کیا خوارج مشرک یا منافق تھے؟
امام ابنِ تیمیہؒ[کیا خوارج مشرک یا منافق تھے؟]رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے لوگوں کو اپنی امت سے خارج نہیں کیا ؛ بلکہ اپنی امت میں شمار کیا ہے ‘ اور نہ ہی انھیں دائمی جہنمی قرار دیا ہے ۔مذکورہ صدر قاعدہ ایک عظیم اصول ہے جسے ملحوظ رکھنا نہایت ضروری ہے۔ اس لیے کہ سنت کی جانب منسوب بعض فرقوں میں خوارج اور روافض کی قسم کی بدعات پائی جاتی ہیں ۔ یہ بات بھولنے نہ پائے کہ اصحاب رسول مثلاً حضرت علی رضی اللہ عنہ ان خوارج کی تکفیر نہیں کرتے تھے جن کے خلاف وہ جنگ آزما تھے۔ خوارج نے جب پہلی مرتبہ حَرَوراء نامی مقام پر جمع ہو کر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف خروج کیا؛ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اطاعت اور اہل سنت و الجماعت سے خارج ہوگئے؛ تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے انھیں مخاطب کرکے فرمایا:’’ ہم پر تمہارا حق یہ ہے کہ ہم تمہیں اپنی مساجد میں آنے سے نہ روکیں ؛ لیکن مالِ غنیمت کے حصہ سے تمہیں محروم کرتے ہیں ۔‘‘
پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہ کو خوارج کی طرف بھیجا اور آپ نے ان سے مناظرہ کیا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ خوارج میں سے آدھے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف لوٹ آئے، جو باقی بچے ان کے خلاف آپ نے جنگ لڑی اور ان کو زیر کیا۔تاہم ان کی اولاد کو قیدی بنایا نہ ان کے مال کو مال غنیمت قرار دیا اور نہ ان کے ساتھ وہ سلوک روا رکھا جو صحابہ کرام مسیلمہ جیسے مرتدین سے کیا کرتے تھے۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا خوارج کے ساتھ معاملہ مرتدین کے ساتھ معاملہ کے برعکس تھا۔ اس سلوک پر صحابہ کرام میں سے کسی ایک نے بھی انکار نہیں کیا ۔ اس سے معلوم ہوا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے نزدیک خوارج کافر اور مرتد نہ تھے ؛ اس پر صحابہ کرام کا اتفاق تھا۔محمدبن نصر المروزی رحمہ اللہ کہتے ہیں : حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اہل بغاوت سے جہاد و قتال کی ذمہ داری اٹھائی۔ اور اس سلسلہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے احادیث روایت کیں ۔ لیکن پھر بھی انہیں مسلمان ہی کہا؛ اور ان کے متعلق اہل ایمان کے فیصلوں کے مطابق فیصلے کئے۔ حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ نے بھی ایسے ہی کیا۔محمدبن نصر المروزی نے اپنی سندسے قیس بن مسلم طارق بن شہاب سے نقل کرتے ہیں کہ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ نہروان (واسط و بغداد کے درمیان ایک بڑا قصبہ جہاں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے خوارج سے جنگ لڑی تھی) کی لڑائی سے فارغ ہوئے تو میں آپ کے ہمراہ تھا۔ لوگوں نے دریافت کیا کیا خوارج مشرک ہیں ؟ آپ نے فرمایا: ’’ وہ شرک سے تو بھاگے تھے۔‘‘ لوگوں نے پوچھا کیا وہ منافق ہیں ؟ فرمایا: منافق تو اﷲکو بہت کم یاد کیا کرتے ہیں ۔‘‘ لوگوں نے دریافت کیا آخر خوارج ہیں کون؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جواباً فرمایا:’’ انھوں نے ہمارے خلاف بغاوت کی تھی اور ہم نے ان سے جنگ لڑی۔‘‘ [سنن کبریٰ، بیہقی:۸؍۱۸۲]محمدبن نصر المروزی نے اپنی سند سے ابووائل سے روایت کیاہے؛ فرمایا: ایک آدمی نے کہا: جس دن مشرکین قتل ہوئے ؛ تو چتکبرے خچر کی طرف کس کو بلایاگیا تھا؟حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’وہ لوگ شرک سے ہی تو بھاگے تھے ۔پھر کہا گیا : وہ منافقین ہیں ۔‘‘تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’ منافقین تو اللہ تعالیٰ کو بہت کم یاد کرتے ہیں ۔‘‘پھر پوچھاگیا: پھر وہ کون تھے؟ توآپ نے فرمایا: ’’ وہ ایسے لوگ تھے جنہوں نے ہمارے خلاف بغاوت کی ؛ ہم نے ان سے جنگ لڑی۔‘‘اور[محمدبن نصر المروزی رحمہ اللہ اپنی سند سے حضرت حکیم بن جابر رحمہ اللہ سے روایت کرتے ہیں ؛فرمایا]:
جب حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نہروان کی جنگ لڑی تو آپ سے پوچھا گیا: کیا وہ لوگ مشرک تھے؟حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’وہ لوگ شرک سے ہی تو بھاگے تھے ۔‘‘پھر کہا گیا :’’ وہ منافقین ہیں ۔‘‘تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’ منافقین تو اللہ تعالیٰ کو بہت کم یاد کرتے ہیں ۔‘‘پھر پوچھاگیا: پھر وہ کون تھے؟تو آپ نے فرمایا: ’’ وہ ایسے لوگ تھے جنہوں نے ہم سے جنگ کی؛ ہم نے ان سے جنگ کی۔انہوں نے ہم سے لڑائی لڑی؛ ہم نے ان سے جنگ لڑی۔‘‘میں کہتا ہوں : یہ حدیث اور پہلی حدیث دونوں اس مسئلہ صاف اور صریح ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یہ بات حروریہ؛ خوارج اہل نہروان کے متعلق کہی تھی۔ جن کے بارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح احادیث منقول ہیں کہ آپ نے ان کی مذمت کی تھی؛ اور انہیں قتل کرنے کا حکم دیا تھا۔یہ لوگ حضرت عثمان؛ حضرت علی رضی اللہ عنہمااور ان دونوں حضرات سے محبت کرنے والوں کو کافر کہتے تھے۔ اور جو بھی ان کا ساتھ نہ دیتا ؛ وہ ان کی نظر میں کافر ہوتا؛ اور اس کا دار ؛دار کفر شمار کرتے تھے۔ ان کے نزدیک دار الإسلام وہی تھا جو ان کے قبضہ میں تھا۔علامہ اشعری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی تکفیر پر خوارج کا اجماع ہے۔ مگر اس کے باوجود حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان سے اس وقت جنگ کی جب انہوں نے اپنی طرف سے جنگ کی ابتداء کی۔ انہوں نے حضرت عبداللہ بن خباب رضی اللہ عنہ کو قتل کیا۔ تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان سے قاتل کا مطالبہ کیا؛ تو انہوں نے کہا: ہم سب نے اسے قتل کیا ہے۔ پھر انہوں نے لوگوں کی چراگاہوں [مویشیوں ]پر حملہ کردیا۔ اسی لیے آپ نے ان کے متعلق یوں ارشاد فرمایا:’’ وہ ایسے لوگ تھے جنہوں نے ہم سے جنگ کی؛ ہم نے ان سے جنگ کی۔ انہوں نے ہم سے لڑائی لڑی؛ ہم نے ان سے جنگ لڑی۔‘‘اور آپ نے یہ بھی فرمایا: ’’ انہوں نے ہمارے خلاف بغاوت کی ؛ ہم نے ان سے جنگ لڑی۔‘‘صحابہ کرام اور علمائے اسلام اور بعد میں آنے والوں کا ان سے جنگ لڑنے پر اتفاق ہے ؛ اس لیے کہ انہوں نے تمام مسلمانوں پر سرکشی کی ہے؛ سوائے ان لوگوں کے جو ان کے مذہب میں ان کے ہم نوا او رموافق ہیں ۔اوروہ اپنی طرف جنگ شروع کرتے ہیں ۔ اور ان کے شر کا خاتمہ صرف قتال سے ہی ممکن ہے۔یہ لوگ مسلمانوں کے لیے چوروں او رڈاکؤوں سے زیادہ نقصان دہ تھے۔ کیونکہ راہزنوں کا مقصود صرف مال ہوتا ہے۔ اگر انہیں مال دے دیا جائے تو وہ کسی سے نہیں لڑتے؛ [یہ علیحدہ بات ہے کہ بعض لوگوں سے کسی اور وجہ سے لڑ پڑیں ] جب کہ یہ خوارج دین کی وجہ سے لڑتے ہیں ؛ حتی کہ لوگ کتاب و سنت اور اجماع صحابہ کو چھوڑ کر ان کی بدعات اور باطل تأویلات او رفاسد فہم قرآن کو قبول کرلیں ۔حضرت علی رضی اللہ عنہ نے واضح کردیا کہ خوارج مومن ہیں کافر و منافق نہیں ۔یہ بات بعض لوگوں کے عقیدہ کے خلاف ہے۔ اس سے ابو اسحاق اسفرائنی اور اس کے اتباع کی تردید ہوتی ہے جن کا قول ہے کہ جو فرقہ ہماری تکفیر کرتا ہے ہم اس کو کافر قرار دیں گے۔اس لیے کہ کفر کسی انسان کاحق نہیں ، بلکہ اﷲکا حق ہے۔ انسان کو یہ حق حاصل نہیں کہ تکذیب کرنے والے کی تکذیب کرے۔ اور جو اس کی بیوی سے بدکاری کا ارتکاب کرے وہ اس کی بیوی سے زنا کرے، کیوں کہ یہ حرام ہے۔بلکہ اگر کسی انسان کو اگر لواطت پر مجبور کیا جائے تو اس کے لیے جائز نہیں کہ وہ اسے بھی اس کام پر مجبور کرے۔اور اگرکسی انسان کو زہریلی شراب پلا کر ہلاک کردیا جائے ؛ اس سے لواطت کی جائے ؛ تو اس کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ بھی جواباً ایسے ہی کرے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا حق ہونے کی وجہ سے حرام ہے۔ ایسے ہی فرض کیجیے ایک عیسائی سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی بکتا ہے تو کیا ہم حضرت مسیح کو گالی دینے پر تل جائیں ۔روافض اگر شیخین کی تکفیر کرتے ہیں ، تو ہم حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تکفیرنہیں کر سکتے ۔حضرت ابو وائل رضی اللہ عنہ کی حدیث سابقہ دونوں احادیث کے موافق ہے۔ ظاہر میں لگتا ہے کہ یہ یوم نہروان کا واقعہ ہے۔ اہل جمل اور اہل صفین کے بارے میں اس سے بھی اچھی باتیں کہی تھیں ۔ سفیان جعفر بن محمد سے روایت کرتے ہیں اور وہ اپنے والد امام باقر سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جنگ جمل یا صفین کے دن ایک شخص کو سنا جو بہت مبالغہ آمیزی سے کام لے رہا تھا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے سن کریہ فرمایا:’’ وہی بات کہو جو اچھی ہو، ہمارے مخالفین نے سمجھا تھا کہ ہم نے ان کے خلاف بغاوت کی، ادھر ہم نے یہ خیال کیا کہ وہ باغی ہیں ۔ اس لیے ہم ان کے خلاف جنگ آزما ہوئے۔‘‘ابو جعفر سے روایت کیا گیا ہے کہ : ان سے کہا گیا کہ آپ نے ان لوگوں سے اسلحہ واپس لے لیا تھا۔ تو آپ نے فرمایا: ’’ایساکرنا انہیں کچھ بھی کام نہ آیا۔‘‘مکحول روایت کرتے ہیں کہ اصحابِ علی رضی اللہ عنہ نے رفقائِ معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں پوچھا جو مقتول ہو چکے تھے کہ وہ کون ہیں ؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جواباً فرمایا: ’’ وہ مومن ہیں ۔‘‘عبد الواحد بن ابی عون کہتے ہیں کہ: حضرت علی رضی اللہ عنہ اشترنخعی کے ساتھ ٹیک لگائے جنگ صفین کے مقتولین کے پاس سے گزرے۔ اچانک دیکھا کہ حابس یمانی مقتول پڑے ہیں ۔[1] [1] حابس بن ربیعۃ الیمانی رضی اللہ عنہ بڑے عابد و زاہد صحابی تھے۔ انھوں نے جنگ صفین میں سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کا ساتھ دیا اور اسی جنگ میں مقتول ہوئے۔ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے الاصابہ میں ان کے حالات زندگی نقل کیے ہیں ۔ اشتر نے انا ﷲ و انا الیہ راجعون پڑھا اور کہا حابس یمانی مقتولین میں پڑے ہیں ۔ اور ان پر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی علامت ہے۔(یعنی یہ جنگ میں رفقائے معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے) اﷲ کی قسم! یہ بڑے پکے مومن تھے۔ یہ سن کر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا :
’’ وہ اب بھی مومن ہیں ۔‘‘حضرت حابس اہل یمن میں سے تھے؛ اور بڑے ہی عابد و زاہد اور مجتہد انسان تھے۔محمد بن یحییٰ کہتے ہیں : ہم سے محمد بن عبید نے بیان کیا؛ ان سے مختار بن نافع نے؛ وہ ابی مطر سے روایت کرتے ہیں ؛ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’ وہ بد بخت کب اٹھے گا۔‘‘ آپ سے پوچھا گیا : کونسا بدبخت ؟تو آپ نے فرمایا: ’’ جو مجھے قتل کرے گا۔‘‘پس ابن ملجم نے آپ کے سر پر تلوار کا وار کیا۔ مسلمانوں نے اس کو قتل کرنا چاہا؛ تو آپ نے منع کردیا؛ اور فرمایا: اس کو قتل نہ کرنا۔ اگر میں ٹھیک ہوگیا تو زخم کا بدلہ ہوگا۔ او راگر میں مر گیا تو اسے قتل کردینا۔ اس پر ابن ملجم نے کہا: آپ تو مریں گے ہی ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے پوچھا :اس کی تمہیں کیا خبر ہے ؟تو وہ بولا: میری تلوار زہر میں بجھی ہوئی تھی۔‘‘[ تارِیخِ الطبرِیِ 5؍143 ] میں کہتا ہوں : حدیث عمار میں مروی ہے کہ جب انھوں نے یہ کہا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان پر شدید انکار کیا اور فرمایا: کیا تم اس رب کا انکار کرتے ہو جس پر عثمان رضی اللہ عنہ ایمان لے آئے ہیں ؟ اور انھیں واضح کیا کہ ان کا قول باطل ہے۔ اگرچہ خارجی لوگ یہ ظاہر کرتے تھے کہ وہ خونِ عثمان کے لیے لڑ رہے ہیں لیکن حضرت علی رضی اللہ عنہ تکفیر عثمان رضی اللہ عنہ کا شدت کے ساتھ انکار کیا کرتے تھے۔رہے حضرت عمار رضی اللہ عنہ جو تاویل کے ساتھ اس بات کے قائل تھے، تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی وضاحت کے بعد کہ ان کا قول باطل ہے، انھوں نے اپنے قول سے رجوع کر لیا تھا۔