پروفیسر ڈاکٹر زاہد علی مرحوم سے متعلق
سید تنظیم حسینمولانا ڈاکٹر غلام محمد صاحب مدظلہ خلیفہ حضرت مولانا سید سلمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ کا بیان:
ڈاکٹر زاہد علی اسماعیلی مذہب کی شاخ ظاہر کے ایک علمی مذہب خاندان سے تعلق رکھتے تھے جو سات پشت سے شہر حیدرآباد میں آباد تھا وہ 10 شوال 1305ء کو پیدا ہوئے پہلے اپنے فرقہ کے دارالعلوم میں تعلیم پائی پھر بی اے اور مولوی فاضل کی اسناد حاصل کی 1926ء میں اکسفورڈ یونیورسٹی سے عربی ادب میں بی اے کی ڈگری لی اور حیدرآباد کے نظام کالج میں عربی کے پروفیسر بنے اس دوران انہوں نے دیوان ابنِ ہانی کی شرح عربی زبان میں تبیئین المعافی فی شرح دیوان ابنِ ہانی کہ عنوان سے لکھی جس پر اکسفورڈ یونیورسٹی نے ڈی فل کی ڈگری دی
ڈاکٹر صاحب کی طبیعت میں تحقیق کو تلاش حق کا جذبہ و دیعت تھا انہوں نے اسماعیلی مذہب کا خوب گہرا مطالعہ کیا اس کے لیے ان کا ذاتی کتب خانہ خود بہت وسیع اور بنیادی کتب سے بھرپور تھا یہ راقم الحروف کی عینی شہادت کا اظہار ہے ڈاکٹر صاحب اپنے مذہب سے مطمئن نا رہ سکے اور انہوں نے بڑی جرأت و حکمت سے دو کتابوں میں اس کا کچا چٹھا استناد کے ساتھ پیش کر دیا پہلی کتاب "تاریخ فاطمییّن مصر" تھی اور دوسری ہمارے اسماعیلی مذہب کی حقیقت اور اس کا نظام ان تصانیف کا پیرایہ ایسا ہے کہ اس سے صرف یہ تاثر ابھرتا ہے کہ مصنف اسماعیلی مذہب کی تطہیر چاہتا ہے خود وہ اس سے بیزار نہیں مگر بات ایسی نہیں تھی اس ان پر حق کھل چکا تھا
ڈاکٹر صاحب نے علی وجل البصیرت آبائی مذہب ترک کر دیا اور برسوں سنی رہے پھر وصیت لکھ دی کہ وہ اہلِ سنت و الجماعت کے مسلک پر رختِ سفر باندھ رہے ہیں اور تجہیز و تکفین اسی مسلک کے مطابق کر کے انہیں مسجد الماس والے سنی قبرستان میں جہاں خود انہوں نے اپنی قبر کی جگہ محفوظ کر رکھی ہے دفن کیا جائے چنانچہ یہی کیا گیا اور وہ وہیں مدفون ہے ان کی تاریخ ہائے وفات یہ نکالی گئیں۔
یقال موت العالم موت العالم 1977ء
غریقِ رحمت 1958ء