Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

مفتی محمد ذو الفقار خان نعیمی ککرالوی رحمۃ اللہ کا فتویٰ


مفتی محمد ذو الفقار خان نعیمی ککرالوی رحمۃ اللہ کا فتویٰ 

(خلیفہ حضور تاج الشریعہ نوری دار الافتاء مدینہ مسجد محلہ علی خان کاشہ پورا ترا کھنڈ)

ایک مقرر کی تقریر میں جو رافضیت زدہ ہے، ایسے مقرر کی عبارات کا شرعی حکم اور ایسے مقرر کی صحبت و مجالست سے احتراز کرنے، اسے واعظ یا امام بنانے، اس کا وعظ سننے، اس کے پیچھے نماز پڑھنے، اس سے مذہبی سماجی ہر طرح کا بائیکاٹ کرنے، اور اسے کسی جلسہ میں مدعو کرنے کا حکم

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ میں کہ زید جو کہ ایک پیشہ ور مقرر ہے۔ آئے دن اپنی تقریروں میں خلاف اہلِ سنت نظریات بیان کرتا رہتا ہے۔ اہلِ تشیع کی مخترعہ روایات بیان کرتا ہے۔ زید کی چند تقریروں میں انبیائے کرام علیہم السلام و فرشتگان عظام سے متعلق توہین آمیز نظرات فی الحال سوشل میڈیا پر کافی گردش میں ہیں۔ ہم نے بھی ان موضوع روایات توہین آمیز فقرات کو سنا ہے

زید کی ان تقریروں میں سے درج ذیل چند ہفوات سے

متعلق ہمیں حکم شرعی درکار ہے۔ اُمید ہے کہ جواب دے کر ممنون فرمائیں گے اور عنداللہ ماجور اور عند الناس مشکور ہوں گے۔

سوالات:

1: الفاظ مقرر علامہ ابن عساکرؒ فرماتے ہیں ایک دن اللہ تعالیٰ جل شانہ کے نبی حضور اکرمﷺ سے پوچھا گیا، یا رسول اللہﷺ! کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیائے کرام علیہم السلام تشریف لائے کتنے آئے؟ ایک لاکھ چوبیس ہزار آئے۔ وہ کیوں آئے؟ ان کے آنے کا مقصد کیا تھا؟ تو میرے رسولﷺ فرماتے ہیں ان کے آنے کا مقصد یہ تھا، ایک تو وہ میری نبوت کا اعلان کرے، دوسرا یہ کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ولایت کا اعلان کرے۔ ان کا مقصد تو توحید تھا ہی اور اللہ تعالیٰ سے جوڑنا تھا ہی لیکن اللہ تعالیٰ جل شانہ بے نیاز ہے اس نے اپنے نبیوں کو اس مقصد کیلئے بھیجا کہ جاؤ میرے محبوبﷺ کی نبوت کے ڈنکے بجاؤ اور میرے سیدنا علیؓ کی ولایت کے ڈنکے بجاؤ۔ ولایت کا مطلب مولائیت، وہ انبیائے کرام علی کی مولائیت کے ڈنکے بجانے آئے تھے۔ (شہادت مولا علیؓ، 9 جولائی 2015ء، مالیگاؤں، مہاراشٹرا)

2: ارشادِ هوا آدم! ان پانچوں کے نام یاد کر لے کام آجائیں گے۔ آدم! ان پانچوں کے نام یاد کر لے کام آجائیں گے۔ آدم! ان پانچوں کے نام یاد کر لے کام آجائیں گے۔ اللہ میں تیری شان کے قربان کہ تو اپنا نام یاد کرنے کی بات نہیں کرتا۔ تو آدم کو پانچ نام یاد کراتا ہے، کیونکہ قدرت کے علم میں یہ بات ہے کہ میرا نام اسی کو فائدہ دے گا جو یہ پانچ نام والا ہو گا۔ آدم پانچ نام یاد کر ۔

(6 محفل یوم مباہلہ و شب اعلان ولایت مولائے کائنات تعزیہ کمیٹی مالیگاؤں: 9 ستمبر 2017 ء)

آدم تین سو سال یا دو سو سال تک دعا کرتے رہے جواب نہیں آیا۔ ایک دن کہا اے اللہ! وہ پنجتن کا واسطہ (سبحان الله سبحان الله) یہ ہیں پنجتن۔

(محفل یوم مباہلہ و شب اعلان ولایت مولائے کائنات تعزیہ کمیٹی مالیگاؤں: 9 ستمبر 2017ء)

آدم کی پریشانی کو کوئی مجبوری کا نام دے کر یہ نہ سوچے کہ معاذ اللہ آدم نے یوں ہی لے لیا تھا۔

آج آدم نے لیا ہے اور دور رسالت ختمی مرتبت کے اندر محبوب کو اس شان کے ساتھ لے جانے کا حکم دوں گا کہ پہلے حسنؓ کا دامن ، انگلی محمد عربیﷺ نے پکڑی ہوئی ہے بلکہ پکڑائی ہوئی ہے، ہاتھ میں حسین رضی اللہ عنہ کو لیا ہوا ہے حسین کو لیا ہوا ہے، پیچھے فاطمتہ الزہراؓء ہے، بعد میں علیؓ مرتضیٰ ہے، یہ چل رہا ہے۔ گویا کہ نبی بتا رہے ہیں کہ آدم نے جو وسیلہ لیا تھا یہ یوں ہی نہیں لیا تھا بلکہ اس وقت تو یہ پنجتن آدم کی ضرورت تھے اور آج یہ پنجتن اللہ کے دین کی ضرورت ہیں (سبحان الله، سبحان الله) یہ ہیں پنجتن

(محفل یوم مباہلہ و شب اعلان ولایت مولائے کائنات تعزیہ کمیٹی مالیگاؤں: 9 ستمبر 2017ء)

3: الفاظ مقرر توجہ ہے آپ کی؟ علی کی شان جاننا ہے بیٹھے ہونا تو سن لو! علی کو نہلا کون رہا ہے؟ حضور حضور کے ہاتھ ہیں۔ آپ قرآن سے پوچھو یہ نبی کے ہاتھ کس کے ہاتھ ہیں؟ سبحان الله! قرآن سے پوچھو نبی کا ہاتھ کس کا ہاتھ ہے؟ قرآن کہتا ہے يَدُ اللّٰهِ فَوۡقَ اَيۡدِيۡهِمۡ‌  (سورۃ الفتح: آیت نمبر، 10)

ترجمہ: اے نبی! یہ تیرا ہاتھ نہیں خدا کا ہاتھ ہے سبحان اللہ کونسا ہاتھ نہلا رہا ہے علی کو؟ خدا کے گھر میں پیدا ہوئے ہیں اور نہلا کون رہا ہے؟ محبوب خدا دست رسول نہلا رہے ہیں، اگر یہ کہو کہ دستِ مصطفیٰ میں دست خدا کام کر رہا ہے تو یہ میری عقیدت کا غلو نہیں بلکہ حقیقت ہے۔

(سیرت علی بن ابی طالب: 19 جولائی 2014ء مالیگاؤں، مہاراشٹرا)

4: الفاظ مقرر فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا وہ فاطمہ ہے کہ جس کے دروازہ پر بھیک مانگنے والا جبرئیل ہے واہ! واہ!) جب اسی طرح کی باتیں ہوتی ہیں تو لوگوں کو تکلیف ہوتی ہے کہ جبرائیل کو بھکاری کہہ دیا کہتے ہیں۔ قرآن اُٹھا کر دیکھ بھی مسکین بن کر کبھی یتیم بن کر کبھی اسیر بن کر (واہ!واہ!) کوئی آنے والا آتا ہے تو افطار کے وقت بھیک مانگتا ہے، صدا لگاتا ہے۔

(تاجدار کربلا کانفرنس سنی دعوت اسلامی اجتماع: 22 ستمبر 2017ء)

 الفاظ مقرر اور مریم کے گھر میں جبرائیل بیٹا دینا آتا ہے اور فاطمہ کے گھر میں جبرائیل بھیک مانگنے آتا ہے (ذکر تاجدارِ کربلا) نعرہ تکبیر، نعرہ رسالت، شان اہلِ بیت، ذکر تاجدارِ کربلا۔ یہ میری زور خطابت نہیں ہے، یہ میری زور خطابت نہیں ہے۔ یہ حقیقت ہے ورنہ قرآن اُٹھا کر دیکھ لو ایک دن میں مسکین ہوں، دوسرے دن آیا میں فقیر ہوں، میں اسیر ہوں تیسرے دن آیا اور اس کے بعد فاطمہ بھیک دیتی ہے، جب یہ انداز گزر گیا آقا نے کہا علی فاطمہ تمہارے گھر تین دن سے فقیر اسیر بھیک مانگنے آرہا تھا وہ کون تھا؟ عرض کی حضور آپ بتائیں کون تھا؟ آقا فرماتے ہیں مکہ مدینہ کا صحرائے عرب کا کوئی بدو نہیں تھا جو بھیک لینے آیا تھا وہ بلبل سدرہ تھا جو تیری چوکھٹ پہ مانگنے آیا تھا۔ (دوسرا دن محرم: 2013ء)

5: فاطمہ کون ہے؟ فاطمہ کون ہے، جو پنجتن میں پانچواں تن ہے۔ بلکہ یہ کہوں کہ پنجتن میں پہلا تن فاطمہ، لیکن میں نے چونکہ عورت ہونے کے حساب سے پانچواں بیان کیا۔ ترتیب کے اعتبار سے تو وہ پہلی ہے لیکن میں نے پانچویں نمبر پہ بیان کیا۔ یہ فاطمہ کون ہے؟ فاطمہ کون ہے؟ ایک جملہ میں منقبت فاطمہ۔

(محفل یوم مباہلہ و شب اعلان ولایت مولائے کائنات تعزیہ کمیٹی مالکیاؤں: 8 ستمبر 2017ء)

6: کائنات کو دینے والا رسول، کائنات کو دینے والا رسول، حجرہ فاطمہ میں ہاتھ پھیلا کر یوں داخل ہوتا ہے۔

(ذکر حسین و فضائل اہلِ بیت، مالیگاؤں: 17 اکتوبر 2016ء)

(حضور اکرمﷺ کے امام الانبیاء و مالک کل ہونے کے باوجود فقر کی وجہ بیان کرتا ہے) کیونکہ جس کے سر سے اتارا جاتا ہے اتارا اس کے ہاتھ میں نہیں دیا جاتا بلکہ قلاش، فقیر اور محتاج کے ہاتھ میں دیا جاتا ہے۔

قدرت نے اپنے خانہ خدا سے ایک بارات نکالی وہ معراج کے دولہے کی بارات تھی۔ زمین سے لے کر آسمان تک عرش سے لے کر فرش تک شرق سے لے کر غرب تک پوری کائنات لے کر محمد پہ یوں صدقہ کیا (نعرہ رسالت) (وارنے کا اشارہ) محمد سے یوں شمار کیا، یوں شمار کیا اور جو ضرورت مند کھڑے تھے سب کی جھولی بھر دی داؤد و سلیمان کو بادشاہ بنا دیا کسی کو تاجدار بنا دیا، ان کے ہاتھ میں رکھتا تو یہ محبت کی غیرت کے خلاف تھا اس لیے ان کو وہ نہیں دیا کیونکہ صدقہ جس کا ہے اس کو ہاتھ میں نہیں دیا جاتا۔

( ذکر حسین و فضائل اہلِ بیت مالیگاؤں: 17 اکتوبر 2016ء)

حضور وہ ہیں حسنِ یوسف جس کے دروازہ پر کاسنہ گدائی لحن داؤدی بھیک مانگے آدم کی صفوت و سطوت اس کے دروازے پہ خیرات مانگے ۔

( یوم مباہلہ و یوم اعلان ولایت مولائے کائنات مالیگاؤں: 8 ستمبر 2017ء)

7: علی کعبہ میں پیدا ہوئے، آج تک اندر پیدا ہونے کا شرف حاصل ہو صرف تنہا اس میں مولائے کائنات

شیر خدا علی مرتضیٰ کی ذات ہے۔

پوری کائنات میں ایک بندہ ہے جس کو کعبہ میں پیدا ہونے کا شرف حاصل ہے۔

یہ قدرت کے فیصلے تھے جس میں مولود کعبہ کی عظمت کو ظاہر کرنا تھا۔

اس سے پہلے سنایا جا چکا ہے، اس سے پہلے معلوم ہو چکا ہے، یہ بات پتہ ہے کہ مریم کعبہ کے اندر رہتی تھی۔ توجہ فرمائیں! مریم بتول کنواری پاک دامن جس کی پاکی کا اعلان قرآن کر رہا ہے وہ مریم بیت المقدس میں رہتی تو اس کنواری مریم کو جب بچہ کی پیدائش کا وقت آیا تو اللہ کے منادی نے اعلان کیا مریم تو بچپنے سے لے کر آج تک تو مسجد میں رہی لیکن اب بچے کی ولادت کا وقت ہے خبردار مسجدوں میں بچے پیدا نہیں ہوتے، بچے کی پیدائش کا وقت ہے۔ تو باہر آ، تو مریم جو مسجد میں رہتی تھی اس کو باہر نکلنے کا حکم ہوا اور مریم باہر نکلی تو جناب عیسیٰ کی ولادت ہوئی لیکن قربان جائیں ہم غیر نبی کو نبی کے برابر کا درجہ نہیں دیتے افضل تو دور کی بات ہے لیکن جب مریم کا بچہ پیدا ہونے کا وقت آتا ہے تو الله اكبر مسجد میں رہنے والی مریم کو باہر نکالا جاتا ہے لیکن جب علی کی ولادت کا وقت آتا ہے تو باہر رہنے والی فاطمہ بنت اسد کو اندر بلایا جاتا ہے۔

(جشنِ ولادت علی سنی دعوت اسلامی اجتماع: 2 مئی 2015ء ٹمپوسٹانڈ، ڈونگری ممبئی)

الفاظ مقرر: کائنات انسانی میں دو بتول ہیں، ایک مریم ایک فاطمہ، اللہ نے فاطمہ کو شوہر والی بنایا اور بچے عطا کیے لیکن مریم کو شوہر والی نہیں بنایا، بغیر شوہر کے بچہ دیا اللہ تیری حکمتوں پر قربان۔ تجھ پہ اعتراض تو کوئی نہیں کر سکتا، اعتراض کرے وہ مومن نہیں رہ جاتا۔ مولیٰ اگر تو نے مریم کو وہ شوہر دے دیا ہوتا تو مریم پر زنا کا الزام نہ لگتا بتول پہ یہ الزام لگا دینا تھا بتول پہ زنا کا الزام لگا اس لیے کہ تو نے شوہر کے بغیر بچہ اسے عطا کیا، جبرائیل کی پھونک سے عطا کیا، جبرائیل کے دم سے عطا کیا۔ مولیٰ شوہر دے دیتا تو زنا کا، جب تو نے بتول ہی بنانا تھا الزام سے بچ جاتی، حالانکہ تو نے قرآن اتار کر تو نے الزام دور کر دیا لیکن اتنے دنوں تک مریم کو گالیاں پڑتی رہیں عیسیٰ کو گالیاں پڑتی رہیں مولی شوہر دیتا تو اچھا ہوتا۔ قدرت کا نقیب آواز دے گا، نادان صرف دو ہی کو بتول بنایا ہے ۔ ایک مریم ایک فاطمہ مریم کا شوہر علی ہے۔ معاف کیجئے فاطمہ کا شوہر علی ہے فاطمہ کا شوہر علی ہے مریم کو شوہر دیتا نا اگر مریم کو شوہر دیتا تو انسان ہی ہوتا مریم کا شوہر بھی انسان ہی ہوتا۔ وہ کھڑے ہو کر سینہ تان کر محشر میں کہتا کہ علی کی بیوی بھی بتول ہے۔ اور میری بیوی بھی بتول ہے اور میں علی کے برابر ہوں اللہ نے فرمایا اگر مریم پہ الزام لگے گا قرآن نازل کر کے دور کر دوں گا لیکن علی کی برابری کی کسی کو اجازت نہیں دوں گا۔

(دوسرا دن محرم: 2013)

8: الفاظ مقرر تم خود آؤ، ہم خود آتے ہیں، آقا نے کہا علی تم بھی چلو، علی تم بھی چلو، کیوں چلو، اس میں بظاہر علی کا ذکر نہیں تو گویا کہ قرآن بتا رہا ہے انفسنا کہ یعنی ہم خود میں علی اور محمد عربی یہ دونوں ہیں ایک ہی ذات ہے۔ گویا کہ اللہ انفسنا کہہ کر بتا رہا ہے کہ قالب تو دو ہیں اور روح ایک ہے، اس دو قالب کا نام ایک کا علی اور دوسرے کا محمد ہے اور اس ایک روح کا نام علی مرتضی ہے انفسنا یہ دو جسم ایک جان جو کہتے ہیں اسی کا نام محمد و علی ہے۔

ہم یہ نہیں کہتے، ہم یہ نہیں کہتے کہ علی رسول ہے، یا رسول علی ہے، ہم حلول کے قائل نہیں لیکن آپ نے کہا ہے کہ نہ کہ محبت ایسی ہوتی ہے کہ تومن شدی تومن شدی من تو شدم تو تن ہو جا میں جان ہو جاؤں تو من ہو جا میں جان ہو جاؤ پھر کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ تو الگ ہے اور میں الگ ہو، اگر میں اس فنائیت کا جلوہ دیکھتا ہے تو قرآن کہتا ہے انفسنا علی کو رسول کی ذات میں وہ فنائیت حاصل تھی کہ اللہ نے حسین کا ذکر الگ کیا ہے سیدہ کا ذکر الگ کیا ہے اور علی اور رسول کا ذکر ایک ساتھ کیا ہے، یہ مولائے کائنات کی شان ہے یہ علی مرتضیٰ کا مرتبہ ہے۔

(شہادت مولا علی: 9 جولائی 2015ء مالیگاؤں مہاراشٹرا)

الفاظ مقرر: علی کو کس حیثیت سے؟ انفسنا علی کو گویا کہ نبی نے نفس رسول قرار دیا نفس رسول آپ سمجھتے ہیں؟ نفس رسول سمجھتے ہیں؟ اور نفس رسول نفس رسول کا مطلب کیا ہے؟ نفس رسول کا مطلب کیا ہے؟ تو میں اور میں تو۔ اسی کو کہتے ہیں نفس۔ اسی کو کہتے ہیں نفس۔ میں تو، تو میں۔

حضور اکرمﷺ فرماتے ہیں علی! علی! انت، منی و انامنه دمّک دمیّ، لحمک لحمی تو مجھ سے ہے، میں تجھ سے ہوں۔ تیرا خون، میرا خون ہے اور تیرا گوشت میرا گوشت ہے۔ (سبحان اللہ سبحان اللہ) تو پتہ چلا جو قد نبی کا تھا وہی قد علی کا تھا۔ اور جو توازن نبی کے جسم کا تھا وہی علی کے جسم کا تھا۔

(یوم مباہلہ و یوم اعلان ولایت مولائے کائنات مالیگاؤں: 8 ستمبر 2017ء)

9: الفاظ مقرر جب آیتِ تطہیر نازل ہوئی تو حضور اکرم ﷺ نے اپنی کمبل کو حضور اکرمﷺ نے اپنی نوری چادر کو اللہ اکبر پھیلایا اور پھیلانے کے بعد کہا علی آجاؤ، فاطمہ آجاؤ، حسن آجاؤ، حسین آجاؤ، اور چاروں تن کو لے کر، آقا نے چاروں تن کو لے کر، ایک تن حضور اکرمﷺ کا ہے، توجہ فرمائیں! ایک تن حضور اکرمﷺ کا ہے، توجہ آپ کی، ایک تن حضور اکرمﷺ کا ہے دو تن حسنین کے ہیں دو تن علی و فاطمہ کے ہیں اس طرح یہ ہے پنجتن، یہ ہے پنجتن ہے، یہ عبا کے اندر ہے انہیں چار تن کے ساتھ انہیں چار تن کو آل عبا کہتے ہیں۔

اور یہ چار تن ہیں آپ غور فرمائیں چار تن کو ساتھ لیا اُم سلمہ وہ بھی آیتِ تطہیر میں شامل ہیں۔ آیت تطہیر ان کے گھر میں داخل ہوئی لیکن اُم سلمہ نے چادر لیا اور اندر داخل ہونے کی کوشش کی، آقا نے چادر کھینچ لی، اور کہا اُم سلمہ خیر پر ہو آیت کی برکت تمہیں بھی ملے گی لیکن چادر میں آنا نہیں کیوں کیوں؟ حالانکہ آیت ان ہی کے گھر نازل ہوئی، ہمارا عقیدہ ہے آیتِ تطہیر میں امہاتُ المومنین اول درجہ پر ہے اس کے بعد قربان جائیے حضورﷺ نے چار تن کو لیا پانچواں تن نبی کا تھا نبی بتا رہے ہیں اس چادر کے اندر تن پانچ ہیں لیکن روح ایک ہے (سبحان الله سبحان الله) اسی لیے تو کہتے ہیں بے دم یہی تو پانچ ہیں مقصود کائنات مقصود کائنات مقصود کائنات آقا سے اللہ نے فرمایا ہے حبیب تجھے پیدا کرنا نہ ہوتا تو کائنات کو پیدا نہ کرتا اگرچہ یہ چا رتن الگ ہیں لیکن ان میں روح، روح مصطفیٰ ہے روح مصطفیٰ ہے۔ (سبحان اللہ، سبحان الله)

(دوسرا دن محرم: 2013ء)

10: الفاظ مقرر 10 ہجری میں 18 تاریخ یعنی یہی جو کل کا دن آنے والا ہے اعلان کس نے کیا؟ اعلان کرنے والا نبی، کس کی ولایت کا اعلان ہوا؟ علی مرتضیٰ کی۔ اب سب سے پہلے منانے والا کون؟ سب سے پہلے ولایت علی منانے والا کون؟ غدیر خم پر مبارک باد دینے والا کون؟

(یوم مباہلہ و یوم اعلان ولایت مولائے کائنات، مالیگاؤں: 8 ستمبر 2017ء)

الفاظ مقرر: میں وہ کہہ رہا تھا نہ کہ سنی کمیٹی کو کوئی طعنہ نہ دے کہ یہ کیا ہو گیا؟ اور ولایت علی تو رافضی مناتے ہیں۔ اچھا! کب سے مناتے یہ؟ جن کو تم رافضی کہتے ہو؟ ذرا بتانا کب سے مناتے ہیں؟ نبی نے اعلان کیا تبھی تو کوئی منائے گا۔ پہلے اعلان کس نے کیا؟ اعلان کرنا نبی کی سنت ہے اور سب سے پہلے ولایت علی منانے والوں کے نام حدیث کی روشنی میں پیش کرتا ہوں یا رو! آپ کو پتہ نہیں ہے، آپ بہکوں میں الجھ گئے ہیں۔ ذرا اصل کی طرف آئیے۔ حقیقی سنیت کی طرف آئیے (سبحان الله سبحان الله) حقیقی سنیت کی طرف آئیے آپ۔

(یوم مباہلہ و یوم اعلان ولادت مولائے کائنات مالکیاؤں: 8 ستمبر 2017ء)

الفاظ مقرر: جب یہ اعلان نبیﷺ نے کیا سب سے پہلے سیدنا ابوبکر صدیقؓ اٹھ کر کھڑے ہوئے اور کہنے لگے علیؓ مبارک ہو، مبارک ہو، تو میرا بھی مولا ہے اور سارے مؤمنین کا مولا ہے۔ پھر اس کے بعد عمر بن خطابؓ کھڑے ہوئے اور کہنے لگے علی مبارک ہو مبارک ہو، تو میرا بھی مولا ہے سارے مؤمنوں کا مولا ہے۔ پتا چلا ولایت علی منانا رافضیت نہیں ہے صدیقیت اور فاروقیت ہے، صدیقیت اور فاروقیت ہے۔

(يوم مباہلہ و یوم اعلان ولادت مولائے کائنات مالکیاؤں: 8 ستمبر 2017ء)

الفاظ مقرر: نبی نے اعلان کیا تبھی تو کوئی منائے گا، اعلان کرنا نبی کی سنت ہے۔

(یوم مباہلہ و یوم اعلان ولادت مولائے کائنات مالکیاؤں: 8 ستمبر 2017ء)

الفاظ مقرر: اور ہم یہ یوم مباہلہ منا کر، یا شب اعلان ولایت علی منا کر، ہم دو ثبوت دے رہے ہیں۔ ایک تو اپنے حلالی ہونے کا، اور ایک تو اپنے ایمان والا ہونے کا (نعرہ حیدری! یا علی یا علی، نعره حیدری یا علی یا علی، نعره رسالت! یا رسول الله سبحان الله سبحان الله، حق ہے، سبحان الله)

(یوم مباہلہ و یوم اعلان ولادت مولائے کائنات مالکیاؤں: 8 ستمبر 2017ء)

جواب: سوالات مذکورہ میں درج باتیں اگر واقعی مقرر موصوف نے کہیں ہیں تو یقیناً وہ از روئے شرع سخت مجرم ہے۔ اس پر توبہ تجدیدِ نکاح تجدیدِ بیعت لازم و ضروری ہے۔ ہم پہلے یہاں بالترتیب سوالات کے جوابات پیش کرتے ہیں اور پھر مقرر موصوف کی گمراہ کن عبارات کا شرعی حکم نقل کرتے ہیں، ملاحظہ کریں۔

1: حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کو اللہ تعالیٰ جلّ شانہ نے اپنے دین کی تبلیغ کیلئے مبعوث فرمایا، نہ کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ولایت کے ڈنکے بجانے کیلئے۔ اس میں حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کی سراسر توہین ہے۔ اس میں حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کے مبعوث ہونے کے اصل مقصد کا انکار بھی لازم آرہا ہے، اور اس میں بظاہر حضرات انبیاء کرام علیہم السلام پر سیدنا علیؓ کی برتری بھی ثابت ہو رہی ہے۔ حالانکہ اہلِ سنت والجماعت کا اس پر اجماع ہے کہ کسی غیر نبی کو نبی پر فضیلت دینا ہرگز ہرگز جائز نہیں، بلکہ کفر ہے۔

علاؤہ ازیں یہ عقیدہ و نظریہ اہلِ تشیع کا ہے:

(تحفہ اثناء عشریہ کے صفحہ نمبر 578 پر اہلِ تشیع کے ہفوات کے تحت چھٹا ہفوہ بیان کرتے ہوئے حضرت مولانا شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ فرماتے ہیں کہ ہفوہ چھٹا یہ کہ اللہ تعالیٰ جلّ شانہ نے تمام انبیاء اور رسولوں علیہم السلام کو علی رضی اللہ عنہ کی ولایت کیلئے بھیجا تھا، در پردہ تمام نبیوں کے ساتھ اور ظاہر محمد مصطفیٰﷺ کے ساتھ جو اس کا انکار کرے وہ کافر ہو جاتا ہے، ابن طاؤسؒ اور دوسروں نے اس کا ذکر کیا ہے۔ اس ہفوات کو بیان کرنے کے بعد ان ہفوات کا حکم بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ یہ تمام ہفوات تمام شریعتوں کے مخالف نصوصِ قرآنیہ کی تکذیب کرنے والے اور کفر وزندیقیت کی جڑ اور بنیاد ہے۔

الغرض: مقرر موصوف کی تقریر کے مذکورہ الفاظ سے ظاہری طور پر انبیاء کرام علیہم السلام کی تنقیص شان اور غیر نبی کا ان سے برتر و اعلیٰ اور افضل ہونا ثابت ہو رہا ہے۔ اور اس بات کے کفر ہونے میں کسی کو شک نہیں ہونا چاہیے۔ تو اس لحاظ سے مقرر موصوف پر شرعا حکم کفر عائد ہوتا ہے۔

2: پنجتن کے نام کی برکتیں الگ، البتہ یہ کہنا کہ ان کے نام کے بغیر اللہ تعالیٰ جل شانہ کا نام بھی فائدہ نہ دے کا شریعت پر افتراء ہے۔ اللہ تعالیٰ جل شانہ کا نام بالذات موثر ہے، فائدہ پہنچانے میں کسی نام کا محتاج نہیں ہے۔ اس طرح کا جملہ بلا شبہ بارگاہ الہی کے تقدس کے خلاف ہے۔ نیز حضرت آدم علیہ السلام بحیثیت نبی کسی غیر نبی کے وسیلہ کے محتاج نہیں ہیں۔

انداز بیان سے حضرت آدم علیہ السلام پر حضرت علی حضرت فاطمہ اور حضرات حسنین کریمین کی فضیلت ظاہر ہو رہی ہے اور صاف پتہ چل رہا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام معاذ اللہ ان چاروں نفوس قدسیہ کے محتاج ہیں۔ اور مقرر کا یہ جملہ بھی اس کی وضاحت کر رہا ہے کہ آدم نے جو وسیلہ لیا تھا یہ یوں ہی نہیں لیا تھا بلکہ اس وقت تو یہ پنجتن آدم کی ضرورت تھے

اور اس میں یقیناً حضرت آدم علیہ السلام کی تنقیص نشان ظاہر ہے۔ اور کسی نبی کی توہین و تنقیص از روئے شرع کفر ہے۔ اعلیٰ حضرت ذخيرة العقبی کے حوالے سے فرماتے ہیں

یعنی بے شک تمام امت مرحومہ کا اجماع ہے کہ حضور اکرمﷺ خواہ کسی نبی کی تنقیص شان کرنے والا کافر ہے۔ خواہ اسے حلال جان کر اس کا مرتکب ہوا ہو یا حرام جان کر، بہر حال جمیع علماء کے نزدیک کافر ہے اور جو اس کے کفر میں شک کرے وہ بھی کافر ہے۔

3: مقرر موصوف نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو نہلانے میں نبی کے ہاتھ کے ساتھ خدا تعالیٰ جلّ شانہ کے ہاتھ کا ذکر کیا اور آیت متشابہ کو مستدل بناتے ہوئے آیت کو ظاہری معنیٰ پر محمول کیا ہے جس پر لفظ حقیقت صاف دال ہے۔ 

حالانکہ آیات متشابہ کے ظاہری معانی مراد لیا بالکل روا نہیں ہیں اور وہ بھی ایسے معانی جن سے خدا تعالیٰ جل شانہ کی ذات پاک و منزہ ہے بلاشبہ کھلی گمراہی بلکہ کفر ہے۔

4: مقرر موصوف کے یہ جملے سخت قبیح و شنیع ہیں۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام کو بھکاری کہنا حضرت جبرائیل علیہ السلام جیسے مقدس فرشتہ کی ہتھک شان اور توہین ہے۔ اور فرشتوں کی تنقیص شان کا مرتکب عند الفقہاء کافر ہے۔

5: مقرر کے ان جملوں سے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا نبی کریمﷺ پر تقدم ثابت ہو رہا ہے، حالانکہ یہ سراسر گمراہی ہے، نبی کریمﷺ پہلے تن ہیں۔ ذاتی اعتبار سے سب سے اول ہیں۔ جیسا کہ حدیث پاک كنت نبيا و آدم بین الماء والطین اس پر شاہد ہے، اور جسمانی اعتبار سے بھی فاطمہ رضی اللہ عنہا سے اول ہیں۔ کیونکہ سیدہ فاطمہؓ کے والد ہیں۔ اس کا ظاہری مفہوم منجیر الی الکفر ہے۔ تاویل بعید سے گنجائش بھی نکال لی جائے تب بھی مقرر موصوف عند الفقهاء توبہ تجدیدِ ایمان وغیرہ کے حکم سے بچ نہیں سکیں گے۔

6: معاذ اللہ مقرر کے ان جملوں سے نبی کریمﷺ بلکہ تمام انبیاء کرام علیہم السلام کی بارگاہوں کا تقدس مجروح ہوتا نظر آرہا ہے۔ نبی کریمﷺ اور دیگر انبیاء کرام علیہم السلام کیلئے اس طرح کے توہین آمیز جملے گستاخانہ انداز۔کے ساتھ بیان کرنا کسی مؤمن کی شان سے بعید ہے۔ کسی نبی کو فقیر قلاش بھکاری ہاتھ پھیلانے والا کہنا بلا شبہ توہین ہے، اس میں کسی طرح کی تاویل کفر کو فروغ دینے کے مترادف ہو گی۔ اور نبی کیلئے اس طرح کے نازیبا کلمات کے تعلق سے اعلیٰ حضرت نسیم الریاض کے حوالے سے رقم طراز ہے

اقول وبالله التوفيق توفیق جامع و تحقیق لامع یہ ہے کہ ان اوصاف کا اطلاق بروجہ تقریر و اثبات خواہ حکم قصدی میں ہو یا وصف عنوانی میں، اگر قول قائل کے سیاق یا سباق یا مساق سے طرز تنقیص ظاہر و ثابت ہو یقیناً کفر ہے اور اگر ایسا نہیں اور قائل جاہل ہے اور اس سے صدور نادر ہو اور وہ اس پر غیر مصر تو ہدایت و تنبیہ و زجر و تهدید کریں، اور حاکم شرع اس کے مناسب حال تعزیر دے کہ وہ ضرور سزاوار سزا ہے۔ اور اگر قائل مدعی علم ہے یا ایسے کلمات کا عادی یا بعد تنبیہ بھی ان پر مصر تو مریض القلب بد دین گمراہ اور مستحق عذاب شدید ہے، سلطان اسلام اسے قتل کرے گا اور زمین کو اس کی ہستی ناپاک سے پاک اور عام مسلمانوں کو اس کی صحبت و مجالست سے احتراز لازم اور اسے واعظ یا امام بنانا اس کا سننا اس کے پیچھے نماز ممنوع و حرام ہے۔ 

7: اس روایت میں مجموعی طور پر جھوٹ، افتراء اور حضرت مریم علیہا السلام کے ساتھ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی توہین بھی لازم آرہی ہے۔ مقرر موصوف کا یہ کہنا کہ اللہ کے منادی نے اعلان کیا

یہ بالکل غلط اور بے بنیاد ہے۔ اور الله تعالیٰ جل شانہ پر افتراء ہے۔ نیز یہ جملہ آج تک تو مسجد میں رہی لیکن اب بچے کی ولادت کا وقت ہے خبردار مسجدوں میں بچے پیدا نہیں ہوتے بچے کی پیدائش کا وقت ہے

پیغمبر کی پیدائش پر مسجد سے یہ کہہ کر نکالنا کہ مسجد میں بچے پیدا نہیں ہوتے اس کا ظاہری مفہوم نبی کی توہین کا مؤجب ہے۔ سیدنا علیؓ کی ولادت کے وقت کعبہ میں داخل ہونے کا حکم دینا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام پیغمبر کی ولادت کے وقت مسجد سے نکالا جانا کہ مسجد میں بچے پیدا نہیں ہوتے، کیا اس میں سیدنا علیؓ کی حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر برتری نہیں ہے؟ بلا شبہہ ہے۔

یہ پوری روایت حضرت مریم علیہا السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی توہین پر مشتمل ہے۔ اور کیوں نہ ہو کہ یہ روایت شیعہ نظریات سے ماخوذ ہے۔

شیعہ مذہب میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر سیدنا علیؓ کی برتری و افضلیت ثابت کرنے کیلئے حضرت حلیمہؓ کے حوالہ سے ایک روایت بیان کی جاتی ہے جو قدرے طویل ہے لیکن یہاں بالضرورت نقل کی جاتی ہے۔ ملاحظہ کریں تحفہ اثناء عشریہ کے صفہ نمبر 113 پر حضرت مولانا شاہ عبد العزیزؒ رقم طراز ہیں

حلیمہ نے کہا کہ حجاج ایک دوسرا نکتہ بھی سن (حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر سیدنا علیؓ کی برتری سے متعلق) کہ مریم بنت عمران کو جب دردِ زه لاحق ہوا تو وہ بیت المقدس میں تھیں۔ حکم الٰہی پہنچا کہ فوراً جنگل کا رخ کر اور وہاں کسی خشک کھجور کے درخت کے نیچے وضع حمل کر، تاکہ تیرے نفاس کی گندگی سے بیت المقدس نا پاک نہ ہو، حالانکہ سیدنا علیؓ کی والدہ کو جو بنت اسد تھیں جب دردِ زہ لاحق ہوا تو اُن کو وحی الٰہی پہنچی کہ کعبہ میں جا اور میرے گھر کو اس مبارک بچے کی پیدائش سے شرف یاب کر۔

اب ذرا انصاف کر! ان میں کون سا بچہ افضل و اشرف ہے؟ حجاج نے حلیمہ کے حق میں دعائے خیر کی اور عزت و احترام سے ان کو رخصت کیا۔

اس روایت پر تبصرہ کرتے ہوئے شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ رقم طراز ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت کے بارے میں جو کچھ ذکر کیا گیا وہ محض لچر اور تاریخ کے لحاظ سے سراسر بے اصل ہے۔

کیونکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت میں بہت بڑا اختلاف ہے، بعض کے نزدیک فلسطین میں ہوئی، بعض مصر میں مانتے ہیں اور بعض دمشق میں۔ مگر مشہور قول یہ ہے کہ آپ علیہ السلام کی ولادت بیت اللحم میں ہوئی۔ لیکن کسی مؤرخ نے یہ نہیں لکھا کہ حضرت مریم علیہا السلام کو بیت المقدس میں دردِ زہ لاحق ہوا۔ اور اگر بالفرض ایسا ہوا بھی تو یہ کہاں سے ثابت ہوا کہ ان کو مسجد سے نکالا گیا بلکہ عبارت قرآنی صاف بتاتی ہے کہ ان کو دردِ زہ کی وجہ سے سخت بے چینی لاحق ہوئی انہوں نے چاہا کہ کسی چیز سے ٹیکا لیں اس لیے ویرانے کی طرف نکل کھڑی ہوئیں، چونکہ بغیر باپ کے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا علوق قرار پایا تھا، اس لیے شرماتی تھیں، لا محالہ جنگل کا راستہ لیا، ایسی حالت میں جنگل کی طرف جانا اور بغیر کسی کی مدد کے وضع حمل کرنا چونکہ بہت دشوار تھا اس لیے بے اختیار موت کی آرزو کرنے لگیں جیسا کہ فرمایا فاجاءها المخاض الى جذع النخلة، قالت يليتني مت قبل هذا وكنت نسيا منسيا

اب یہ جو کہا ہے کہ فاطمہ بنت اسد کو وحی آئی کہ خانہ کعبہ میں جا کر وضع حمل کریں یہ در حقیقت ایک بے لطف جھوٹ ہے۔ اس لیے فرق اسلامیہ میں سے کوئی فرقہ ان کی نبوت کا قائل نہیں۔ پھر حجاج نے اس کو کیسے تسلیم کیا، یہ قابل تعجب ہے؟

مشہور روایت میں یوں آیا ہے کہ ایام جاہلیت میں یہ معمول تھا کہ رجب کی پندرھویں تاریخ کعبہ کے دروازے کھولتے اور اس مبارک گھر کی زیارت کیلئے اندر جاتے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش بھی اسی روز ہوئی تھی۔ اس لیے اس دن کو یوم الاستفتاح یا روز مریم کہتے ہیں۔ یہ رسم تھی کہ اس دن سے ایک دو دن پہلے عورتیں زیارت کعبہ کرتیں۔ اتفاق سے ایک انہیں عورتوں کی زیارت کے ایام میں فاطمہ بنت اسد نے بھی زیارت کا ارادہ کیا؟ اگرچہ مدت حمل پوری ہو چکی تھی، چونکہ یہ دن سال میں ایک ہی مرتبہ آتا تھا اس لیے ایسے دنوں میں حرکت دشوار ہونے کے باوجود رنج و مشقت سے خود کو کعبہ کے دروازے تک پہنچایا۔ اُس زمانہ میں کعبہ کا دروازہ ذمین سے قد آدم اونچا تھا اب بھی اگرچہ ایسا ہی ہے مگر اُس زمانے میں سیڑھی کا زینہ بھی تھا اب تو لکڑی کا زینہ بچوں کی گاڑی کی شکل کا بنا لیا ہے بوقتِ ضرورت اس کو دہلیز کعبہ سے لگا دیتے ہیں۔ چنانچہ اس سخت حرکت سے دردِ زہ اُٹھ کھڑا ہوا حضرت فاطمہؓ نے سوچا کہ کچھ دیر بعد جاتا رہے گا، میں زیارت کعبہ سے کیوں محروم ہوں۔

جیسے ہی وہ دروازے میں داخل ہوئیں درد کی شدت نے طول کھینچا اور پھر سیدنا علیؓ پیدا ہوئے درد کی و شدت اور اس کی مدت کھچ جانے سے اور کچھ مایوسی پیدا ہونے کے سبب ابو طالب طلب شفا ان کو کعبہ میں لے گئے۔ اللہ تعالیٰ جل شانہ نے فضل فرما دیا کہ جلد ولادت ہو گئی۔

خلاصہ کلام یہ کہ اگر خانہ کعبہ میں پیدا ہونے سے سیدنا علیؓ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے افضل ہو جائیں تو وہ خود پیغمبر علیہ السلام سے بھی افضل ہوں گے۔ حالانکہ شیعہ و سنی ہر دو فریق میں سے کوئی اس کا قائل نہیں۔ اور صحیح تاریخوں میں ایسا ثابت ہے کہ حکیم بن حزام بن خویلد ام المؤمنین سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بھتیجے بھی کعبہ میں پیدا ہوئے، مسلم شریف میں ہے قال مسلم بن الحجاج ولد حكيم بن حزام في جوف الكعبة یعنی حکیم بن حزام کعبہ کے اندر پیدا ہوئے۔

(مسلم شریف: کتاب البيوع باب الصدق في البیع والبيان)

تو چاہیے کہ وہ بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام بلکہ تمام پیغمبروں سے افضل ہوں حالانکہ اس کی برائی کسی پر پوشیدہ نہیں۔

8: مقرر موصوف کو اہلِ تشیع کی روایات اور ان کے باطل و گمراہ کن عقائد و نظریات کافی حد تک ازبر ہیں۔ مقرر موصوف کا سیدنا علیؓ کو نفس رسول قرار دینا اور یہ کہنا کہ گویا کہ الله تعالیٰ انفسنا کہہ کر بتا رہا ہے کہ قالب تو دو ہیں اور روح ایک ہے، اس دو قالب کا نام ایک کا علی اور دوسرے کا محمد ہے، اور اس ایک روح کا نام علی مرتضیٰ ہے

گمراه کن جملہ ہے۔ اور اس جملہ سے کفریہ عقیدہ حلول کی طرف بھی اشارہ ہو رہا ہے۔ یہ عقیدہ نظریہ بھی اہلِ تشیع کا ہے۔

9: یہ نظریہ بھی رفض زدہ اور کفر و ضلالت کی طرف منجر ہے۔ فرقہ شمسیہ کے بارے میں شاہ صاحبؓ تحفہ اثناء عشریہ کے صفحہ نمبر 19 پر لکھتے ہیں کہ

یہ کہتے ہیں کہ پانچوں در حقیقت شخص واحد ہیں کہ ایک ہی روح سب میں حلول کئے ہوئے ہیں

10: مقرر کی درج بالا ہفوات و مزخرفات یقیناً شیعہ مذہب کی طرف مائل ہونے کی گواہی دے رہی ہیں۔ عید غدیر خم کبھی نہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے منائی نہ کسی تابعی نے، نہ کسی مجتہد نے، نہ کسی عالم و فقیہ نے، اور نہ کہیں اہلِ سنت مناتے ہیں۔ اس میں شبہ نہیں کہ یہ عید غدیر خم اہلِ تشیع کا شعار ہے، اہلِ سنت کا نہیں۔ یوم غدیر اہلِ تشیع کی عید اکبر ہے۔ اور اس کو وہ خاص اس لیے مناتے ہیں کہ ان کے مطابق اس دن سیدنا علیؓ کو خلافت بلا فصل ملی تھی بلکہ امامت کے بھی قائل ہے۔ نیز یہ بھی مشہور ہے کہ اس دن چونکہ سیدنا عثمان غنیؓ کی شہادت ہوئی تھی اس لیے وہ اس دن جشن مناتے ہیں۔ یہ ساری وجوہات ہو سکتی ہیں۔ البتہ اصل وجہ سیدنا علیؓ کی خلافت بلا فصل اور امامت ہے۔ اس عید غدیر کا بانی عراقی شیعہ حاکم معزالدین احمد بن ابویہ دیلمی ہے۔ سب سے پہلے اس نے رافضیوں کے ساتھ 18 ذی الحجہ 352 ہجری کو بغداد میں عید غدیر منائی۔ 

حضرت مولانا شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ تحفہ اثناء عشریہ کے صفحہ نمبر 390 پر فرماتے ہیں کہ عید غدیر نکال بیٹھے ہیں، ذی الحجہ کی اٹھارویں تاریخ اس کو مناتے ہیں، عید الفطر و عید الاضحیٰ ہر دو پر اس کو فضیلت دیتے ہیں ، اس لیے عید اکبر اس کا نام رکھا ہے۔ یہ حکم بھی شریعت کے صریح مخالف ہے۔

الحاصل: عید غدیر اہلِ تشیع کا مذہبی شعار ہے اور کسی کافر قوم کے مذہبی شعار کو اپنانا یقیناً تشبہ کے درجہ میں آتا ہے جس کے بارے میں حضور اکرمﷺ نے فرمایا من تشبه بقوم فهو منهم جس نے کسی قوم سے مشابہت کی وہ انہیں میں سے ہے۔

الغرض: سوالات میں مندرج عبارات میں اکثر عبارات رفض زدہ ہیں، اور سخت ضلالت و کفر پر مشتمل ہیں۔ اور دو عبارات میں تاویل بعید کا احتمال ہے لیکن اس کے ظاہری پہلو پر نظر کرتے ہوئے اسے بھی کفر مانا جائے گا جیسا کہ ہم پیچھے لکھ آئے ہیں۔

لہٰذا مقرر موصوف پر لازم ہے کہ توبہ تجدیدِ ایمان تجدیدِ نکاح اور تجدیدِ بیعت کرے۔ اور جس طرح ان جملوں کو استعمال کیا ہے اسی طور پر توبہ بھی کرے۔ مطلب یہ کہ اگر اعلانیہ ان جملوں کا ارتکاب کیا ہے ظاہر ہے تقریر ہے تو اعلانیہ ہی کیا ہو گا تو اسی طرح اعلانیہ توبہ لازم ہے۔ حضور اکرمﷺ فرماتے ہیں کہ جب تو کوئی گناہ کرے تو فوراً توبہ کر، پوشیدہ کی پوشید اور ظاہر کی ظاہر۔

اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں کہ جس طرح اس مذہب خبیث کا اعلان کیا ہے ویسے ہی توبہ رجوع کا صاف اعلان کریں کی توبہ نہاں کی نہاں ہے اور عیاں کی عیاں۔

اس سب کے بعد اپنی عورتوں سے تجدیدِ نکاح کریں کہ کفر خلافی کا حکم یہی ہے۔ علامہ حسن شرن لالی شرح وہانیہ پھر علائی شرح تنویر میں فرماتے ہیں کہ جو بالاتفاق کفر ہو اس سے اعمال، نکاح باطل ہو جاتے ہیں، تمام اولاد، اولاد زنا قرار پا جاتی ہے اور جس میں اختلاف ہو وہاں استغفار، توبہ اور تجدیدِ نکاح کروایا جائے گا۔ اور جب تک زید توبہ تجدیدِ ایمان وغیرہ نہ کر لے تب تک لوگ اس سے مذہبی سماجی ہر طرح کا بائیکاٹ رکھیں۔ اسے کسی جلسہ میں مدعو نہ کریں اس کی تقریریں نہ سنیں۔ الله تعالیٰ جل شانہ فرماتے ہیں

وَاِمَّا يُنۡسِيَنَّكَ الشَّيۡطٰنُ فَلَا تَقۡعُدۡ بَعۡدَ الذِّكۡرٰى مَعَ الۡقَوۡمِ الظّٰلِمِيۡنَ ۞

(سورۃ الانعام: آیت نمبر 68)

علاؤہ ازیں خطیب موصوف کو مشورہ دیں کہ اہلِ تشیع کی کتابوں کا مطالعہ ہرگز ہرگز نہ کرے بلکہ اہلِ سنت کی تصانیف کا جلیلہ مطالعہ میں رکھے تا کہ خود بھی گمراہی سے محفوظ رہے اور عوام کو بھی محفوظ رکھ سکے۔ 

تنبيہ: مقرر موصوف کی تقریروں کے جو ویڈیو اور آڈیو مجھے بھیجے گئے ان میں سے جس قدر بھی سن سکا اس سے یہ اندازہ لگایا کی مقرر موصوف کی تقریریں رافضیت زدہ ہوتی ہیں۔ شیعی روایات کی اس قدر بھر مار ہے کہ کہیں کہیں یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ مقرر موصوف اہلِ سنت سے ہیں یا کسی غیر مذہب سے۔

موضوع و من گھڑت واقعات و روایات یا تنازعہ فیها مسائل مقرر موصوف کی تقریر کا اصل چربہ ہے۔ علماء وفقہاء کے اجماع و اتفاق سے ہٹ کر موصوف اختراعی باتیں بیان کرنے میں میری معلوم ہوئے۔ اور اس طرح کی تقریریں یقیناً مسلمانوں کے ایمان کیلئے خطرہ ہیں۔ اس لئے مسلمانان اہلِ سنت پر لازم ہے کہ اس طرح کی تقریریں نہ سنیں اور کسی کو سننے نہ دیں۔

 تصديق فتوى بقلم مفتی جامعه نعیمیه مراد آباد 

مفتی محمد سلیمان صاحب جامعه نعیمیه مراد آباد

زید سے متعلق جو سوالات کیے گئے اور ان کے تفصیلی تحقیقی جوابات حضرت مفتی محمد ذوالفقار نعیمی صاحب نے دیے، وہ قرآن وحدیث و اقوال فقہاء کی روشنی میں اتم ہیں، اور براہین و دلائل سے مملو و مزین ہیں۔ اہلِ حق پر لازم ہے کہ وہ عمل کریں اور زید پلید کو جب تک توبہ تجدیدِ ایمان و تجدیدِ نکاح و تجدیدِ بیعت نہ کرے اپنی محافل دینی و دنیاوی سے دور رکھیں، اور خود بھی دور رہیں۔ اور فرمان رسولﷺ پر عمل پیرا رہیں ایاکم واياهم لا يضلونكم ولا يفتنونکم کے مصداق بنیں، کہ اسی میں سعادت دارین ہے، اور الحب في الله والبغض في الله کو اپنائیں۔

(فتاویٰ اتراکھنڈ: جلد، 2 صفحہ، 52)