Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

صاحبزاده اقتدار احمد خان بدایونی نعیمی کا فتویٰ شیعہ تبرّائی کا نمازِ جنازہ پڑھنے اور ایسے شیعہ کی نماز جنازہ پڑھانے والے کی امامت کا حکم


صاحبزاده اقتدار احمد خان بدایونی نعیمی کا فتویٰ

سوال: ہمارے گاؤں میں امام صاحب نے ایک شیعہ آدمی کا جنازہ پڑھایا، جب اہلِ سنت لوگوں نے اس پر اعتراض کیا تو اس نے جواباً کہا کہ میں نے اس لیے جنازہ پڑھایا تا کہ کوئی شیعہ امام اس بستی میں قدم نہ رکھے۔ اب تک صرف دو گھر شیعوں کے ہیں، اگر میں ان کا جنازہ نہ پڑھاؤں، تو وہ کوئی اپنا امام لے آئیں گے اور اس طرح ہمارے گاؤں میں ایک نیا فتنہ شروع ہو جائے گا، جس سے یہ بھی خطرہ ہے کہ کہیں شیعہ زیادہ نہ ہو جائیں۔ اور ان کی دلچسپ اور مزیدار رسموں سے ہماری بستی کا نوجوان طبقہ متاثر ہو کر زیادہ مائل بہ شیعہ نہ ہو جائے۔

فرمایا جائے کہ کیا قانونِ شریعت میں اس کا یہ کہنا درست ہے؟ اور سنی عالم ایسی صورت میں شیعہ لوگوں کا جنازہ پڑھا سکتا ہے یا نہیں؟ اور ایسے امام کے پیچھے کسی اہلِ سنت کی نماز جائز ہے؟ 

جواب: فی زمانہ ہمارے علاقوں میں دو قسم کے شیعہ رہتے ہیں۔

  1.  شیعہ تبرّائی
  2.  شیعہ تفضیلی

تبرّائی شیعہ کے عقائد سراسر اسلام کے خلاف ہیں، اور وہ شرعاً اسلام سے خارج ہیں۔ ان کے عقائد میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں

  1. قرآن کریم متواترہ موجودہ درست نہیں، اس میں کچھ آیتیں بعد کی مخلوط ہیں۔ (معاذاللہ) 
  2.  سیدنا علیؓ نبی کریمﷺ سے افضل ہیں۔ (معاذ اللہ) 
  3. خلافتِ صدیقیؓ غلط ہے۔ (معاذ اللہ) 
  4. سیدنا علیؓ رب ہے۔ (معاذ اللہ)

یہ تمام عقائد مندرجہ بالا شیعہ کتب میں ملاحظہ فرمائیں۔ ان لوگوں کی ہمارے علاقوں میں دیگر شیعہ کے مقابل کثرت ہے۔

تفضیلی شیعہ کے عقائد درج ذیل ہیں:

  1.  یزید کافر ہے۔ 
  2. سیدنا علیؓ سب صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین سے افضل ہیں۔ یہاں تک کہ سیدنا صدیق اکبرؓ اور سیدنا فاروق اعظمؓ سے بھی۔
  3.  ابو طالب تمام صحابہ رضوان اللّٰہ علیہم اجمعین کی طرح کھلم کھلا ظاہراً مکمل طور پر شرعی مسلمان اور مؤمن ہے۔ 
  4. سیدہ فاطمہؓ کا درجہ تمام ازواج مطہراتؓ خصوصاً سیدہ خدیجہؓ اور سیدہ عائشہ صدیقہؓ امهات المومنینؓ سے افضل ہیں۔ ان عقائد کو تفضیلی شیعہ نے اپنی کتب میں شائع کئے ہیں۔

ان میں بعض شیعہ اپنے کو شیعہ نہیں کہتے بلکہ اہلِ سنت کہلوانا پسند کرتے ہیں، حالانکہ یہ تمام عقائد اہلِ سنت کے خلاف ہیں، خاص طور پر ابو طالب شرعاً عند الناس کافر اور عند اللہ ساتر ہیں۔ ان کو مؤمن کہنا ثابت نہیں۔

تفضیلی شیعہ شرعی فتویٰ کے لحاظ سے مسلمان ہیں، ان کا نماز جنازہ پڑھنا جائز ہے، اہلِ سنت کا امام ان کا جنازہ پڑھا سکتا ہے، لیکن تبرّائی شیعہ اور یہی لوگ شیعہ معروف ہے، جب مطلقاً لفظ شیعہ بولا جائے تو یہی لوگ مراد ہوتے ہیں۔ ان کا نمازِ جنازہ پڑھانا مسلمان اہلِ سنت کو قطعاً حرام ہے، کیونکہ یہ لوگ شرعی طور پر اسلام سے خارج ہیں۔ چنانچہ فتاویٰ عالمگیری میں ہیں

الرافضی اذا كان يسب الشيخين ويلعنهما والعياذ بالله فهو كافر وان كان يفضل عليا كرم الله وجهه علىٰ ابی بكر لا يكون كافرا الا انه مبتدع

اس عبارت معتبرہ سے دونوں مذکورہ بالا فرقوں کا حکم معلوم ہو گیا۔ اور کافر اسلام سے خارج شخص کا نمازِ جنازہ پڑھنا حکم قرآنی کے مطابق سخت ترین گناہِ کبیرہ ہے اور اس کو جائز سمجھ کر پڑھنا خود پڑھنے والے کو کافر بنا دیتا ہے۔ چنانچہ قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے

وَلَا تُصَلِّ عَلٰٓى اَحَدٍ مِّنۡهُمۡ مَّاتَ اَبَدًا وَّلَا تَقُمۡ عَلٰى قَبۡرِهٖ 

(سورۃ التوبہ: آیت نمبر 84) 

ترجمہ: یعنی اے مسلمانو! کافر انسان کا جنازہ نماز بھی نہ پڑھو اور نہ ہی ان کی قبر پر جاؤ۔ 

سوالِ مذکورہ میں چونکہ لفظِ شیعہ مطلقہ معروفہ ہے اس لیے بھی اور سوال کے روشِ کلام سے بھی ظاہر ہے کہ شیعہ سے فرقہ اولیٰ تبرّائی ہی مراد ہے۔ 

لہٰذا کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ ان کا جنازہ پڑھے یا پڑھائے۔ جو ان کو مسلمان سمجھ کر جنازہ پڑھے یا پڑھائے وہ تو خود بھی کافر متصور ہو گا۔ کیونکہ نصوصِ قطعیہ کا منکر ہو گا۔ ہاں اگر نادانی یا غلط فہمی کی بنا پر یا اپنے خیال میں کسی بڑے فتنہ سے بچنے کے لیے ایسی نازیبا حرکت کر لی ہے، جیسا کہ مذکورہ فی السوال امام نے عذر پیش کیا، تو وہ اگرچہ شرعاً اتنا بڑا مجرم تو نہ بنے گا مگر مسئلہ جاننے کے بعد آئندہ ایسا جنازہ پڑھنے سے احتراز لازم و واجب ہے۔ اب اگر وہ پھر امام اسی عذر بے ہودہ کو مد نظر رکھ کر کسی تبرّائی شیعہ کا جنازہ پڑھاتا ہے تو گویا کہ وہ میلانِ قلبی میں مائل بہ رفض ہے، اور شرعاً سخت ترین مجرم۔ ایسے امام کو ایسی صورت میں اہلِ سنت کے آگے امام بننے کا حق نہیں، اور نہ کسی مسلمان کی نماز پھر جائز ہو گی۔ اس لیے کہ امام مذکور کا پیش کردہ عذر شرعاً قطعاً معتبر نہیں، چند وجوہات سے جو کہ درج ذیل ہیں

  1.  سب کچھ تقدیرِ الہٰی سے ہوتا ہے۔ 
  2. اس فتنے کو روکنے کے اور ذرائع بھی ہو سکتے ہیں۔
  3.  ہر شخص اپنے اعمال کا اختیاری جواب دہ ہے، جن خرابیوں کو دُور کرنا انسان کی ہمت سے باہر ہے، کل قیامت میں اس پر پکڑ نہ ہو گی۔
  4.  اگر اس بستی میں اس فتنہ رفض کا ہونا مقدر ہے تو کسی بھی حیلے سے روکا نہیں جا سکتا۔
  5.  اگر ایسا امام مر جائے یا خود شیعہ اس سے متنفر ہو جائیں یا میرے اس فتوے پر عمل نہ کرنے کی بناء پر اس امام کو خود مسلمان ہی نکال دیں تب کس طرح یہ اس فتنے کو روکے گا۔

لہٰذا فتویٰ شرعی سے حکم نافذ کیا جاتا ہے کہ خبردار! آئندہ امام کسی شیعہ تبرّائی کا جنازہ ہرگز ہرگز نہ پڑھائے، اور سب مقتدیوں کے سامنے اپنے رب کریم کے حضور سچی توبہ کرے، اس خیالی عذر کی بناء پر اپنے دین و ایمان کو خراب نہ کرے۔

 (فتاویٰ نعیمیہ: جلد، 1 صفحہ، 93)