صفات الہٰی عین ذات نہیں لازم ذات ہیں
مولانا مہرمحمد میانوالیسوال 3: خدا سے اس کی صفات جدا سمجھی جائیں تو کیا وہ بے اختیار کٹھ پتلی حکمران ہو گا یا نہیں؟
جواب: یہ بہتان ہے خدا کی صفات ہم خدا سے جدا نہیں مانتے البتہ عین ذات بھی نہیں کہتے، بلکہ لازم ذات مانتے ہیں اس لیے کہ صفت موصوف کا عین نہیں ہوتی۔ لہٰذا اگر کوئی شخص یہ کہے کہ میرا معبود اور میرا خالق اللہ کی صفت علم یا قدرت ہے اور میں اللہ کی اس صفت کی پرستش کرتا ہوں تو یہ باطل ہے۔ ہاں اگر یہ کہے کہ میرا معبود علیم اور قدیر ہے جس کی صفت علم اور قدرت ہے تو یہ صحیح اور درست ہے۔ اور اسی طرح اگر کوئی دعا میں یہ کہے یاحیات یا علم یا تکوین یا ترزیق تو جائز نہیں، معلوم ہوا کہ اللہ کی صفات اس کا عین نہیں، لیکن غیر بھی نہیں کہ اس سے جدا اور علیحدہ ہو سکیں اور کٹھ پتلی بادشاہ ہونے کا طعنہ کسا جائے، کیونکہ غیریت کا معنی یہ ہے کہ ایک غیر کے فناء اور عدم کی صورت میں دوسرے غیر کا وجود اور بقاء جائز ہو اور یہ معنی حق تعالیٰ میں درست نہیں اس لیے کہ خدا تعالیٰ اور اس کی صفات جدا جدا چیزیں نہیں، معلوم ہوا کہ صفاتِ خداوندی خدا تعالیٰ کا غیر نہیں بلکہ اس کی ذات کے لیے ایسے لازم ہیں کہ ان صفات کا ذات سے جدا ہونا نا ممکن اور محال ہے جیسے چار کے لیے زوجیت (جفت ہونا) اور پانچ کے لیے فرویت (طاق ہونا) لازم ہے مگر اس کا عین نہیں، چار کا مفہوم علیحدہ ہے اور زوجیت کا مفہوم علیحدہ ہے مگر زوجیت چار کی نفس ماہیت کے لیے ایسی لازم ہے کہ نہ ذہن میں اس سے جدا ہو سکتی ہے اور نہ خارج میں، اسی طرح علم علیم کا عین تو نہیں مگر اس سے علیحدہ اور جدا بھی نہیں ہو سکتا۔ ایک تیسری دلیل یہ ہے کہ قرآنِ حکیم میں حق تعالیٰ نے علم اور قوت اور عزت کو اپنی طرف مضاف کیا ہے۔
اَنْزَلَهٗ بِعِلْمِهٖ، وَلَایُحِیْطُوْنَ بِشَیْءٍ مِّنْ عِلْمِهٖۤ اِلَّا بِمَا شَآءَ، اَنَّمَاۤ اُنْزِلَ بِعِلْمِ اللّٰهِ، ذُوالْقُوَّةِ الْمَتِیْنُ، فَلِلّٰهِالْعِزَّةُ جَمِیْعًا، ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیْمِ، ذُوالْجَلٰلِ وَالْاِكْرَامِ معلوم ہوا اللہ تعالیٰ کا علم اور قدرت اور عزت اور جلال جیسی صفات اس کا عین ذات نہیں، اس لیے کہ کوئی شے اپنی طرف مضاف نہیں ہوتی۔
(کذافی عقائد اسلام: صفحہ 38 مصنف مولانا محمد ادریسؒ)
سوال 4، 5: مذہب شیعہ میں صفات عین ذات ہیں، سنیہ میں ذات سے الگ ہیں، تو خدا بعد میں ضرورت کے تحت متصف ہوتا رہا۔ اور اس کی کنہ ذات میں تبدیلی ہوتی رہی تو وہ عاجز بھی ٹھہرا اور حادث بھی؟
جواب: پہلی مفصل مدلل تقریر سے دونوں سوال ختم ہو گئے کیونکہ اس کی صفات ذات سے لازم ہیں جدا نہیں، تو نہ وہ عاجز نہ کنہ میں تبدیلی ہوئی نہ حادث و متغیر ہوا۔ جب صفات اور موصوف جدا جدا مفہوم رکھتے ہیں تو عین ذات ماننے سے کئی خدا اور کئی قدیم ماننے پڑے جو توحید کا برخلاف ہے، تو شیعہ عقیدہ باطل ہوا۔
سوال 6، 7: کیا خدائے واحد قدیم ہے یا نہیں؟ اور کیا لا شریک بھی قدیم ہے؟
جواب: قدیم ہے اور لا شریک بھی اس کی صفت ہے جو قدیم ہے۔ لا شریک سے مراد کوئی معبود باطل نہیں ہے بلکہ یہ ہے کہ ازل سے ابد تک خدا کی شان و صفت یہ ہے اور رہے گی کہ اس کا شریک نہیں ہے جن لوگوں نے شریک بنائے وہ خود باطل اور مشرک ہیں۔
سوال 8: آپ کے عقائد کے مطابق اس کی صفات بھی قدیم ہیں تو وہ لا شریک کس طرح ہے؟
جواب: جب لا شریک اس کی صفت ہے اور اس کے ساتھ لازم ہے تو قدیم ہونے میں خدا کا کمال ہے، اگر جدا مانی جائے تو صفت موصوف میں جدائی اور خدا میں نقص لازم آئے گا، لا شریک کا معنیٰ بیان ہو چکا ہے۔
سوال 9، 10: کیا قوی شخص سے قوت جدا کی جائے تو قوی ہو گا یا غیر قوی؟ اگر ذاتِ خدا سے صفات کو الگ اعتقاد کیا جائے تو اسے بے قدرت سمجھنا ہے، اگر صفات کو قدیم مانا جائے تو اس کے ساتھ دوسری قوت و قدرت کا شرک و کفر ثابت ہوگا؟
جواب: وہی پہلا غلط مفروضہ دوہرایا جا رہا ہے، خدا کی صفات ہیں اس سے جدا نہیں تو وہ قوی ہی رہا اور اس کی صفات جب لازم ذات ہیں تو ذات کی طرح قدیم ماننے میں کوئی کفر و شرک نہ ہوا۔