احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ کا فتویٰ شیعہ کے ساتھ تعلقات رکھنے، ان کا ذبیحہ کھانے اور ان سے مناکحت کرنے کا حکم
احمد رضا خان بریلویؒ کا فتویٰ
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلے میں کہ ایک بی بی سیدہ سنی المذہب نے انتقال کیا ان کے بعض بنی عم تبرائی رافضی ہیں وہ عصبہ بن کر ورثہ سے ترکہ لینا چاہتے ہیں حالانکہ روافض کے یہاں عصوبت اصلاً نہیں۔ اس صورت میں وہ ارث کے مستحق ہو سکتے ہیں یا نہیں؟
جواب: بالجملہ ان رافضیوں تبرائیوں کے باب میں قطعی حکم یہ ہے کہ وہ علی المعموم کفار مرتدین ہیں۔ ان کے ہاتھ کا ذبیحہ مردار ہے، ان کے ساتھ مناکحت نہ صرف حرام بلکہ خالص زنا ہے۔ مرد رافضی اور عورت مسلمان ہو تو یہ سخت قہر الٰہی ہے اگر مرد سنی اور عورت ان خبیثوں میں سے ہو تب بھی ہرگز نکاح نہ ہو گا مخض زنا ہو گا۔ اولاد ولد الزنا ہو گی، باپ کا ترکہ نہ پائے گی، اگرچہ اولاد بھی سنی ہو، کہ شرعاً ولد الزنا کا باپ کوئی نہیں، عورت نہ ترکہ کے مستحق ہو گی نہ مہر کی، کہ زانیہ کے لیے مہر نہیں۔
رافضی اپنے کسی قریب حتٰی کہ باپ، بیٹے، ماں اور بیٹی کا بھی ترکہ نہیں پا سکا، سنی تو سنی کسی مسلمان بلکہ کسی کافر کے بھی یہاں تک کہ خود اپنے مذہب رافضی کے ترکے میں اس کا اصلاً کچھ حق نہیں۔ ان کے مرد عورت، عالم جاہل، کسی سے میل جول، سلام کلام، سب سخت کبیرہ اشد حرام ہے۔ جو ان کے ملعون عقیدوں پر آگاہ ہو کر پھر بھی انہیں مسلمان جانے یا ان کے کافر ہونے میں شک کرے باجماع تمام ائمہ خود کافر بے دین ہے اور اس کے لیے بھی یہی احکام ہیں جو ان کے لیے مزکورہ ہوئے۔
مسلمانوں پر فرض ہیں کہ اس فتوے کو بگوش ہوش سنیں اور اس پر عمل کر کے سچے پکے مسلمان سنی بنیں۔
(اتشکدہ ایران اور شیعہ کی اصلیت: صفحہ، 85)