اسماعیلی عقائد میں ایرانی اثرات
سید تنظیم حسینڈاکٹر زاہد علی تسلیم کرتے ہیں خود عبداللہ بن میمون القداح جس کو اسماعیلی نظامِ دعوت کا مرتب کہا جاتا ہے کرج ایران کا باشندہ تھا اس کے عبید اللہ المہدی ظہور کے زمانہ میں جو بڑے بڑے داعی گزرے ہیں ان میں اکثر ایرانی تھے ان میں مشہور احمد الدین الکرمانی المؤید الشیرازی ابو یعقوب السجستانی ابو حاتم الرازی احمد بن ابراہیم النیشاہ پوری ہیں۔
(تاریخِ فاطمییّنِ مصر: حصہ، دوم صفحہ، 86)
ڈاکٹر زاہد علی ایک دوسری جگہ لکھتے ہیں: یہ بھی کہا جاتا ہے کہ عبید اللہ مہدی اور اس کے بعد کے چند اماموں نے اسماعیلیت کو فروغ دینے کی کوشش تو بہت کی لیکن اس میں ناکام ہونے کے باعث دوبارہ اس کی طرف زیادہ توجہ نہیں کی صرف سیاسی قوت پر قانع رہے حلول، تناسخ، آسمانی حق، موروثی حکومت وغیرہ کے سے عقیدوں کو ایران میں جیسی مقبولیت ہوئی ویسے مغرب، مصر اور بلادِ عرب میں نہ ہو سکی یہی وجہ ہے کہ شیعی فرقوں کے اکثر بانی ایرانی ہوئے اسماعیلیوں میں چند داعیوں کے سوا اکثر بڑے بڑے داعی ایرانی تھے۔
(تاریخِ فاطمییّنِ مصر: حصہ، دوم صفحہ، 301)
مغربی مستشرقین میں ڈی ساسی، برؤن جیسے معروف محققین کے علاوہ اور بھی بہت سوں نے اسماعیلی مذہب میں شدید ایرانی اثرات کا ذکر کیا ہے وانی کیوٹکس ان سب کا ذکر کرتے ہوئے ایک اور پتے کی بات لکھتا ہے:
It world be safer to adopt the view that a feeling of revenge urged the Persian people tu join and support the ismailia movement in the hope of political success۔
(The fatmid theory of state)۔P15
ایک محتاط رائے یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ایرانیوں نے سیاسی کامیابی کے لیے انتقامی جذبات کے تحت اسماعیلی تحریک میں شمولیت اختیار کی۔
(The Fatimid Theory of State: 15 ،صفحہ)
اسماعیلیہ کی خصوصیات:
اب ہم اسماعیلیت سے متعلق محققین کے افکار و آراء کا نچوڑ پیش کرتے ہیں۔
1: امامیہ کی ایک شاخ کی حیثیت سے اسماعیلیت دوسرے صدی کے وسط میں نمودار ہوئی اس میں ابتداء ہی سے غیر اسلامی فلسفوں کی آمیزش شروع ہو گئی نتیجہ یہ ہوا کہ فلسفہ نے مذہب پر غالب آ کر تشریعی حیثیت اختیار کر لی۔
2: اسماعیلی مذہب میں قرآنی تعلیمات کو جملہ قدم قبل از اسلام فلسفوں کو متحد کرنے کی کوشش کا مقصد ان تمام عناصر کو مطمئن کرنا تھا جو اسلام تو لے آئے تھے مگر ان کے دل و دماغ پر سابق ادیان کا فلسفہ غالب تھا اور وہ اس کے اثرات و نشانات فکری و عملی طور پر اسلامی تعلیمات کی شکل میں دیکھنے کے خواہش مند تھے یوں کہا جا سکتا ہے کہ اسلام کو نامکمل سمجھ کر ایک عالمگیر مذہب کی تشکیل مقصود تھی۔
3: فلسفہ کے غلبہ سے اسماعیلی مذہب کے خواص کے لیے مخصوص ہو کر رہ گیا اور ان میں بھی ان کے لیے جو فلسفیانہ مزاج رکھتے ہوں عوام سے اس کا کوئی تعلق نہ رہا۔
4: اسماعیلی مذہب کی دعوت کے خصوصی نظام سے مقصد وفاداروں اور عقیدت مندوں کی ایک ایسی جماعت تیار کرنا تھا جو آزادی فکر و عمل کو قرباں کر کے عقیدہ ولایت کے تحت کٹھن سے کٹھن منزل طے کرنے کو تیار ہو۔
5: علمِ باطن کو اخفاء سے اتنا پراسرار بنا دیا گیا کہ متبعین کی خود سوچنے کی قوتیں مفلوج ہو کر رہ گئیں۔
6: اخفاء اور رازداری بلکہ تقیہ اور کتمان کے اصولِ دین ہونے سے یہ صورت ہو گئی کہ خود اپنے بھی اپنوں سے انکشافِ حقیقت کرنے سے معذور ہو گئے اور بعض ایسے مسائل کھڑے ہو گئے جو ہزار سال گزرنے کے بعد بھی لانیحل ہیں یہی نہیں کوئی بھی شخص قابلِ اعتبار نہ رہا۔
7: امام کو ایسے مرکزی حیثیت دی گئی کہ ہر چیز امام کے گرد گھومتی نظر آتی ہے حتیٰ کہ باری تعالیٰ کے ہستی بھی پسِ منظر میں چلی گئی۔
8: ائمہ میں امام محمد المکتوم بن اسماعیل کو وہ مرتبہ دیا گیا کہ انبیاء بھی پیچھے رہ گئے۔
9: دوسری اہم ترین چیز سات کا عدد ہے جو ہر فکر میں کار فرما نظر آتا ہے۔
اسماعیلیہ کے بنیادی عقائد:
اسماعیلیہ کے عقائد کی تعداد سو بتلائی جاتی ہے ان میں بہت سوں کا علم تو ان کے خصوصی علوم اور نظامِ دعوت سے ہو گیا ہوگا اب ہم صرف ان عقائد کا ذکر کرتے ہیں جن کا تعلق اللہ تبارک و تعالیٰ، نبی کریمﷺ اور قرآنِ پاک سے ہے تاکہ ان تینوں سے متعلق جو کیفیت ابھرتی ہے وہ واضح ہو جائے۔
توحید: اللہ تعالیٰ ایک ہے مگر وہ کسی صفت سے موصوف یا کسی نعت سے منعوت نہیں کیا جا سکتا اللہ تعالیٰ کی ذات پر لفظ واحد (قرآنِ پاک میں لفظ واحد بار بار آیا ہے اور اسی طرح احد بھی) کا اطلاق کرنا بھی درست نہیں تمام صفات حقیقت میں اس مبدع اوّل پر واقع ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے پیدا کیا جس کا دوسرا نام عقلِ اول یا امر یا کلمہ (ڈاکٹر زاہد علی نے اس متعلق حسب ذیل صراحت کی ہے:
The Logos Of Alexandrian Philosophers The External World Calld Sphota Which is The True Cause of the World Is In Fact Brahmin.
مفہوم: اس کی مطابقت یونانی فلسفوں کے لوگوں سے ہوتی ہے جو دراصل ہندی فلسفہ سے مستعار ہے تاریخِ فاطمییّنِ مصر: حصہ، دوم صفحہ، 252) ہے عالمِ جسمانی میں یہ صفات امام پر صادق آتی ہیں کیونکہ وہ عقل کے مقابل قائم ہے اللہ تعالیٰ کو ہست بھی نہیں کیا جا سکتا۔
رسالت: انبیاء و مرسلین کو اولاً مستقر امام کا نائب یا مستودع کہا گیا ہے اس کے بعد اس نبی کو ناطق بتلایا ہے جو خدا کی طرف سے شریعت لاتا ہے اس حیثیت سے اس کا فرض صرف شریعت کے ظاہر کا اظہار ہے جبکہ باطن کی ذمہ داری صامت کی ہے اور باطن ہی مقصود اصلی ہے آگے چل کر کہا گیا ہے کہ ایک ناطق اپنے سابق کی شریعت کو منسوخ کرتا چلا آیا ہے اور یہ سلسلہ امام محمد بن اسماعیل بن جعفر صادقؒ تک پہنچا جو ساتویں ناطق اور ساتویں رسول ہیں جنہوں نے رسول اللہﷺ کی شریعت کے ظاہر کو معطل کیا اور باطن کو کشف کیا عالم الطبائع کو ختم کیا یہی یومِ آخر میں قائم القیامہ ہے۔
قرآن پاک: نبی یا رسول کا کام یہ ہے کہ وہ جو بات اس کے دل میں آتی ہے اور بہتر معلوم ہوتی ہے وہ لوگوں کو بتا دیتا ہے اور اس کا نام کلامِ الہٰی رکھتا ہے تاکہ لوگوں کو یہ قول اثر کر جائے اور اسے مان لیں تاکہ سیاست اور مصلحت عام میں انتظام رہے یہ تو رہی ایک عمومی (general) بات قرآنِ پاک کے متعلق خصوصی بات ہے کہ نبی کریمﷺ نے اس کا ظاہر بیان کیا جب کہ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے بہ حیثیت صامت کے اس کا باطن بیان کیا باطن کے متعلق یہ بتلایا جا چکا ہے کہ وہ مقصودِ اصلی ہے۔
اسماعیلیہ کے ان بنیادی عقائد کے بیان کے بعد مزید عقائد سے متعلق بیان غیر ضروری ہو جاتا ہے کیونکہ:
خشت اول چوں نہد معمار کج
تاثریا می رود دیوار کج
ہم نے اس باب میں طوالت کہ احساس کے باوجود اسماعیلیوں کے بنیادی عقائد کو ان کے علوم کی روشنی میں بیان کرنا ضروری سمجھا کیونکہ ہم ناظرین کو ذرا سی بھی تاریکی میں نہیں رکھنا چاہتے اب اسماعیلیوں کی فکر و نظر اس قدر صاف ہو کر سامنے آگئی ہے کہ ان کے عقائد کی روشنی میں اسلامی تعلیمات کی ا، ب، ت جاننے والا بھی خود ان کے اعتقادات کے متعلق راۓ قائم کر سکتا ہے۔
(ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی)
لہٰذا: ایک اسماعیلی سابق ہی سہی (ڈاکٹر زاہد علی جو اولاً اسماعیلی تھے) کی رائے پیش کی جاتی ہے۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا اسلام کے سدا بہار درخت پر ایرانی، نصرانی، یونانی اور ہندی درختوں کی بے جوڑ قلمیں لگائی گئی ہیں اصل اور قلم کا امتیاز ایسا ظاہر اور نمایاں ہے کے سرسری نظر سے بھی نہیں چھپ سکتا فروعات میں اختلاف ہوتا تو خیر کوئی بات نہ تھی لیکن افسوس ہے کہ اصول ہی کچھ ایسے ایجاد کیے جو اسلام کے اصول سے الگ ہو گئے۔
(مقدمہ ہمارے اسماعیلی مذہب کی حقیقت اور اس کا نظام)