبین کے مصداق بننا پڑے گا۔
(عقائد جعفريه: جلد، 3 صفحہ، 616)