عہد رسالت میں جماعت تراویح
طارق انور مصباحیبسم اللہ الرحمٰن الرحیم نحمد و نصلی ونسلم علی حبیبہ الکریم و آلہ العظیم
حضور اقدس رحمت دو عالمﷺ بوجہ عذر فرضیت نمازِ تراویح جماعت کے ساتھ نہ پڑھاتے تھے لیکن صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین مسجدِ نبوی میں جماعت کے ساتھ تراویح پڑھتے تو آپﷺ اسے پسند فرماتے اور اس جماعتِ تراویح میں اکثر وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم شریک ہوتے جو حافظِ قرآن نہ ہوتے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم حافظِ قرآن صحابی حضرت ابی ابنِ کعب رضی اللہ عنہ کی اقتداء میں تراویح ادا کرتے، تاکہ تراویح میں ختمِ قرآن مجید کا ثواب پا سکیں۔
1: عن أبی هريرة رضی الله عنه قال: خرج علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم فإذا أناس فی رمضان يصلون فی ناحية المسجد فقال: ما هؤلاء؟ فقيل هؤلاء أناس ليس معهم قران وأبی بن كعب يصلى وهم يصلون بصلاته فقال النبی صلى الله عليه وسلم: أصابوا ونعم ما صنعوا (سنن ابی داؤد: صفحہ، 195)
(صحیح ابنِ خزیمہ: جلد، 2 صفحہ، 1056 السنن الکبریٰ للبیہقی: جلد، 4 صفحہ، 59)
(صحیح ابنِ حبان مکمل: صفحہ، 737 دارالمعرفۃ بیروت)
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ حضور اقدسﷺ ہمارے درمیان تشریف لاۓ، پس کچھ لوگ رمضان میں مسجدِ نبوی کے ایک گوشہ میں نماز پڑھ رہے تھے تو آپﷺ نے دریافت فرمایا: یہ لوگ کیا کر رہے ہیں؟ آپﷺ سے عرض کیا گیا کہ یہ ایسے لوگ ہیں کہ ان کے پاس قرآن نہیں ہے، اور سیدنا ابی بن کعبؓ نمازِ (تراویح) پڑھ رہے ہیں، اور یہ لوگ ان کی نماز کے ساتھ نماز پڑھ رہے ہیں، پس حضور اقدسﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ان لوگوں نے درست کیا اور جو ان لوگوں نے کیا اچھا ہے۔
2: عن ابن الهاد أن ثعلبة بن أبی مالك القرظی حدثه قال: خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم ذات ليلة فی رمضان فرای الناس فی ناحية المسجد يصلون فقال: ما يصنع هؤلاء؟ قال قائل: يا رسول الله! هؤلاء الناس ليس معهم قران وأبی بن كعب يقرء وهم يصلون بصلاته قال: قد أحسنوا أو قد أصابوا ولم يكره ذلك لهم
(السنن الکبریٰ للبیہقی: جلد، 4 صفحہ، 59)
ترجمہ: حضرت ثعلبہ بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایا کہ حضور اقدسﷺ رمضان کی ایک رات کو (مسجدِ نبوی) تشریف لاۓ، پس آپﷺ نے لوگوں کو مسجد کے ایک گوشے میں نماز پڑھتے دیکھا، پس آپﷺ نے دریافت فرمایا کہ یہ لوگ کیا کر رہے ہیں؟ ایک کہنے والے نے عرض کیا: یا رسول اللہﷺ! ان لوگوں کے پاس قرآن نہیں ہے (انہیں قرآن مجید یاد نہیں ہے) اور حضرت ابی بن کعبؓ تلاوت فرما رہے ہیں، اور یہ لوگ ان کی نماز پڑھ رہے ہیں۔ آپﷺ نے ارشاد فرمایا: ان لوگوں نے اچھا کیا اور صیح کیا اور حضور اکرمﷺ نے ان لوگوں کے لیے جماعت کو ناپسند نہیں فرمایا۔
توضیح: محررہ بالا دونوں حدیثوں سے معلوم ہوا کہ عہدِ رسالت میں بھی سیدنا ابی بن کعبؓ کی اقتداء میں غیر حُفاظ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نمازِ تراویح، جماعت کے ساتھ مسجدِ نبوی کے ایک گوشہ میں ادا کرتے تھے۔
اسی طرح عہدِ صدیقی میں بھی سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی جماعت تراویح کا سلسلہ چلتا رہا، لیکن یہ کوئی باضابطہ مستقل جماعت نہ تھی۔ کچھ لوگ حضرت ابی بن کعبؓ کے ساتھ تراویح پڑھتے۔ بہت سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اپنے گھروں میں تراویح پڑھتے۔ کچھ لوگ مسجدِ نبوی ہی میں تنہا نمازِ تراویح پڑھتے۔ تمام حاضرین کی ایک متحدہ باضابطہ جماعت نہ ہوتی تھی۔ حضرت عمر فاروقؓ نے تمام حاضرینِ مسجد کو ایک متحدہ مستقل جماعت کے ساتھ نمازِ تراویح ادا کرنے کا حکم فرمایا۔