Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

ماتھے پر تلک لگانے والے سے میل جول، سلام کلام، اسے مسلمانوں کی طرح غسل دینے، بطریق مسنون کفن دینے، اس کی نمازِ جنازہ پڑھنے، اسے مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کرنے، اور کفار و مشرکین سے تعلقات و رشتہ داری، اُن سے میل جول اور محبت رکھنے کا حکم


ماتھے پر تلک لگانے والے سے میل جول، سلام کلام، اسے مسلمانوں کی طرح غسل دینے، بطریق مسنون کفن دینے، اس کی نمازِ جنازہ پڑھنے، اسے مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کرنے، اور کفار و مشرکین سے تعلقات و رشتہ داری، اُن سے میل جول اور محبت رکھنے کا حکم

سوال: زید کی بیٹی کی شادی ہوئی غیر مسلم نے بھات وغیرہ دیا۔ اس میں غیر مسلم نے کچھ ہندوؤں والی رسم کی جیسے آڑتی وغیرہ اور زید کے ماتھے پر تلک لگا دیا، زید کی مرضی نہیں تھی تلک وغیرہ لگانے کی۔ اس میں قرآن و حدیث کا کیا حکم ہے؟

جواب: تلک ہنود کا مذہبی شعار ہے۔ تلک لگانا یا لگوانا دونوں حرام بلکہ اکراہ وغیرہ کی صورت نہ ہونے کی صورت میں کفر ہے، اس میں کفار سے مشابہت ہے۔ اور تشبہ اگر ان کے مذہبی شعار میں کوئی کرے تو عند الشرع وہ بھی انہیں میں سے ہے۔

رسول اللہﷺ فرماتے ہیں

من تشبه بقوم فهو منهم

جو کسی قوم سے مشابہت پیدا کرے وہ انہیں میں سے ہے۔

اعلیٰ حضرت ملا علی قاریؒ کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ ہمیں کافروں اور منکر بدعات کے مرتکب لوگوں کے شعار کی مشابہت سے منع کیا گیا ہے۔

شارح بخاریؒ فرماتے ہیں کہ ماتھے پر ٹیکہ لگانا کفر ہے، یہ خاص ہندؤں کا مذہبی شعار ہے اور ہندؤ ہونے کی علامت ہے۔

دوسرے مقام پر فرماتے ہیں کہ ٹیکہ لگانا مشرکین کا خالص مذہبی شعار ہے، اس لیے ٹیکہ لگانے کی وجہ سے بکر مرتد ہو گیا، اسلام سے نکل گیا، اگر بیوی والا ہے تو اس کی جورو بھی اس کے نکاح سے نکل گئی۔ اس پر فرض ہے کہ ان سب حرکات سے توبہ کریں پھر سے کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو، بیوی والا ہے تو پھر سے نکاح کرے۔ اور اگر ایسا نہ کرے تو مسلمانوں پر واجب ہے کہ اس سے میل جول، سلام کلام بند کریں، اگر اسی حالت میں مر جائے تو اسے نہ مسلمانوں کی طرح غسل دینا جائز نہ بطریق مسنون کفن دینا جائز، نہ اس کی نمازِ جنازہ جائز، نہ اسے مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کرنا جائز، نہ مسلمانوں کی طرح دفن کرنا جائز۔

لہٰذا زید کا تلک لگوانا اور منع نہ کرنا رضا پر دال ہے۔ مرضی نہیں تھی پھر بھی نہ روکنا کفر پر راضی ہونا ہی ہے اور کفر پر راضی ہونا کفر ہے۔

اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں کہ فعل کفر میں جو دل سے شریک ہو وہ ظاہر باطناً کافر ہے، اور جو اکراہ و اضطرار مجبوری محض سے بظاہر شریک ہو، اسے معافی ہے۔ مگر اکراہ صحیح شرعی درکار ہے، کسی کی خاطر وغیرہ سے مجبور ہونا شرعی مجبوری نہیں اور بلا اکراہ شرعی شرکت کفر پر بھی شریعت مطہرہ لزوم کفر و تجدید اسلام و تجدید نکاح کا حکم دے گی۔ اس لیے زید پر لازم ہے کہ توبہ کرے اور تجدیدِ نکاح، اور اگر کسی پیر سے بیعت ہو تو تجدیدِ بیعت کرے۔

اور کفار و مشرکین سے تعلقات و رشتہ داری، اُن سے میل جول اور محبت بھی قطعاً ناجائز وحرام ہے۔

قرآن پاک میں ہیں

تَرٰى كَثِیْرًا مِّنْهُمْ یَتَوَلَّوْنَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْاؕ-لَبِئْسَ مَا قَدَّمَتْ لَهُمْ اَنْفُسُهُمْ اَنْ سَخِطَ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ وَ فِی الْعَذَابِ هُمْ خٰلِدُوْنَ (سورۃ المائده: آیت، 80)

 ترجمہ: تو دیکھتا ہے ان میں کہ بہت سے لوگ دوستی کرتے ہیں کافروں سے، کیا ہی برا سامان بھیجا انہوں نے اپنے واسطے وہ یہ کہ الله تعالیٰ کا غضب ہوا اُن پر اور وہ ہمیشہ عذاب میں رہنے والے ہیں۔

لَوْ كَانُوْا یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ النَّبِیِّ وَ مَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْهِ مَا اتَّخَذُوْهُمْ اَوْلِیَآءَ وَ لٰـكِنَّ كَثِیْرًا مِّنْهُمْ فٰسِقُوْنَ (سورۃ المائده: آیت، 81)

ترجمہ: اور اگر وہ یقین رکھتے الله تعالیٰ پر اور نبی پر اور جو نبی پر اترا تو کافروں کو دوست نہ بناتے لیکن ان میں بہت سے لوگ نافرمان ہیں۔

الحاصل: زید پر تلک لگوانے کے سبب از روئے شرع کفر لازم ہے۔ زید توبہ کے ساتھ تجدیدِ ایمان وغیرہ کرے۔ اور آئندہ اس طرح کی حرکات سے باز رہے۔ فقہ حنفی کی مشہور کتاب در مختار اور اس کے حاشیہ رد المحتار میں ہے کہ متفق علیہ کفر سے عمل اور نکاح باطل ہو جاتا ہے اور اس کی حالت میں جو اولاد ہو گی وہ اولاد زنا ہو گی اور جس کے کفر میں اختلاف ہو، اس میں توبہ تجدیدِ اسلام اور تجدیدِ نکاح کا حکم دیا جائے گا۔

(فتاویٰ اتراکھنڈ: جلد، 2 صفحہ، 76)