Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

غیر مسلموں کے میلوں میں تماشائی بن کر جانا حرام ہے


سوال 1: ہنود کا وہ مشرکانہ میلہ جو بتوں کی پرستش کے لیے ہوا کرتا ہے۔ جیسے دسہرہ جنم اشٹمی، درگاہ پوجا، کالی پوجا وغیرہ جس میں مراسم کفریہ و شرکیہ کے علاؤہ ہر قسم کے ناچ گانے تماشے اور دیگر لہو و لعب ہوتے ہیں، اور رنڈیاں بھی منگاںٔی جاتی ہیں ان میلوں میں اکثر ضرورت غیر ضرورت کی اشیاء ملتی ہیں، اور ان میلوں کی زینت زیادہ تر مسلمانوں ہی سے ہوتی ہیں، جو کہ یہی زیادہ تر خریدار و تماشہ میں ہوتے ہیں ان میں بیشتر دوکانیں ہنود ہی کی ہوتی ہیں۔ ایسے میلوں میں مسلمانوں کا بحثیت تماشائی یا بغرض خرید و فروخت شریک ہونا کیسا ہے؟

2: بعض جاہلوں کا یہ طریقہ ہے کہ ایام دسہرا میں نئی دلہن کے لیے اس کے مناسب حال چیزیں مٹھائیاں خرید کر سسرال بھیجنا و نیز سسرال والوں کا یہ فعال کہ اشمٹی دسہرہ منانے کی غرض سے نوشہ کو نذرانہ دینا شرعاً کیا حکم رکھتا ہے؟

3: دسہرا وغیرہ کا میلہ بلا ضرورت بطور رسم جانا اور میلہ سے بطور تحفہ چیزیں خرید کر لانا و نیز مٹھائیاں وغیرہ خرید کر بطور ہدیہ احباب کے یہاں بھیجنا کیسا ہے؟

جواب1: ایسے میلوں میں بحثیت تماشائی جانا حرام حرام، اشد حرام، بہت اخبث، نہایت ہی اشنع کام، بحکم فقہائے کرام معاذ اللہ کفر انجام ہے۔ حدیث شریف میں ہے من کثر سواد قوم فھو منھم جس نے کسی قوم کی تعداد میں اضافہ کیا وہ انہیں میں سے ہےـ

اور فصول میں ہے، شیخ ابوبکر طرخانی نے فرمایا جو شخص میلہ(دسہرہ) گیا تو وہ کافر ہو گیا، اس لیے اس میں اعلان کفر ہےـ اور میلہ پر قیاس کرتے ہوئے مجوسیوں کے نیروز کو جانا اور ان کے اس دن کے معمولات میں ان کا شریک ہونا کفر ہے۔ اسی طرح کافروں کے کھیل کی طرف جانا اس دن جس دن کو پیرانی کا نام دیتے ہیں اور انکے معمولات میں شریک ہونا مثلاً گائے اور گھوڑا سجانا اور مالداروں کے گھر جانا یقیناً کفر ہو گا، اور اس رات نکلنا جس میں ہندوستانی کافر آگے سے کھیلتے ہیں اور ان کے کھیل میں ان کا ساتھ دینا کفر ہے۔

ان لوگوں پر توبہ و تجدیدِ ایمان تجدیدِ نکاح لازم ہے۔ جو لوگ تجارت کے لیے جاتے ہیں انہیں مجمع کفار سے علیحدہ قیام چاہیے۔ اول تو جانا ہی نہ چاہیے اور جائیں تو وہاں دور رہیں، اس قدر دور کہ ان سے ان کے مجمع میں اضافہ ہو کر اس کی شوکت نہ ہو۔ ان کی دوکانوں سے اس کی زینت نہ ہو، ان کے آگے اعلان کفر نہ ہو۔ مجمع کفار محل لعنت ہے، خصوصاً ایسا مجمع کو اظہار و اعلان کفر کا ہو۔ محل لعنت سے یوں بھی بچنا ضروری ہے اگرچہ اس وقت اظہار کفر نہ ہو۔ تجارت کے لیے اگر جاتے ہیں مجمع کفار سے بالکل علیحدہ جہاں سے ان کی کفری باتیں دیکھ سن نہ سکیں، راہ میں رہیں۔ مقصد تجارت یوں بھی حاصل ہوگا۔ اگر وہ لوگ خریدنا چاہیں گے راہ میں خریدیں گے، نہ خریدنا چاہیں وہاں بھی نہ خریدیں گے۔ آج کل تو یہ نری ہوس خام ہے۔ کفار تو مسلمانوں کا بائیکاٹ کر چکے ہیں، ان سے وہ ضرورت پر تو خریدنا روا نہیں رکھتے۔ میلے میں بے ضرورت اور گراں ان سے خریدیں گے؟ میلوں میں ہمیشہ گراں چیزیں بکتی ہے۔ وہ مسلمانوں کو میلوں میں آنے کے روا دار نہ ہو، وہ ممانعت نہیں کرتے کہ مسلمان میلوں میں آئیں، اور انہیں موقع ڈھونڈ کر خوب لوٹیں، برسوں سے متعدد مواقع پر ایسا ہو رہا پے، مگر مسلمانوں کی آنکھیں نہیں کھلتیں، لٹتے ہیں مارے جاتے ہیں اور پھر پہنچتے ہیں نہ دین کا لحاظ نہ دنیا کا۔

2،3: دسہرہ منانے والے سوال میں مذکور ہے ایسا کرنے والے از سر نو کلمہ اسلام پڑھیں ان پر تجدیدِ ایمان و تجدیدِ نکاح لازم ہے یہ لوگ اگر باز نہ آئیں تجدیدِ ایمان اور تجدیدِ نکاح نہ کریں تو ان سے تا توبہ مقاطعہ کیا جائے سلام، کلام، میل جول، نشست برخاست یک لخت موقوف کیا جائے۔

فتاویٰ صغیری میں ہے کہ جس نے نیروز کے دن کچھ خریدا جبکہ وہ اس سے پہلے اس چیز کو خریدنے کا عادی تھا، پس اگر اسکا مقصد نیروز کی تعظیم کرنا تھا تو کافر ہو گیا۔

شرحِ فقہ اکبر میں ہے کہ جس نے نیروز کے دن تحفہ دیا اور اس سے اسی کو مقصد نیروز کی تعظیم تھی تو اس اس کی تکفیر کی جائے گی۔

(فتاویٰ مفتی اعظم: جلد، 2 صفحہ، 196)