روافض کی طرح قرآن کی چالیس پارے ماننے والے کا حکم
روافض کی طرح قرآن کی چالیس پارے ماننے والے کا حکم
سوال: ایک پیر جی اپنے مریدوں کو اس بات کی تعلیم دیتا ہے کہ قرآن کریم کے چالیس پارے تھے، دس پارے فقیروں نے چاٹ لیے۔ آیا اس پیر صاحب کے متعلق شریعت میں کیا حکم ہے؟
جواب: وہ جاہل پیر روافض کا ہمنوا و ہمسر ہے، اس پر اپنے اس گندے عقیدے سے توبہ فرض ہے۔ توبہ کے بعد تجدیدِ ایمان اور تجدیدِ نکاح بھی اگر بیوی رکھتا ہو کرے۔
قرآن کریم اللہ تعالیٰ جل شانہ کی وہ مبارک کتاب ہے جس میں کمی و بیشی تغیر و تبدل سے حفاظت و صیانت کا خود ہی اسی قرآن کریم میں وعدہ فرمایا ہے
وَاِنَّا لَهٗ لَحٰـفِظُوۡنَ (سورۃ الحجر: آیت، 9)
ترجمہ: اور بے شک ہم خود ہی اس کے نگہبان ہیں۔ نیز ارشاد ہے
لَّا يَاۡتِيۡهِ الۡبَاطِلُ مِنۡۢ بَيۡنِ يَدَيۡهِ وَلَا مِنۡ خَلۡفِهٖؕ تَنۡزِيۡلٌ مِّنۡ حَكِيۡمٍ حَمِيۡدٍ (سورۃ الفصلت: آیت، 42)
ترجمہ: باطل کو اس طرف راہ نہیں، نہ اس کے آگے سے نہ اس کے پیچھے سے۔
اس جاہل نے روافض کی طرح وہ بک کر چالیس پارے تھے، دس پارے گم ہو گئے، قرآن کریم کے محفوظ ہونے کا انکار کیا۔
(فتاویٰ اعظم: جلد، 2 صفحہ، 14)