[متقی کون ہے؟ مفسرین کا اختلاف]پھر یہ لوگ کہتے ہیں کہ مرجئہ کا یہ کہنا کہ متقی سے مراد وہ ہے جو شرک سے بچتا ہو، تو ان کا یہ قول قرآن کے خلاف ہے۔ کیونکہ رب تعالیٰ کا ارشاد ہے:﴿اِِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِیْ ظِلَالٍ وَّعُیُوْنٍo وَّفَوَاکِہَ مِمَّا یَشْتَہُوْنَo﴾ (المرسلات: ۴۱۔۴۲)’’یقیناً متقین سایوں اور چشموں میں ہوں گے۔ اور پھلوں میں ، جس قسم میں سے وہ چاہیں گے۔‘‘اس کے علاوہ یہ بھی ارشادات ہیں :﴿اِِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِیْ جَنّٰتٍ وَّنَہَرٍo﴾ (القمر: ۵۴)’’بے شک بچ کر چلنے والے باغوں اور نہروں میں ہوں گے۔‘‘اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿الٓمّٓo ذٰلِکَ الْکِتٰبُ لَا رَیْبَ فِیْہ ہُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَo الَّذِیْنَ یَؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ وَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَ مِمَّا رَزَقْنٰہُمْ یُنْفِقُوْنَo وَ الَّذِیْنَ یَؤْمِنُوْنَ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ وَ مَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ وَ بِالْاٰخِرَۃِ ہُمْ یُوْقِنُوْنَo﴾ (البقرۃ: ۱۔۴)’’الٓمٓ۔ یہ کتاب، اس میں کوئی شک نہیں ، بچنے والوں کے لیے سرا سر ہدایت ہے۔ وہ لوگ جو غیب پر ایمان لاتے اور نماز قائم کرتے اور اس میں سے، جو ہم نے انھیں دیا ہے، خرچ کرتے ہیں ۔ اور وہ جو اس پر ایمان لاتے ہیں جو تیری طرف اتارا گیا اور جو تجھ سے پہلے اتارا گیا اور آخرت پر وہی یقین رکھتے ہیں ۔‘‘سیدہ مریم رحمہ اللہ فرماتی ہیں :﴿اِنِّیْٓ اَعُوْذُ بِالرَّحْمٰنِ مِنْکَ اِنْ کُنْتَ تَقِیًّاo﴾ (مریم: ۱۸)’’بے شک میں تجھ سے رحمان کی پناہ چاہتی ہوں ، اگر تو کوئی ڈر رکھنے والا ہے۔‘‘یہاں پر سیدہ رحمہ اللہ نے شرک مراد نہیں لیا۔ بلکہ تقی سے وہ شخص مراد لیا ہے جو فسق و فجور کا مرتکب نہ ہوتا ہو۔اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿وَمَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّہٗ مَخْرَجًاo وَّیَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُ﴾ (الطلاق: ۳)’’اور جو اللہ سے ڈرے گا وہ اس کے لیے نکلنے کا کوئی راستہ بنا دے گا۔ اور اسے رزق دے گا جہاں سے وہ گمان نہیں کرتا۔‘‘اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿اِنْ تَتَّقُوا اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّکُمْ فُرْقَانًا وَّ یُکَفِّرْ عَنْکُمْ سَیِّاٰتِکُمْ﴾ (الانفال: ۲۹)’’اگر تم اللہ سے ڈروگے تو وہ تمھارے لیے (حق و باطل میں ) فرق کرنے کی بڑی قوت بنادے گا اور تم سے تمھاری برائیاں دور کر دے گا۔‘‘اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿اِنَّہٗ مَنْ یَّتَّقِ وَ یَصْبِرْ فَاِنَّ اللّٰہَ لَا یُضِیْعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِیْنَo﴾ (یوسف: ۹۰)’’بے شک جو ڈرے اور صبر کرے تو بے شک اللہ نیکی کرنے والوں کا اجر ضائع نہیں کرتا۔‘‘اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿لَتُبْلَوُنَّ فِیْٓ اَمْوَالِکُمْ وَ اَنْفُسِکُمْ وَ لَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلِکُمْ وَ مِنَ الَّذِیْنَ اَشْرَکُوْٓا اَذًی کَثِیْرًا وَ اِنْ تَصْبِرُوْا وَ تَتَّقُوْا فَاِنَّ ذٰلِکَ مِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِo﴾ (آل عمران: ۱۸۶)
’’یقیناً تم اپنے مالوں اور اپنی جانوں میں ضرور آزمائے جاؤ گے اور یقیناً تم ان لوگوں سے جنھیں تم سے پہلے کتاب دی گئی اور ان لوگوں سے جنھوں نے شرک کیا، ضرور بہت سی ایذا سنو گے اور اگر تم صبر کرو اور متقی بنو تو بلاشبہ یہ ہمت کے کاموں سے ہے۔‘‘اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿ثُمَّ جَعَلْنَاکَ عَلٰی شَرِیعَۃٍ مِّنَ الْاَمْرِ فَاتَّبِعْہَا وَلَا تَتَّبِعْ اَہْوَائَ الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَo اِِنَّہُمْ لَنْ یُّغْنُوْا عَنکَ مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا وَّاِِنَّ الظٰلِمِیْنَ بَعْضُہُمْ اَوْلِیَآئُ بَعْضٍ وَّاللّٰہُ وَلِیُّ الْمُتَّقِیْنَo﴾ (الجاثیۃ: ۱۸۔۱۹)’’پھر ہم نے تجھے (دین کے) معاملے میں ایک واضح راستے پر لگا دیا، سو اسی پر چل اور ان لوگوں کی خواہشات کے پیچھے نہ چل جو نہیں جانتے۔ بلاشبہ وہ اللہ کے مقابلے میں ہر گز تیرے کسی کام نہ آئیں گے اور یقیناً ظالم لوگ، ان کے بعض بعض کے دوست ہیں اور اللہ متقی لوگوں کا دوست ہے۔‘‘اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَ قُوْلُوْا قَوْلًا سَدِیْدًاo یُّصْلِحْ لَکُمْ اَعْمَالَکُمْ وَ یَغْفِرْلَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ﴾ (الاحزاب: ۷۰۔۷۱)’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! اللہ سے ڈرو اور بالکل سیدھی بات کہو۔ وہ تمھارے لیے تمھارے اعمال درست کر دے گا اور تمھارے لیے تمھارے گناہ بخش دے گا۔‘‘کہ یہ لوگ ایمان لا چکے اور شرک سے بچ چکے تھے۔ لہٰذا انھیں دیا جانے والا بعد کا امر صرف شرک کا ترک کرنا نہ تھا۔ اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ حَقَّ تُقٰتِہٖ﴾ (آل عمران: ۱۰۲)’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ سے ڈرو، جیسا اس سے ڈرنے کا حق ہے۔‘‘کیا کوئی مسلمان اس بات کا قائل ہے کہ ایک ڈاکو اور مسافروں کی جان لینے والا بھی رب تعالیٰ سے اتنا ڈرتا ہے جتنا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے۔ کیونکہ وہ شرک کا مرتکب نہیں اور یہ بے حیائیوں کے مرتکب، شراب نوش اور ظالم لوگ بھی رب تعالیٰ سے اتنا ہی ڈرتے ہیں جتنا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے؟حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ اور دوسرے اسلاف جیسے حسن، عکرمہ، قتادہ اور مقاتل وغیرہ کا قول ہے:’’رب تعالیٰ سے ڈرنے کا حق یہ ہے کہ اس کی طاعت کی جائے اور نافرمانی نہ کی جائے اور اس کا شکر ادا کیا جائے اور اس کی ناشکری نہ کی جائے، اور اس کا ذکر کیا جائے، اسے بھولا نہ جائے۔بعض اسلاف نے حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے واسطے سے یہ قول نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے۔ تفسیر والبی میں ہے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : ’’حَقَّ تُقٰتِہٖ‘‘ یہ رب تعالیٰ کی عبادت میں محنت کوشش کرنے کا حق ادا کر دینا ہے اور یہ کہ رب تعالیٰ کے معاملے میں کسی ملامت گر کی ملامت کی پروا نہ ہو اور اللہ کے لیے انصاف پر کھڑا ہوا جائے، چاہے انصاف کی یہ گواہی خود اپنے خلاف، یا والدین اور اولاد کے خلاف ہی ہو۔اور ایک جگہ رب تعالیٰ کا ارشاد ہے:﴿فَاتَّقُوا اللّٰہَ مَا اسْتَطَعْتُمْ﴾ (التغابن: ۱۶)’’سو اللہ سے ڈرو جتنی طاقت رکھو۔‘‘یہ گزشتہ آیت کی تفسیر ہے اور جن اسلاف نے اس آیت کو گزشتہ کی ناسخ مانا ہے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ آیت ’’حَقَّ تُقٰتِہٖ‘‘ کی یہ مراد لینے کو رفع کرتی ہے کہ بندہ ایسا کرنے سے عاجز ہے۔ کیونکہ رب تعالیٰ نے ایسی کسی بات ک ہرگز بھی حکم نہیں دیا کہ جس کے بجا لانے سے بندہ عاجز ہو۔ لہٰذا جو اس بات کا قائل ہو، وہ خطا پر ہے۔ پھر اسلاف کی اصطلاح میں لفظ ’’نسخ‘‘ کے اطلاق کے تحت متعدد معانی داخل ہیں اور اس میں حکم کا، اس کے ظاہر کا یا اس کی ظنی دلالت کا ہر قسم کا رفع داخل ہے، حتیٰ کہ اسلاف نے عام کی تخصیص کو اور بعض نے ایسے استثناء تک کو نسخ کہا ہے جس کا نزول متاخر ہوا ہو۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿وَ مَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِنْ رَّسُوْلٍ وَّ لَا نَبِیٍّ اِلَّآ اِذَا تَمَنّٰٓی اَلْقَی الشَّیْطٰنُ فِیْٓ اُمْنِیَّتِہٖ فَیَنْسَخُ اللّٰہُ مَا یُلْقِی الشَّیْطٰنُ ثُمَّ یُحْکِمُ اللّٰہُ اٰیٰتِہٖ وَ اللّٰہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌo﴾ (الحج: ۵۲)’’اور ہم نے تجھ سے پہلے نہ کوئی رسول بھیجا اور نہ کوئی نبی مگر جب اس نے کوئی تمنا کی شیطان نے اس کی تمنا میں (خلل) ڈالا تو اللہ اس (خلل) کو جو شیطان ڈالتا ہے، مٹادیتا ہے، پھر اللہ اپنی آیات کو پختہ کر دیتا ہے اور اللہ سب کچھ جاننے والا، کمال حکمت والا ہے۔‘‘کہ یہ ایک ایسی شے کا رفع ہے جس کا القاء شیطان نے کیا تھا اور اسے رب تعالیٰ نے نازل نہ فرمایا تھا۔ لیکن اس کی غایت یہ ہے کہ یہ گمان ہو گیا کہ اسے رب تعالیٰ نے نازل فرمایا ہے۔ رب تعالیٰ نے اس کے بھی نسخ کی خبر دی ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿اِنَّ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا اِذَا مَسَّہُمْ طٰٓئِفٌ مِّنَ الشَّیْطٰنِ تَذَکَّرُوْا فَاِذَا ہُمْ مُّبْصِرُوْنَo وَ اِخْوَانُہُمْ یَمُدُّوْنَہُمْ فِی الْغَیِّ ثُمَّ لَا یُقْصِرُوْنَo﴾ (الاعراف: ۱۰۱۔۲۰۲)’’یقیناً جو لوگ ڈر گئے، جب انھیں شیطان کی طرف سے کوئی (برا) خیال چھوتا ہے وہ ہشیار ہو جاتے ہیں ، پھر اچانک وہ بصیرت والے ہوتے ہیں ۔ اور جو ان (شیطانوں ) کے بھائی ہیں وہ انھیں گمراہی میں بڑھاتے رہتے ہیں ، پھر وہ کمی نہیں کرتے۔‘‘اب جس شخص کو شیطان گمراہی کی طرف کھینچتا رہتا ہے، نہ تو اسے اللہ ہی یاد آتا ہے اور نہ وہ دیکھتا ہی ہے۔ بھلا ایسا شخص متقی کیسے ہو سکتا ہے؟سورۂ طلاق میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿وَمَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّہٗ مَخْرَجًاo وَّیَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُ﴾ (الطلاق: ۳)’’اور جو اللہ سے ڈرے گا وہ اس کے لیے نکلنے کا کوئی راستہ بنا دے گا۔ اور اسے رزق دے گا جہاں سے وہ گمان نہیں کرتا۔‘‘حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’اے ابوذر! اگر سب کے سب لوگ اس آیت پر عمل کرنے لگیں تو یہ آیت انھیں کافی ہو جائے۔‘‘[1][1] سنن ابن ماجہ: ۲؍۱۴۱۲۔جب کوئی شخص طلاق کے معاملہ میں رب تعالیٰ کی حد سے تجاوز کر جاتا تھا تو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما وغیرہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اسے یہ فرماتے تھے کہ ’’اگر تو اللہ سے ڈرتا ہوتا تو اللہ تیرے لیے نکلنے کا راستہ اور آسانی پیدا فرماتے۔‘‘یہ بات معلوم ہے کہ اس آیت میں تقویٰ سے مراد صرف شرک سے بچنا ہے۔ قرآن کریم کی آخری آیات میں سے ایک یہ بھی ہے، جس کے بارے میں ایک قول یہ ہے کہ یہ سب سے آخر میں نازل ہونے والی آیت ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿وَ اتَّقُوْا یَوْمًا تُرْجَعُوْنَ فِیْہِ اِلَی اللّٰہِ ثُمَّ تُوَفّٰی کُلُّ نَفْسٍ مَّا کَسَبَتْ وَ ہُمْ لَا یُظْلَمُوْنَo﴾ (البقرۃ: ۲۸۱)’’اور اس دن سے ڈرو جس میں تم اللہ کی طرف لوٹائے جاؤ گے، پھر ہر شخص کو پورا دیا جائے گا جو اس نے کمایا اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔‘‘اب کیا اس دن سے ڈرنا یہ صرف شرک کو چھوڑ دینے کا نام ہے؟ چاہے اس کے بعد وہ ہر حرام کا مرتکب ہوتا پھرتے اور ہر واجب کو ترک کرتا رہے؟ طلق بن حبیب کا قول ہے۔ جنھیں سعید بن جبیر مرجی کہا کرتے تھے کہ:’’تقویٰ یہ ہے کہ تو رب تعالیٰ کے نور کی روشنی میں اس کی طاعت کرے، اس کی رحمت کی امید رکھے اور اس کے نور کی روشنی میں اس کی معصیت کو ترک کر دے اور اس کے عقاب و عتاب سے ڈرے۔‘‘غرض متقین وہ ہوتے ہیں جو نیکوکار، فرائض بجا لانے والے اور محارم سے بچنے والے ہوتے ہیں ۔ یہ وہ عالم علم ہے جسے ہر مسلمان نسل در نسل جانتا چلا آیا ہے اور قرآن و حدیث بھی اس بات کو مقتضی ہیں ۔مرجئہ کہتے ہیں : ’’تمھارا اس آیت سے استدلال بھی درست نہیں ہے۔‘‘ ارشاد ہے:﴿اَفَمَنْ کَانَ مُؤْمِنًا کَمَنْ کَانَ فَاسِقًا لَا یَسْتَوٗنَo﴾ (السجدۃ: ۱۸) ’’تو کیا وہ شخص جو مومن ہو وہ اس کی طرح ہے جو نافرمان ہو؟ برابر نہیں ہوتے۔‘‘کیونکہ پوری آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ یہاں فاسق سے مراد مکذِّب ہے، کیونکہ آگے ارشاد ہے:﴿وَ اَمَّا الَّذِیْنَ فَسَقُوْا فَمَاْوٰیہُمُ النَّارُ کُلَّمَآ اَرَادُوْٓا اَنْ یَّخْرُجُوْا مِنْہَآ اُعِیْدُوْا فِیْہَا وَ قِیْلَ لَہُمْ ذُوْقُوْا عَذَابَ النَّارِ الَّذِیْ کُنْتُمْ بِہٖ تُکَذِّبُوْنَo﴾ (السجدۃ: ۲۰)’’اور رہے وہ جو نافرمان ہوئے ؛تو ان کا ٹھکانا آگ ہے، جب کبھی چاہیں گے کہ اس سے نکلیں اس میں لوٹا دیے جائیں گے اور ان سے کہا جائے گا آگ کا وہ عذاب چکھو جسے تم جھٹلایا کرتے تھے۔‘‘رب تعالیٰ نے یہ بیان فرمایا ہے کہ انھیں تکذیب کی پاداش میں عذابِ آخرت ہو گا اور یہ مکذِّب کا وصف ہے ناکہ عاصی کا۔ یہ لوگ جمہور کے ساتھ خوارج کو یہ جواب دیتے ہیں کہ اگر مرتکب کبیرہ کافر ہوتا تو مرتد کہلاتا ہے اور اس کا قتل بھی واجب ہوتا۔ جبکہ رب تعالیٰ نے زانی کو کوڑے مارنے کا، چور کے ہاتھ کاٹنے کا اور تہمت طراز کو کوڑے مارنے کا حکم دیا ہے اور سنت رسول شرابی کو کوڑے لگانے کی ہے۔ یہ صریح نصوص بتاتی ہیں کہ زانی، چور، شراب نوش اور تہمت طراز کافر اور واجب القتل مرتد نہیں ہیں ۔ پس وہ انھیں کافر قرار دے گا وہ نص قرآنی اور سنت متواتر کا مخالف ہو گا۔پھر ان کا خوارج اور معتزلہ کو یہ بھی کہنا ہے کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿وَاِِنْ طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَیْنَہُمَا فَاِِنْ بَغَتْ اِِحْدَاہُمَا عَلَی الْاُخْرَی فَقَاتِلُوا الَّتِیْ تَبْغِی حَتّٰی تَفِیئَ اِِلٰی اَمْرِ اللّٰہِ فَاِِنْ فَائَتْ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَہُمَا بِالْعَدْلِ وَاَقْسِطُوا اِِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِینَo اِِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِِخْوَۃٌ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَ اَخَوَیْکُمْ وَاتَّقُوا اللّٰہَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَo﴾ (الحجرات: ۹۔۱۰)’’اور اگر ایمان والوں کے دوگروہ آپس میں لڑ پڑیں تو دونوں کے درمیان صلح کرا دو، پھر اگر دونوں میں سے ایک دوسرے پر زیادتی کرے تو اس (گروہ) سے لڑو جو زیادتی کرتا ہے، یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف پلٹ آئے، پھر اگر وہ پلٹ آئے تو دونوں کے درمیان انصاف کے ساتھ صلح کرا دو اور انصاف کرو، بے شک اللہ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ مومن توبھائی ہی ہیں ، پس اپنے دو بھائیوں کے درمیان صلح کراؤ اور اللہ سے ڈرو، تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔‘‘کہ رب تعالیٰ نے ان دونوں جماعتوں کو باہمی قتال اور ظلم و زیادتی کے باوجود ’’مومنین‘‘ کا نام دیا ہے اور ان میں صلح کرا دینے کا حکم بھی دیا ہے اور انھیں قتال نہ کرنے والے اس مسلمان کا بھائی قرار دیا ہے جو ان میں صلح جوئی کر رہا ہے۔ جس سے صاف معلوم ہوا کہ یہ ظلم و زیادتی نہ تو ایمان سے خارج کر دیتی ہے اور نہ ایمانی بھائی چارے سے ہی نکال دیتی ہے۔ مرجئہ کہتے ہیں : ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم : ’’وہ ہم میں سے نہیں ‘‘ سے مراد یہ ہے کہ وہ ہم جیسا نہیں یا یہ کہ وہ ہمارے برگزیدہ اور نیکوکار لوگوں میں سے نہیں ۔ پھر مرجئہ پر یہ سوال کیا جاتا ہے کہ اچھا اگر ایک آدمی ملاوٹ نہیں کرتا اور مومنوں پر اسلحہ نہیں اٹھاتا آیا وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جیسا ہو گا؟ یا صرف اتنی بات کرنے سے وہ مومنین کے پسندیدہ لوگوں میں سے ہو جائے گا؟مرجئہ یہ جواب دیتے ہیں کہ وعید کی نصوص عام ہیں ۔ اب کوئی تو ہم میں سے عموم کے صیغوں کا منکر ہے تو کوئی انھیں ثابت کرتا ہے۔ جو ان صیغوں کو ثابت کرتا ہے، اس کا قول یہ ہے کہ ’’وہ اس بات کو نہیں جانتا کہ یہ صیغے عام کے ہر فرد کو شامل ہیں ۔ پس جسے تو عذاب نہ ہو گا، یہ صیغے اسے شامل نہ ہوں گے۔‘‘پھر جو ان میں سے ’’واقفہ‘‘ (یعنی توقف کے قائل) ہیں ، ان سے کہا جاتا ہے کہ آپ کے نزدیک یہ ممکن ہے کہ وعید اہل قبلہ میں سے کسی کو بھی شامل نہ ہو، تب پھر وعید کی نصوص کا معطل ہونا لازم آئے گا۔ کہ نہ تو ان میں سے خاص نص باقی رہے گی اور نہ عام ہی باقی رہے گی۔غرض اس مقام پر ہمارا مقصود اس مسئلہ کا استیعاب و استیفاء نہیں ۔ غرض صرف طرفین کے مناظروں کی ایک مثال پیش کرنا ہے جبکہ اہل سنت و الجماعت اور حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے متبعین ائمہ اسلام ان دونوں فرقوں کے بین بین ہیں ۔ نہ تو وہ کسی اہل توحید کے مخلد فی النار ہونے کے قائل ہیں جیسا کہ خوارج اور معتزلہ کا قول ہے۔ کیونکہ احادیث صحیحہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ جس کے دل میں رائی کے دانہ کے برابر بھی ایمان ہو گا اسے بھی جہنم سے نکال لیا جائے گا اور کوئی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کی برکت سے جہنم سے نکال لیا جائے گا۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کے مرتکبین کبائر کی شفاعت فرمائیں گے۔[1][1] حضرت انس رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’میری شفاعت میری امت کے مرتکبین کبائر کے لیے ہے۔‘‘ (سنن ابی داود: ۴؍۳۲۵، جامع الترمذی: ۴؍۵۴) امام ترمذی فرماتے ہیں : اس باب میں ضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے بھی حدیث مروی ہے۔ یہ حدیث اس طریق سے حسن، صحیح اور غریب ہے۔ (مسند احمد: ۳؍۲۱۳) طبعۃ الحلبی اور اسی معنی میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث سنن ترمذی میں اور سنن ابن ماجہ (۲؍۱۴۴۱) میں ہے۔ (دیکھیں : شرح العقیدۃ الطحاویۃ، ص: ۱۹۸۔۲۰۰ بتحقیق شعیب الارناؤط)