غیر مسلموں کو اسلامی شعائر و اصطلاحات کے استعمال کا حق نہیں
غیر مسلموں کو اسلامی شعائر و اصطلاحات کے استعمال کا حق نہیں
جب ابو عامر منافق کے کہنے پر مدینہ منورہ کے منافقین نے مسجدِ ضرار تعمیر کر ڈالی، جس کی بنیاد محض ضد، کفر و نفاق، عداوت اسلام اور مخالفت خدا و رسول پر رکھی گئی، جو بظاہر مسجد تھی، مگر درحقیقت مسجد کی شکل میں اسلام دشمن کارستانیوں اور سازشوں کا مرکز تھا، تو اللّٰہ تعالیٰ کے حکم سے حضرت جبرائیلؑ نازل ہوئے اور ان منافقین کے ناپاک عزائم اور اسلام دشمن اغراض پر مطلع کر کے مسجدِ ضرار کا پول کھول دیا۔ فرمایا:
وَالَّذِيۡنَ اتَّخَذُوۡا مَسۡجِدًا ضِرَارًا،الخ..... وَاللّٰهُ يَشۡهَدُ اِنَّهُمۡ لَـكٰذِبُوۡنَ: اور جنہوں نے دکھ دینے کو اور اللّٰہ تعالیٰ سے کفر کرنے کو اور مسلمانوں میں تفریق ڈالنے کو اور اس شخص (ابو عامر نصرانی منافق) کو پناہ دینے کی نیت سے جو خدا یعنی اس کے رسول سے پہلے کئی دفعہ لڑ چکا ہے (ان ظالموں نے ایک) مسجد بنائی، حلف اٹھا جائیں گے کہ ہمیں بھلائی کا خیال ہے، اور اللّٰہ تعالیٰ خود گواہی دیتا ہے کہ وہ جھوٹے ہیں، تو اس کی مسجد میں کبھی کھڑا نہ ہو۔
اس آیت شریفہ میں اس مسجد کو مسجدِ ضرار قرار دینے کے اللّٰہ تعالیٰ نے چار ناپاک مقاصد بیان فرمائے ہیں:
(اول) ضرار یعنی قباء کے مخلص مسلمانوں کو نقصان پہنچائیں، کیونکہ مسجد قبا کی وجہ سے انہیں ایک خاص عزت حاصل ہو گئی تھی، جیسے فرمایا: فِيۡهِ رِجَالٌ يُّحِبُّوۡنَ اَنۡ يَّتَطَهَّرُوۡا ؕ وَاللّٰهُ يُحِبُّ الۡمُطَّهِّرِيۡنَ:
(دوم) دوسرا ناپاک مقصد یہ کہ کفر و نفاق کی اشاعت اور اسلام کے خلاف پروپیگنڈا کرنے کے لئے اڈا قائم کرنا۔ اس مسجد کو مسجدِ ضرار قرار دینے سے یہ بھی ثابت ہوا کہ نیک کاموں کا نیک ہونا مقصد و نیت پر موقوف ہے، ورنہ مسجد بنانے جیسا نیک کام بھی کفر کی اشاعت اور اسلام کو نیچا دکھانے کے لئے ہو سکتا ہے۔
(سوم) تیسرا ناپاک مقصد یہ کہ :وَّتَفۡرِيۡقًۢا بَيۡنَ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ: مسلمانوں میں تفرقہ ڈالا جائے۔ کیونکہ قباء کی تمام آبادی ایک ہی مسجد میں نماز پڑھتی تھی۔
(چھارم) چوتھے یہ کہ اللّٰہ تعالیٰ و رسولﷺ کے باغی اور منافق ابو عامر نصرانی راہب کے لئے پناہ گاہ مہیا کرنا، تا کہ وہ یہاں بیٹھ کر مدینہ کے منافقوں کو اسلام اور اہلِ اسلام کے خلاف پالیسی اور تراکیب سمجھائے، وغیرہ۔
ان چاروں ناپاک مقاصد پر سرسری نظر ڈالنے سے یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ یہ سب کچھ اسلام کے خلاف بغاوت اور عداوت ہی ہے لہٰذا غیر مسلموں کو یہ حق قطعاً حاصل نہیں کہ وہ اپنی عبادت گاہ کا نام مسجد رکھیں، اور نہ ان کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے عبادت گاہ کا نقشہ اور طرز تعمیر ہماری مسجد کے مطابق تیار کریں، کہ اس سے ہماری مساجد کی توہین اور مسلمانوں کو دھوکہ دینا مقصود ہے۔ کیونکہ مسجد :من جملہ: شعائر اسلام میں سے ایک شعار ہے۔ لہٰذا غیر مسلموں کو اس کی اجازت دینا اس شعار کی واضح توہین اور استخفاف ہے، جسے برداشت نہیں کیا جا سکتا۔
ارشاد خداوندی ہیں: قَاتِلُوا الَّذِيۡنَ لَا يُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰهِ وَلَا بِالۡيَوۡمِ الۡاٰخِرِ وَلَا يُحَرِّمُوۡنَ مَا حَرَّمَ اللّٰهُ وَ رَسُوۡلُهٗ وَلَا يَدِيۡنُوۡنَ دِيۡنَ الۡحَـقِّ مِنَ الَّذِيۡنَ اُوۡتُوا الۡـكِتٰبَ حَتّٰى يُعۡطُوا الۡجِزۡيَةَ عَنۡ يَّدٍ وَّهُمۡ صٰغِرُوۡنَ
ترجمہ: وہ اہلِ کتاب جو نہ اللّٰہ پر ایمان رکھتے ہیں، نہ یومِ آخرت پر اور جو اللّٰہ اور اس کے رسول کی حرام کی ہوئی چیزوں کو حرام نہیں سمجھتے، اور نہ دینِ حق کو اپنا دین مانتے ہیں ان سے جنگ کرو، یہاں تک کہ وہ خوار ہو کر اپنے ہاتھ سے جزیہ ادا کریں۔
(یعنی جب محکوم رعیت بن جائیں تو ان سے جہاد کرنا ترک کر دو)
اس آیت کریمہ سے روزِ روشن کی طرح واضح ہوا کہ عیسائیوں، یہودیوں، مرزائیوں لاہوریوں اور دوسرے کافروں کو اسلامی ریاست میں اپنے باطل مذہب کی کھلے بندوں پر چار کرنے کی اجازت نہیں تا وقتیکہ وہ اسلام کی برتری تسلیم کر کے اس کی ماتحتی قبول کرتے ہوئے اپنی ماتحتی کا پورا پورا اعتراف کرتے ہوئے اور جزیہ دیتے ہوئے ذمی بن کر رہنا قبول نہ کر لیں، ان سے جہاد کیا جائے۔ ایسے میں قادیانیوں (اور شیعوں) کو اسلامی طرزِ تعمیر کے مطابق مسجد بنانے کی اجازت کیونکر دی جا سکتی ہے؟ اور وہ اپنے عبادت خانے کو :مسجد: کا نام کیوں کر دے سکتے ہیں.....؟؟؟
امام ابن کثیرؒ فرماتے ہیں: حَتّٰى يُعۡطُوا الۡجِزۡيَةَ عَنۡ يَّدٍ وَّهُمۡ صٰغِرُوۡنَ: کا مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں (غیر مسلموں) کو خوب ذلیل و رسوا اور حقیر جانو، ان کو معزز جاننا شرعاً جائز نہیں، اور نہ ان کو مسلمانوں پر ترجیح دینا جائز ہے، کیونکہ یہ کمینے، حقیر اور بدنصیب لوگ ہیں، سیدنا ابوہریرہؓ کی صحیح حدیث کے مطابق ان کو سلام کرنے میں پہل کرنا بھی جائز نہیں، بلکہ ان کو تنگ راستے سے گزرنے پر مجبور کرنا چاہیئے۔
:وَّهُمۡ صٰغِرُوۡنَ: ایسا فصیح و بلیغ اور جامع جملہ ہے، گویا کوزے میں سمندر بند کرنے کا مصداق ہے۔ یہ جملہ کیا ہے، گویا ذمی لوگوں یعنی غیر مسلم رعیت اور اقلیتوں کے لئے ایک ایسی جامع دستاویز ہے جس میں ان کی عبادت اور پوجا پاٹ کی حدود اور اس کا طریقہ کار مذہبی آزادی اور ان کی تبلیغ کا دائرہ کار، عبادت خانوں کے نام، ان کی تعمیر و تجدید کے احکام، مذہبی تہوار، قربانی، لباس، خوشی اور غمی کے اظہار کی تمام حدود متعین کر دی گئی ہیں، اس دستاویز کی پوری پوری تفصیل آج بھی ان معاہدات میں موجود ہے، جو خلفائے راشدینؓ کے مثالی ادوار میں ان کے عمال اور سپہ سالاروں کے تحت اس دور کی غیر مسلم اقلیتوں، یہود و نصاری اور مجوسیوں اور کفار سے طے پائے تھے۔ ان معاہدوں کی روشنی میں ہمارے قابل فخر فقہاءؒ، محدثینؒ، مفسرینؒ، ائمہ مجتہدینؒ، اور اسلامی قوانین کے غواص علمائے اسلام نے درج ذیل قوانین مستنبط فرمائے ہیں: