حضرت مولانا عبداللہ امرتسری صاحب کا فتویٰ شیعہ کے ساتھ مناکحت ،ان کا ذبیحہ، ان کے ساتھ میل جول رکھنا
حضرت مولانا عبداللہ امرتسری صاحب کا فتویٰ
سوال: رافضیہ (شیعہ) بلا تفضیلیہ کافر ہیں یا نہیں؟ نماز میں ان کو اقتدا اور ان سے سلام مصافحہ کرنا روا ہے یا نہیں؟ ان کی وراثت مسلم کو یا مسلم کی وراثت ان کو پہنچتی ہے یا نہیں؟ اور مسلم عورت کو ان کے ساتھ نکاح جائز ہے یا نہیں؟ اگر مسلمان عورت کا خاوند ان فرقوں میں داخل ہو جائے مذہب اہلِ سنت و الجماعت بدل لیوے تو نکاح ٹوٹ جاتا ہے یا نہیں؟ بلا طلاق وہ دوسری جگہ نکاح لے سکتی ہے یا نہیں؟
جواب: رافضیہ (شیعہ) میں سے غالی قطعاً کافر ہیں، جو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ وغیرہم کو مرتد کہتے ہیں اور زیدیہ کافر نہیں جن کا عقیدہ ہے کہ سیدنا ابوبکرؓ کی امامت خطا نہیں ہے مگر سیدنا علیؓ افضل ہے۔ اور سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے بارے میں ساکت ہیں نہ اچھا کہتے ہیں نہ برا، رہا ان لوگوں سے میل ملاپ تو یہ بالکل نا جائز ہے-
ابنِ کثیر جلد، دوم صفحہ، 210 میں مسند احمد وغیرہ سے یہ حدیث ذکر کی ہے کہ جب تم متشابہ آیتوں کے پیچھے جانے والوں کو دیکھو تو ان سے بچو-
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ان لوگوں سے ناطہ رشتہ وغیرہ کرنا یا ویسے میل ملاپ رکھنا یا نماز میں امام بنانا اس قسم کا تعلق کوئی بھی جائز نہیں بلکہ جو ان میں سے کافر ہیں اگر اتفاقی طور پر ان کے پیچھے نماز پڑھ لی جائے یا غلطی سے ان کے ساتھ نکاح کا تعلق ہو گیا تو نماز بھی صحیح نہیں اور نکاح بھی صحیح نہیں، نماز کا اعادہ کرنا چاہیے بلکہ اگر نکاح پڑھا ہوا ہو اور بعد میں ایسی بدعت کے مرتکب ہوئے جو حدِ کفر کو پہنچ گئی تو بھی نکاح خود بخود فسخ ہو جاتا ہے طلاق کی ضرورت نہیں-
اللہ تعالیٰ جل شانہ فرماتے ہیں:
وَ لَا تُنْكِحُوا الْمُشْرِكِیْنَ حَتّٰى یُؤْمِنُوْا۔ (سورة البقرہ: آیت، 221)
ترجمہ: اور اپنی عورتوں کا نکاح مشرک مردوں سے نہ کراؤ جب تک وہ ایمان نہ لے آئیں۔
وَلَا تُمۡسِكُوۡا بِعِصَمِ الۡكَوَافِرِ (سورۃ الممتحنہ: آیت، 10)
ترجمہ: اور تم کافر عورتوں کی عصمتیں اپنے قبضے میں باقی نہ رکھو۔
(آتش کدہ ایران اور شیعہ کی اصلیت: صفحہ، 87)