Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

کفار کے مذہبی جلوس میں شرکت اشد حرام اور رشتہ اتحاد قائم کرنا کفر ہے


سوال: ایک جلوس راج گدی کا اہلِ ہنود نکالنا چاہتے ہیں، جس میں ہندؤ اوتاروں کی صورت میں انسان بٹھائے جاتے ہیں، اور مجمع عام اہلِ ہنود کا اس کے ساتھ ہوتا ہے، مسلمانوں سے اصرار کیا جاتا ہے کہ وہ بحالی امن اور رشتہ اتحاد مضبوط کرنے کیلئے اس جلوس میں چلیں، اگر مسلمان اس جلوس کے ساتھ چلتے ہیں تو لازمی طور پر اس راج گدی کے جلوس کی زینت اور شہرت میں اضافہ ہوتا ہے۔

کیا اس حالت میں مسلمان بلا ارتکاب گناہ کئے اس جلوس کی معیت میں چل سکتے ہیں؟ اور اگر نہیں چل سکتے تو گناہ جو ان سے سرزد ہو گا، وہ کس درجہ کا ہو گا؟

جواب: اس کے حرام حرام حرام، اشد حرام ہونے میں کوئی کلام نہیں۔ کفار کے ایسے کاموں کے محض تماشہ کیلئے وہاں چلنا تو حرام ہے، نہ کہ رشتہ اتحاد قائم کرنے کیلئے۔ کفار سے رشتہ اتحاد کفار ہی کا ہے، مسلمان کا کسی کافر سے رشتہ اتحاد قائم نہیں ہو سکتا۔ اس کا مضبوط کرنا کیسا؟ جو لوگ اس نیت سے شریک ہوئے وہ ضرور کفار سے متحد ہو گئے، اسلام سے جدا۔ ایسے امور کفار کے جلوس میں شرکت ہیں نہیں اس کے جلوس میں چلنا ان کی تعظیم ہے، اور ان کے ایسے امور کی تعظیم سے تجدیدِ ایمان اور تجدیدِ نکاح لازم ہے۔ چاہے یہ تعظیم خود کی ہو یا حکماً۔

آج اگر کسی حاکم کا حکم اس کیلئے مان لیا گیا اور اسے حکم کفر سے بچاؤ کی ڈھال سمجھ لیا ہے تو کل بتوں کو سجدہ کا بھی حکم ہو گا، اور ایسے بے خرد لوگ جب بھی تعمیل حکم کریں گے، اور اسے حکم کفر سے بچاؤ کی ڈھال سمجھیں گے۔

یہی لوگ ہیں جنہوں نے ایسی کمزوریاں نمایاں کر کے اسلام کو کفار کی نظر میں معاذ الله ذلیل کیا ہے۔ کل کافر، ان سے یہی چاہیں گے کہ امن اور رشتہ اتحاد کو مضبوط کرنے کیلئے ہمارے ساتھ ان کفروں میں ہماری موافقت کرو، ہمارے ساتھ بتوں کو سجدہ کرو، اور گلہری پوجو، اور مہاویو کے آگے ڈنڈت بجا لاؤ وغیرہ وغیرہ۔ اگر تم ایسا نہیں کرو گے تو امن نہ رہے گی۔ مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جائیں گے، یہ ہو گا وہ ہو گا۔ تو یہ کافروں سے رشتہ اتحاد کر نے والے، اسلام کو کافروں کے آگے معاذ الله ذلیل و رسوا ٹھہرانے والے وہ سب کچھ کریں گے جس جس کے کرنے کا انہیں حکم ہو گا۔ حدیث شریف میں وارد ہے من كثّر سواد قوم فهو منهم جس نے کسی قوم کی تعداد بڑھائی تو وہ انہی میں سے ہے۔ 

اور فصول میں ہے، شیخ ابوبکر طرخانی نے فرمایا جو شخص میلہ (دسہرہ) گیا تو وہ کافر ہو گیا، اس لیے کہ اس میں اعلان کفر ہے۔ اور میلہ پر قیاس کرتے ہوئے مجوسیوں کے نیروز کو جانا اور ان کے اس دن کے معمولات میں ان کا شریک ہونا، کفر ہے۔ اسی طرح کافروں کے کھیل کی طرف جانا اس دن جس دن کو پیرانی کا نام دیتے ہیں اور ان کے معمولات میں ان کا شریک ہونا مثلاً گائے اور گھوڑا سجانا اور مالداروں کے گھر جانا یقیناً کفر ہو گا، اور اس رات نکلنا جس میں ہندوستانی کافر آگے سے کھیلتے ہیں اور ان کے کھیل میں ان کا ساتھ دینا بھی کفر ہے۔

فتاویٰ بزازیہ میں ہے کہ مجوسیوں کے نیروز (میلہ) میں جانا، اور ان کے اس دن کے معمولات میں موافقت کرنا اور زیادہ تر یہ کام وہ کرتے ہیں جو لوگ انہی میں سے ایمان لا چکے ہوں تو جو ان کی طرف نکلتا ہے، اور اس دن کے معمولات میں ان کا ساتھ دیتا ہے اور ان کے ساتھ شریک ہوتا ہے، تو اس کی وجہ سے وہ کافر ہو جائے گا اور اس کو محسوس تک نہ ہو گا۔

فقہائے کرام کتب فقہ میں ایسی صورت میں کہ اس میں تحسین اعمال کفار اور شرکت افعال کفار اور موافقت ان کی عبادت کی ہو کفر حکم کفر لکھتے ہیں۔ اور جو شخص مرتکب ایسے امر کا ہو جس کا سوال میں ذکر ہے اس پر حکم لزوم تجدیدِ ایمان و تجدیدِ نکاح دیتا ہیں۔

شرح فقہ اکبر میں ہے کہ جو کافروں کے میلہ میں گیا نیروز کے دن اس کی تکفیر کی جائے گی، اس لیے کہ اس میں اعلان کفر ہے، اور گویا کہ یہ ان کے کام میں ان کی مدد کرنا ہے۔

محض تماشائی کی حیثیت سے جانے کا تو یہ حکم ہے، کفری جلوس کی پیشوائی اور کافروں سے اتحاد و سگائی پر خدائے جبار و قہار کی کس قدر اشد ترین لعنت ہو گی۔ ایسوں کو فوراً تجدیدِ ایمان و تجدیدِ نکاح و تجدید حج جبکہ بیوی رکھتے ہوں حج کر چکے ہوں لازم۔ 

(فتاویٰ مفتی اعظم: جلد، 2 صفحہ، 149)