اسمعیلیت کی ابتداء
سید تنظیم حسیناسماعیلیت جیسا کہ آگے چل کر معلوم ہوگا شیعہ کا ایک فرقہ ہے لہٰذا اسماعیلیت کی ابتداء کے ذکر سے پہلے شیعیت کا سمجھنا ضروری ہے۔
اسلام میں شیعیت کا آغاز:
1: اس کا پشتر حصہ ایرانی انقلاب: صفحہ، 104، 107 سے لیا گیا ہے۔
جیسا کہ سب کو معلوم ہے کہ عہدِ نبوی میں قریب قریب پورا جزیرة العرب اسلام کے زیرِ اقتدار آگیا تھا۔ عہدِ صدیقی اور خلافتِ فاروقی میں اسلامی دعوت اور عسکری فتوحات کا سلسہ تیزی سے جاری رہا یہی صورت قریب قریب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں بھی رہی اس مدت میں مختلف ملکوں، علاقوں، قوموں اور طبقوں کے بے شمار لوگ اپنے قدیم مذاہب و ادیان کو چھوڑ کر اسلام میں داخل ہوئے یہ عام طور سے وہی تھے جنہوں نے اسلام کو دینِ حق اور وسیلہ نجات سمجھ کر دل سے قبول کیا تھا لیکن ان میں کچھ ایسے بھی تھے جنہوں نے منافقانہ طور پر اسلام قبول کر کے اپنے آپ کو مسلمانوں میں شامل کیا تھا۔
اور ارادہ یہ تھا کہ جب بھی کوئی مناسب موقع ملے گا مسلمانوں کو نقصان پہنچائیں گے اس طبقہ میں سے ایک یہودی عالم عبداللہ ابنِ سبا تھا۔
1: کہا جاتا ہے کہ ابنِ سبا نے حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کو انت انت کہا تھا یعنی تم خدا سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے اسے مدینہ منورہ سے شہر بدر کر کے مدائن بھجوا دیا کیونکہ یہ یہودی تھا حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وصی یوشع بن نون کے متعلق یہی عقیدہ رکھتا تھا عبد اللہ بن سبا کے پیرو سبائیہ کہلائے سبائیہ کا ایک عقیدہ یہ بھی تھا کے امام عام طور پر غیبت اختیار کر سکتا ہے لیکن وہ ایک روز ظاہر ہوگا۔
(تاریخِ فاطمییّنِ مصر: حصہ، دوم صفحہ، 274)
بعد میں اس کے کردار سے یہ واضح ہوا کہ وہ اسی ناپاک ارادے سے اسلام لایا تھا اس نے سابقہ امتوں کی گمراہی سے یہ سبق سیکھا تھا کہ کسی مذہبی گروہ کو صراطِ مستقیم سے ہٹانے کا طریقہ یہ ہے کہ اس کی نظر میں مقدس و محبوب ترین شخصیت کے بارے میں غلو اور افراط کا رویہ اختیار کیا جائے اس نے پہلے تو نبی اکرمﷺ کا تقابل حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے کیا اور یہ خیال پیش کیا کہ حضورﷺ دوبارہ اس دنیا میں تشریف لائیں گے اس خیال کی جو قرآنی تعلیم کے بالکل خلاف تھا پذیرائی حجاز، شام اور عراق میں نہ ہو سکی تو وہ مصر چلا گیا مصر اس کام کے لئے موزوں نکلا حضور نبی کریمﷺ کے بعد اس نے حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی طرف توجہ دی اور ان سے رسالتِ مآبﷺ سے قریبی تعلق و قرابت کی بنیاد پر آپ کے ساتھ غیر معمولی عقیدت و محبت کا اظہار کرتے ہوئے ان کو ایک مافوق البشر ہستی باور کرانے کی کوشش کی اور تدریجی طور پر حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے بارے میں ایسے ہی خیالات رکھنے والے معتقدین کا حلقہ پیدا کر لیا اور پھر ایک مرحلہ پر ان کا یہ ذہن بنا دیا کہ رسول اللہﷺ کے بعد خلافت و امامت و حکومت کی سربراہی دراصل سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا حق تھا کیوں کہ ہر نبی کا ایک وصی ہوا اور وصی ہی نبی کے بعد اس کی امت کا سر براہ ہوتا ہے رسول اللہﷺ کے وصی حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ تھے مگر ان کو ان کا حق نہ مل سکا یہ صورتِ حال اس وقت شروع ہوئی جب حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کے نظم و نسق کے متعلق شکایات ہو رہی تھیں اس طرح ابنِ سبا کی سازش کے لئے یہ وقت سازگار تھا آگے چل کر اس گروہ کی ریشہ دوانیوں سے جو کچھ ہوا وہ تاریخ کا ایک تکلیف دہ باب ہے بہر حال سیدنا عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کی خلافت سے متعلق اختلافات ختم نہ ہو سکے خود ان کی مظلومانہ شہادت ہوئی جنگِ جمل اور جنگِ صفین ہوئیں ہزاروں افراد کام آئے پھر حضرت علیؓ بھی شہید ہوئے یہاں تک کہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے خلافت سے دستبردار ہونے کے بعد حالات میں کسی قدر ٹھراؤ پیدا ہوا اس دور میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حقوق سے متعلق جو دعوت و تحریک خفیہ طریقوں سے چلائی جا رہی تھی اس کے داعی جس سے جو بات اور جتنی بات کہنا مناسب سمجھتے وہی کہتے اور اتنا ہی کہتے اگر وہ قبول کر لیتا تو بس وہی اس کا عقیدہ بن جاتا اس سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اس تحریک کی ابتداء میں بغضِ معاویہ رضی اللہ عنہ کو بھی دخل تھا ان میں سے ایسے بھی تھے جو سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کو رسول اللہﷺ کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے نامزد امام اور وصی رسول مانتے تھے اور حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد ان کی اولاد کو خلافت اور امامت کا حقدار سمجھتے تھے۔ کیونکہ ان کو یہ باور کرایا گیا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے انبیاء علیہم السلام کی طرح رسول اللہﷺ کی وفات کے بعد امامت کا سلسلہ قائم فرما دیا ہے تاکہ بندوں کی ہدایت و رہنمائی اور سربراہی کیلئے ان پر حجت قائم ہو سکے لیکن اس وقت تک یہ نظریہ امامت کچھ لوگوں کے ذہنوں میں پرورش پا رہا تھا کوئی ایک بات کہتا کوئی دوسری اس نظریہ امامت کا جو بعد میں کیسانیہ، ہاشمیہ یا زیدیہ امامیہ اثنا عشری یا امامیہ اسماعیلیہ نے تشکیل دیا مطابقاً کہیں وجود نہ تھا اس پس منظر میں حضرت امیرِ معاویہؓ نے اپنے بیٹے کو اپنی جانشینی کیلئے آگے بڑھایا ہو سکتا ہے ان کو اسکی ترغیب نسبی بنیاد پر حقِ خلافت، امارت، امامت کے دعویٰ سے ہوئی ہو اس کی ابتداء حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی زندگی کے آخری ایام میں ہوئی یہ سلسلہ قریب دس سال جاری رہا اس مدت میں نام نہاد محبانِ اہلِ بیت کو زرین موقع ملا اور انہوں نے بنی ہاشم میں اقتدار سے محرومی کا احساس پیدا کر دیا جیسا کے بعد کے حالات و واقعات سے ظاہر ہوتا ہے۔
(1: بنی ہاشم میں افراد کی تعداد کافی ہے جنہوں نے اموی عباسی دورِ خلافت میں امامت کا دعویٰ کیا اور لوگوں نے اس کو تسلیم بھی کیا خروج کرنے والوں میں قریب قریب گیارہ حسنی اور سات حسینی ہیں)
61 ه 680ء میں واقعہ کربلا پیش آیا اس واقعہ نے سازشیوں کو اپنی تحریک پُر اثر بنانے کیلئے ایک اور بنیاد فراہم کی مگر ہم دیکھتے ہیں کہ کربلا کے میدان میں تو حضرت علی المرتضیٰؓ کی فاطمی اور غیر فاطمی اولاد سب شریک تھیں لیکن اس کے بعد ان میں ہی نہیں بلکہ حسنی و حسینی سادات میں بھی اتفاق نہ رہا۔
شیعی مؤرخ سید امیر علی لکھتے ہیں:
یہ توقع کی جاسکتی تھی کہ ظلم و ستم شیعوں کو متحد رکھ سکے گا لیکن گو سب اس امر پر متفق تھے کہ خلافت، امارت اہلِ بیتؓ کا حق ہے ان میں سے بہت سے خاندان کے مسلمہ سربراہوں ائمہ اہل بیتؓ سے علیحدہ ہو گئے اور اپنے آپ کو خاندان کے دوسرے افراد سے وابستہ کر لیا یعنی دیگر افراد کو امام تسلیم کر لیا۔
(2: صفحہ، 360 The Spirti Of Islam)
سید امیر علی کی ان چار سطور میں ڈھائی سو سال کے واقعات پوشیدہ ہیں بہر حال چند اہم اختلافات کا ذکر کیا جاتا ہے کیوں کہ اسماعیلیت کی ابتداء سمجھنے کے لئے ان سے واقفیت اشد ضروری ہے۔
پہلا اختلاف:
حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد اہلِ بیتؓ کے عقیدت مندوں کے ایک گروہ نے سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے بیٹے حضرت علی السجاد زین العابدین رحمۃ اللہ علیہ کو امام تسلیم کیا جب کہ ایک گروہ نے سیدنا علی المرتضیٰؓ کی ایک اور زوجہ محترمہ کے بیٹے محمد بن الحنفیہ رحمۃ اللہ علیہ کو امام تسلیم کر لیا ان کا خیال یہ تھا کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے بعد امامت حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اس وقت موجود سب سے بڑے بیٹے محمد بن الحنفیہ کا حق ہے۔
(1: ظاہر ہے کہ یہ گروہ امامت کو صرف بنی فاطمہ کا ہی حق نہیں سمجھتا تھا سیدنا محمد بن حنفیہ کا انتقال 95ھ میں ہوا)
یہ لوگ کیسانیہ، ہاشمیہ کہلائے آگے چل کر اس سلسلہ کی بیعت حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے پڑپوتے محمد بن علی بن عبد اللہ بن عباس رحمۃ اللہ علیہ کو 98، 99ھ 718ء میں منتقل ہو گئی جس کے نتیجہ میں 132ھ 750ء میں عباسی خلافت وجود میں آئی۔
دوسر اختلاف:
جس گروہ نے حضرت علی السجاد زین العابدین رحمۃ اللہ علیہ بن حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو امام تسلیم کیا تھا ان میں تھوڑے ہی عرصہ بعد حضرت علی السجاد زین العابدین رحمۃ اللہ علیہ کی جانشینی کے سلسلہ میں اختلاف ہوا اس گروہ کے ایک ٹکڑے نے سیدنا محمد باقرؒ پانچویں امام کی جگہ ان کے بھائی سیدنا زید شہید رحمۃ اللہ کو پانچواں امام تسلیم کر لیا۔ یہ وہ حضرات تھے جو اگر ضرورت ہو تو بزورِ شمشیر اپنا حق تسلیم کرانے کو جائز سمجھتے تھے ان میں حسنی سادات پیش پیش تھے جب کہ سیدنا زین العابدینؒ اور ان کے بیٹے سیدنا باقرؒ نے خاموشی کا راستہ اپنا لیا تھا سیدنا زید شہید رحمۃ اللہ اموی فوجوں کے مقابلہ میں شہید ہوئے۔
(1: اموی فوجوں سے مقابلہ میں سیدنا زید شہید کو حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی طرح چھوڑنے والے ان کے الفاظ کے مطابق روافض کہلائے اور بیشتر مؤرخین نے شیعوں کو روافض لکھا ہے اور شیعوں میں اسماعیلیوں کو ان کی باطنی تعلیم کی وجہ سے روافضِ باطنیہ کہا گیا ہے)
ان کے متبعین زیدیہ کہلائے زیدیہ
(2: تاریخِ تفسیر و مفسرین: صفحہ، 485 The Spirti Of Islam صفحہ 321)
نوٹ: زیدیہ نظریہ امامت بہت اہم و معنیٰ خیز ہے اس پر ایک الگ باب میں گفتگو کی گئی ہے۔
کے نظریہ امامت سے متعلق چند نکات قابل ذکر ہیں:
1: امتِ مسلمہ کو بنی فاطمہ میں سے خود اپنا قائد مقرر کرنے کا اختیار ہے۔
2: افضل کے ہوتے ہوئے مفضول کی امامت جائز ہے۔
3: امام ایسا شخص ہونا چاہیئے جو اپنا حق حاصل کرنے کی استعداد رکھتا ہو۔
زیدیہ عصمتِ ائمہ کا عقیدہ نہیں رکھتے اسی کے تحت وہ حضرتِ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ و حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی خلافت کو جائز قرار دیتے ہیں اور ان سے اظہار برأت نہیں کرتے انکا ایک فرقہ جارودیہ ملتِ کے سربراہ کے تقرر کیلئے انتخاب کو درست قرار دیتا ہے۔
تیسرا اختلاف:
اس گروہ میں جس نے سیدنا زین العابدینؒ کے بعد سیدنا محمد باقرؒ کو اور ان کے بعد سیدنا جعفر صادقؒ کو چھٹا امام تسلیم کیا تھا دوسرا اختلاف سیدنا جعفرؒ کے جانشین کے سلسلہ میں ہوا سیدنا جعفر صادقؒ نے ابتداء میں اپنے بیٹے سیدنا اسماعیل رحمۃ اللہ علیہ کو اپنا جانشین یعنی ساتواں امام نامزد کیا تھا یا شیعی اصطلاح میں سیدنا اسماعیل رحمۃ اللہ علیہ پر نص کی تھی لیکن سیدنا اسماعیلؒ 133ھ میں سیدنا جعفر صادقؒ کی زندگی ہی میں انتقال کر گئے۔
(1: حضرت اسماعیل بن جعفر صادقؒ کے متعلق متعدد اور دلچسپ روایات ہیں)
سیدنا جعفر صادقؒ نے سیدنا اسماعیلؒ کے انتقال کے بعد اپنے تیسرے بیٹے سیدنا موسیٰ الکاظمؒ کو اپنا جانشین امام نامزد کیا سیدنا جعفر الصادقؒ کے متبعین اس موقع پر دو حصوں میں بٹ گئے ایک گروہ کا یہ خیال تھا کہ ایک مرتبہ کی ہوئی نص واپس نہیں ہوتی لہٰذا اگر سیدنا اسماعیلؒ کا انتقال ہو گیا ہے تو چونکہ نص باپ سے بیٹے پر منتقل ہوتی ہے ساتواں سیدنا اسماعیلؒ کے بیٹے سیدنا محمدؒ کو ہونا چاہیئے اس دلیل کے بعد انہوں نے سیدنا اسماعیلؒ کے نو عمر بیٹے سیدنا محمدؒ کو امام تسلیم کر لیا اس طرح سیدنا اسماعیلؒ پر کی ہوئی نص برقرار رہی اور یہ لوگ سیدنا اسماعیلؒ بن سیدنا جعفر الصادقؒ کی نسبت سے اسماعیلی:
(1: اسماعیلیہ کے اور بھی نام ہیں۔
نوٹ: امامیہ اثناء عشریہ نے نص کی تبدیلی کا جواز اپنے عقیدہ بداء کے تحت پیش کیا ہے بداء کا عقیدہ یہ ہے کہ (نعوذ باللہ) اللہ تعالیٰ موقع و محل کے اعتبار سے اپنا ارادہ تبدیل کر دیتا ہے)
کہلائے اور آئندہ امامت کا سلسلہ سیدنا محمد بن اسماعیلؒ کی اولاد میں جاری ہوا جو حکومت کے حصول کے بعد امام محمد بن اسماعیلؒ کے خلفاء کہلائے اور عباسی خلفاء کے مقابل ان کو فاطمی خلفاء کہا گیا۔
اس موقع پر یہ وضاحت ضروری ہے کہ جن لوگوں نے سیدنا موسی الکاظمؒ کو ساتواں امام تسلیم کیا وہ "موسویہ" کہلائے اور 260ھ 873ء میں بارہویں امام محمد المہدی کی غیبت کے بعد اثناء عشری (Twelvers) کہلائے اور ان کےمقابل اسما عیلی سبعیہ (Seveners ) کہلائے۔
(1: سبعیہ کہلانے کی اور بھی وجوہات ہیں ایرانی انقلاب: صفحہ، 28)
نوٹ: ان روایات کے جن میں نبی کریمﷺ یا حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے بارہ اماموں کے نام معہ تفصیلات زندگی نقل کئے گئے ہیں بعد میں وضع شدہ ہونے کے لیے اس غیر یقینی کیفیت سے بہتر ثبوت کی ضرورت ہی نہیں رہتی جو امامیہ میں مسلسل تفریق در تفریق منتج ہوئی کیونکہ اس کیفیت میں نہ تو راہ عمل کا تعین ہو سکا اور نہ یہ کہ کسی کی پیروی کی جائے
(شیعانِ ہند جوہن نارمن ہوسٹر: صفحہ، 80)
اس باب کی تکمیل سے قبل یہ ضروری ہے کہ امامیہ اثنا عشری عقیدہ امامت بھی اجمالی طور پر بیان کر دیا جائے تاکہ ناظرین کے سامنے پورا منظر ہو۔
عقیدہ امامت اثناء عشری کا اجمالی بیان:
1: حضرت نبی کریم ﷺ کے بعد ان کے جانشین و خلیفہ امام بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے انبیاء و مرسلین جن کا انتخاب امت یا قوم نہیں کرتی کی طرح مقرر اور نامزد ہوتے ہیں۔
2: وہ نبی ہی کی طرح معصوم ہوتے ہیں۔
3: دنیا کبھی امام سے خالی نہیں ہوتی خواہ وہ ظاہر ہو یا غائب۔
4: انبیاء و مرسلین ہی کی طرح ان کی اطاعت امت پر فرض ہوتی ہے۔
5: ان کا درجہ رسول اللہﷺ کے برابر اور دوسرے سب نبیوں سے بالا تر ہوتا ہے۔
6: وہی امت کے دینی و دنیوی سربراہ اور حاکم ہوتے ہیں۔
7: امت پر بلکہ ساری دنیا پر حکومت کرنا ان کا اور صرف ان کا حق ہے۔
8: ان کے علاوہ جو بھی حکومت کرے وہ غاصب و ظالم اور طاغوت ہے۔
9: امامت بغیر نص کے قائم نہیں ہوتی۔
10: امام وقت کا جاننا واجب ہے۔
11: امام حرام کو حلال اور حلال کو حرام قرار دے سکتا ہے۔
اسماعیلیہ کا عقیدہ امامت:
جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے امامیہ اثنا عشری اور امامیہ، اسماعیلیہ میں شخصیتوں کی بنیاد پر اختلاف ہوا اس وجہ سے ان دونوں کے یہاں سیدنا جعفر صادقؒ کے بعد امامت کے سلسلے مختلف ہو گئے لیکن عقیدہ امامت میں گو کوئی بنیادی فرق نہیں ہوا مگر اس کو علمِ حقیقت عالمِ روحانی و عالِم جسمانی کی ابتداء و انتہاء کے ساتھ ایسا وابستہ کر دیا کہ اسماعیلیہ کا امام اثنا عشریوں کے امام سے بلند ہو کر الوہیت کے درجہ پر پہنچ گیا جیسا کہ "باب اسماعیلی عقائد" میں بیان کیا جائے گا۔
اسماعیلیہ کے مختلف نام:
اسماعیلی: اسماعیل بن جعفر الصادقؒ کو امام تسلیم کرنے کی وجہ سے اسماعیلی کہلائے۔
باطنیہ: اسماعیلیہ نے آگے چل کر قرآنِ پاک کے مطالب و معانی کے متعلق یہ عقیدہ پیش کیا کہ آیاتِ قرآنی کے ایک معنیٰ ظاہری ہیں اور ایک باطنی باطنی معنیٰ کا علم صرف امام کو ہوتا ہے اس وجہ سے اسماعیلیہ کو باطنیہ کہا گیا دوسرے یہ لوگ خفیہ طریقے سے گھروں میں چھپ چھپ کر دعوت دیتے تھے اس لئے بھی باطنی کہلائے۔
سبعیہ: سات کو ماننے والے اسماعیلیوں کے یہاں سات کا عدد خصوصی اہمیت رکھتا ہے جیسا کہ آگے چل کر اسماعیلی عقائد کے باب میں بیان کیا گیا ہے اس کے علاوہ ان میں سے ایک گروہ کے عقائد کی رو سے سیدنا اسماعیل رحمۃ اللہ یا ان کے بیٹے محمد المکتوم ساتویں امام ہیں لہٰذا یہ لوگ سبعیہ یعنی (seveners) کہلائے اور ان کے مقابل اثناء عشری (twelvers) کہلائے سبعیہ کہلائے جانے کی اور بھی وجوہات بتلائی گئی ہیں۔
محمره: بابک خرّمی (بابک خرّمی نے تیسری صدی ہجری کی ابتداء میں بغاوت کی) کی بغاوت کے دور میں یہ لوگ سرخ لباس (ان میں مزد کی یعنی اشتراکی فکر کا بھی غلبہ تھا ہوسکتا ہے موجودہ دور میں اشتراکیوں کا سرخ لباس "محمرہ " سے مستعار ہو بہرحال فی زمانہ اشتراکیوں کا طریقہ کار بھی اسماعیلیوں کے نظامِ دعوت سے ملتا جلتا ہے)
پہنتے تھے اس لئے محمرہ کہلائے بابک خرّمی نے تیسری صدی ہجری کی ابتداء میں بغاوت کی تھی۔
تعلیمیہ: مخلوق کو امام معصوم کی تعلیم کی طرف بلانے کی وجہ سے ان کو " تعلیمیہ" کہا گیا۔
میمونیہ: حمدان قرمط کے بھائی میمون نے فارس میں اسماعیلی دعوت دی لہٰذا قرامطہ کو فارس میں میمونیہ بھی کہا گیا۔
بعض مؤرخین نے اسماعیلیہ کا ذکر "روافضِ باطنیہ" کے عنوان سے کیا ہے بعض نے ملاحدہ کے تحت کیا ہے تاریخوں میں اور بھی کئی نام آتے ہیں۔
اسماعیلیہ اقتدار کے مختلف ادوار:
اسماعیلیوں میں مزید فرقوں میں تقسیم اور عقائد میں رد و بدل سمجھنے کے لئے اسماعیلیوں کے دنیاوی اقتدار کے مختلف ادوار پیش کئے جاتے ہیں:
1: مغربی افریقہ مصر شام و مجاز 297ھ 567ء 909ء 1172ء اس دور کو فاطمی دورِ خلافت کہا جاتا ہے اسماعیلیوں نے سیاسی اقتدار کے حصول کے بعد اپنے امام کو خلیفہ بھی کیا اور عباسی خلفاء کے بالمقابل فاطمی خلفاء کہلوایا کیوں کہ ان کا دعویٰ تھا کہ وہ صحیح النسب فاطمی ہیں انہوں نے اپنے القاب بھی عباسیوں کے طرز پر رکھے۔
2: شمالی ایران اور ملحقہ علاقہ 483ھ 654ھ 1090ھ 1256ءـ
3: محدود علاقوں میں مختصر مدتوں تک بالخصوص یمن میں ، عراقی پہاڑیوں اور
شام کے ساحلی علاقوں میں۔
4 - 450ھ 1058ء میں بغداد پر ایک سال تک اسماعیلی فاطمی قبضہ رہا۔
فاطمی امام خلیفہ:
1: ابو محمد عبد اللہ المہدی بااللہ 297ھ 909ء
2: ابو القاسم محمد القائم بامر اللہ 322ھ 934ء
3: ابو طاہر اسماعیل المنصور بااللہ 334ھ 945ء
4: او تمیم معد المعز لدين اللہ 341ھ 952ء
5: ابو منصور نزار العزيز بااللہ 365ھ 975ء
6: ابو علی الحسین الحاكم بامر اللہ 386ھ 996ء
7: ابو معد علی الظاہر لا عزاز دین اللہ 411ھ 1020ء
8 ابو تمیم معد المستنصر اللہ 427ھ 1035ء
9: ابو القاسم احمد المستعلی باللہ 487ھ 1095ء
10: ابو علی منصور الآمر باحکام اللہ 495ھ 1102ء 524ھ 1130ء
امام طیّب کے نائبین
ابو الميمون عبد المجيد الحافظ لدین اللہ 524ھ 1130ء
ابو منصور اسماعیل الظافر لا عداء اللہ 544ھ 1149ء
ابو القاسم عیسی الفائز بامر اللہ 549ھ 1154ء
ابو محمد عبد الله العاضد لدین اللہ 555ھ 1160ء 567ھ 1172ء
نوٹ: فاطمیوں کو عبید اللہ المہدی کی نسبت سے "مہدویہ" بھی کہا گیا۔
عباسیوں کے سیاہ لباس کے مقابل سفید لباس اختیار کرنے کی وجہ سے مبیضہ بھی کیا گیا۔