Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

کیا غیر مسلم اقلیتوں کو اپنے مذاہب باطلہ کی تبلیغ کی اجازت ہے؟


اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اسلامی ملک میں کسی بھی غیر مسلم ذمی رعیت اور اقلیت کو اپنے مذہب اور عقیدے کی پابندی کرنے کی تو اسلام اجازت دیتا ہے، مگر اس کی تبلیغ اور اشاعت کی اجازت ہرگز نہیں دیتا۔ 

امام ابوالحسن الماوردیؒ لکھتے ہیں کہ: ذمیوں پر تیسری شرط جس کی پابندی ان پر لازم ہے، یہ ہے کہ وہ اپنے ناقوس کی آوازیں مسلمانوں کو نہیں سنائیں گے، اور نہ بلند آواز سے اپنی کسی کتاب کی تلاوت کریں گے، اور نہ حضرت عزیرؑ اور حضرت عیسٰیؑ کے بارے میں اپنے عقیدے کا برملا اظہار کریں گے، اور چوتھی شرط لازم یہ ہے کہ وہ اعلانیہ طور پر نہ شراب پئیں گے، اور نہ بازاروں میں صلیب لٹکا کر نکلیں گے اور نہ بازاروں میں خنزیروں کو لے کر آئیں گے۔ اور پانچویں لازمی شرط یہ بھی ہے کہ وہ اپنے مُردوں کو چپکے سے دفن کریں گے اور اُن پر نہ تو آواز کے ساتھ واویلا کریں گے اور نہ نوحہ۔

امام محی الدین یحییٰ بن شرف النوویؒ لکھتے ہیں کہ: ذمیوں کو بازاروں میں شراب اور خنزیر کی خرید و فروخت کا حق نہ ہو گا، ناقوس بجانے تورات اور انجیل کی اعلانیہ تلاوت کرنے اور صلیب پہن کر بازاروں میں چلنے کا حق نہ ہو گا، نہ وہ اپنی عیدیں پڑھنے کے لئے کھلے میدان یا کسی گراؤنڈ میں جا سکیں گے اور نہ اپنے مُردوں پر بلند آواز سے نوحہ کر سکیں گے۔ 

امام ابن کثیرؒ تصریح فرماتے ہیں کہ: ہم اپنے گرجاؤں کے فلک بوس میناروں پر صلیب بلند نہیں کریں گے، ہم اپنی صلیبوں اور کتابوں کو مسلمانوں کے راستوں اور منڈیوں میں نہیں لائیں گے، یعنی ان کے سرِعام اسٹال نہیں لگائیں گے، ہم اپنے گرجوں کے اندر بھی اونچی آواز سے ناقوس نہ بجائیں گے، ہم اپنے گرجوں کے اندر بھی اونچی اواز سے اپنی قرأت نہ کریں گے، اپنے عیدیں (شعاعین اور بعوث) پڑھنے کے لئے کسی کھلے گراؤنڈ میں نہ نکلیں گے، ہم اپنے مُردوں پر بلند آواز سے نہیں روئیں گے اور نہ اپنے مُردوں کے ساتھ آگ لے کر چلیں گے، اپنے مردوں کو مسلمانوں کے قبرستان کے قریب دفن نہیں کریں گے۔ اگر ہم ان تمام شرطوں کو جن کو ہم نے اَز خود اپنے لئے تجویز کیا ہے، ان میں سے کسی ایک شرط کی خلاف ورزی کریں گے تو عہدِ ذمہ ختم ہو گا، اور مسلمانوں کو ہمارے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق حاصل ہو گا، جس طرح ان باغی کافروں کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ 

امام ابنِ قیمؒ فرماتے ہیں کہ: ذمیوں نے حسبِ ذیل شرطیں قبول کرتے ہوئے ان پر دستخط کئے کہ: ہم اپنے گرجوں میں بلند آواز سے ناقوس نہیں بجائیں گے، ان کے اُوپر اونچی کر کے صلیب کھڑی نہیں کریں گے، ہم اپنے گرجاؤں کے اندر بھی بلند آواز کے ساتھ دعا نہ مانگیں گے۔ نہ ان کے اندر اونچی آواز کے ساتھ اپنی کتاب پڑھیں گے۔ مسلمانوں کے بازاروں میں صلیب نہیں نکالیں گے، عید کے لیے کھلے میدان میں نہیں جائیں گے، جیسے مسلمان اپنی عید الاضحیٰ اور عید الفطر کے لئے کھلے میدان میں جاتے ہیں، کھلے عام شرک نہیں کریں گے، ہم اپنے دین کی کسی کو ترغیب نہیں دیں گے، اور نہ کسی کو اپنے دین کی دعوت دیں گے۔

ان تصریحات کا خلاصہ یہ ہے کہ ازروئے اسلام مسلم ممالک کے ذمیوں اور اقلیتوں کو اپنے باطل مذاہب کی تبلیغ و اشاعت کی ہرگز اجازت نہیں، نہ تقریر میں، نہ تحریر میں، اور نہ مناظروں کے ذریعہ سے اور نہ مناقشوں کے ساتھ، غرض یہ کہ وہ اپنے مذہب کی کسی طرح اور کسی بھی انداز میں تبلیغ نہیں کر سکتے۔ اگر کوئی مسلمان حکمران کسی وجہ سے اس کی اجازت دیتا ہے تو یہ اجازت کالعدم اور حکمران شرعاً مجرم ہو گا۔ کیونکہ اس میں اسلام کے حقانیت کو بٹہ لگتا ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ جل شانہ، رسول اللہﷺ اور کتاب اللّٰہ قرآن مجید کی تکذیب لازم آتی ہے، اسلام کی توہین اور سبکی ہوتی ہے۔ 

جب یہود و نصارٰی کو مسلم ملک میں اپنے مذہب کی تبلیغ و اشاعت، اپنے لٹریچر کو سرِعام بازار میں لانے، صلیب لٹکا کر چلنے، گرجا کے منارے پر صلیب گاڑنے اور گرجا کے اندر بلند آواز سے دعا کرنے اور انجیل پڑھنے کی اجازت اور اَزسرِ نو گرجا تعمیر کرنے یا گرے ہوئے گرجا کی مرمت کرنے کی اجازت نہیں، اور اُن کو اپنے تہوار کھلے گراؤنڈ میں منانے کی اجازت نہیں، حالانکہ وہ اہلِ کتاب ہیں، یعنی کسی وقت وہ سچے دین و مذہب پر رہ چکے ہیں پھر سلطنتِ خداداد پاکستان میں شیعوں کو جو مرتدین ہیں،شرعاً خارج از اسلام اور کافر ہیں۔ ان کو اپنے عبادت خانے تعمیر کرنے اور مساجد کے نام سے موسوم کرنے اور مساجد کے طرز پر اپنے ایمان بگاڑوں کو بنانے، اور سرِ عام اپنے ماتمی جلوسوں کو نکالنے کی اجازت کیوں کر دی سکتی ہے.....؟ ان کو پاکستان میں ایک کذاب اور مرتد خمینی ملعون کے باطل نظریات کی کھلے عام نشر و اشاعت اور تبلیغ و دعوت کی اجازت..... اسلام سے بغاوت اور رسول اللّٰہﷺ کی سراسر توہین ہے۔ نہ جانے پاکستان کے حکمرانوں اور مسلمانوں کی غیرت کہاں سو چکی ہے؟؟