سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو کافر کہنے والوں کے ساتھ کھانا پینا، اُٹھنا، بیٹھنا، ان سے شادی بیاہ کرنا، ایسے پیر سے بیعت کرنا
سوال: ایک پیر جس نے ایک مجلس میں یزید کو کھلے طور پر کافر کہا اور ساتھ ہی سیدنا امیر معاویہؓ کو بھی کافر کہا، اس مجلس میں ایک پابند شرع عالم بھی موجود تھے تو انہوں نے کہا کہ یزید کے بارے میں امام اعظم ابو حنیفؒہ کا فتویٰ ہے کہ سکوت اختیار کیا جائے اور حضرت امیر معاویہؓ صحابی رسول ہے، جس پر انہوں نے کہا کہ جو یزید اور سیدنا امیر معاویہؓ کو کافر نہ کہے وہ خود کافر ہے اور ساتھ ہی ساتھ ان کے معاونین و مخلصین نے اس لفظ کو چند مرتبہ دہرایا کہ ایسے شخص کافر ہیں۔(معاذ اللہ)
ایسے عقائد رکھنے والے پیر اور اُن کے معاونین و مخلصین کے بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے؟
جواب: تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تعظیم فرض ہے اور وہ سب عدول ہیں ان کے درمیان جو مشاجرات (جنگ یا دیگر باتیں) واقع ہوئے اُس میں علمائے اہلِ سنت کا عقیدہ یہ ہے کہ اُن مشاجرات کا ذکر حرام ہے، کیونکہ خوف ہے کہ کہیں کسی صحابی کی طرف سوئے ظن (بدگمانی) نہ ہو جائے اور ہماری دنیا و آخرت برباد ہو جائے ۔
حدیث شریف میں ہے:
اذا ذکر اصحابی فامسكوا
ترجمہ: یعنی جب میرے صحابہ کا ذکر کرو تو رک جاؤ (یعنی مشاجرات صحابہ کرامؓ کا ذکر نہ کرو)
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی شان میں بہت سے آیات نازل ہوئیں اور بہت سی حدیثیں ناطق ہیں، قرآن عظیم میں حضور اکرمﷺ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی دو قسمیں فرمائیں مؤمنین قبل الفتح جنہوں نے فتح مکہ سے پہلے راہ خدا تعالیٰ میں خرچ و جہاد کیا، اور مؤمنین بعد الفتح جنہوں نے بعد کو۔
فریق اول کو دوم پر تفصیل عطا فرمائی: لا يستوى منكم من انفق من قبل الفتح وقاتل اولئك اعظم درجة من الذين انفقوا من بعد الفتح وقاتل
ترجمہ: تم میں برابر نہیں جنہوں نے فتح مکہ سے پہلے خرچ و جہاد کیا وہ مرتبہ میں اُن سے بڑے ہیں جنہوں نے بعد فتح کے خرچ و جہاد کیا۔
اور ساتھ ہی فرمایا وکلا وعد الله الحسنا
ترجمہ: اور ان سب سے اللہ تعالیٰ جنت کا وعدہ فرما چکا۔
دونوں فریق سے اللہ تعالیٰ جلّ شانہ نے بھلائی کا وعدہ فرما لیا ، اور ان کے افعال پر جاہلانہ نکتہ چینی کا دروازہ بھی بند فرما دیا کہ ساتھ ہی ارشاد ہواوالله بما تعملون خبير
ترجمہ: اللہ تعالیٰ کو تمہارے اعمال کی خوب خبر ہے، یعنی جو کچھ تم کرنے والے ہو وہ سب جانتا ہے، بایں ہمہ سب سے بھلائی کا وعدہ فرما چکا، خواہ سابقین (پہلے والے) یا لاحقین (بعد والے) ۔
اور یہ بھی قرآن عظیم سے ہی دیکھئے کہ مولا عزوجل جس سے بھلائی کا وعدہ فرما چکا اس کیلئے کیا فرماتے ہیں
اِنَّ الَّذِيۡنَ سَبَقَتۡ لَهُمۡ مِّنَّا الۡحُسۡنٰٓىۙ اُولٰٓئِكَ عَنۡهَا مُبۡعَدُوۡنَۙ ۞ لَا يَسۡمَعُوۡنَ حَسِيۡسَهَا ۚ وَهُمۡ فِىۡ مَا اشۡتَهَتۡ اَنۡفُسُهُمۡ خٰلِدُوۡنَ ۞ لَا يَحۡزُنُهُمُ الۡـفَزَعُ الۡاَكۡبَرُ وَتَتَلَقّٰٮهُمُ الۡمَلٰٓئِكَةُ ؕ هٰذَا يَوۡمُكُمُ الَّذِىۡ كُنۡـتُمۡ تُوۡعَدُوۡنَ ۞(سورۃ الانبیاء: آیت نمبر 101,102,103)
ترجمہ: بے شک جن سے ہمارا وعدہ بھلائی کا ہو چکا وہ جہنم سے دور رکھے گئے، اس کی بھنک تک نہ سنیں گے اور وہ اپنی من مانی مرادوں میں ہمیشہ رہیں گے، انہیں غم میں نہ ڈالے گی بڑی گھبراہٹ، فرشتے ان کی پیشوائی کو آئیں گے یہ کہتے ہوئے کہ یہ ہے تمہارا وہ دن جس کا تم سے وعدہ تھا۔
سچا اسلامی دل اپنے رب عزوجل کا یہ ارشاد عام سن کر کبھی کسی صحابی پر نہ سوئے ظن کر سکتا ہے نہ ان کے اعمال کی تفشیش۔
قارئین کرام!
مذکورہ بالا عبارتوں سے صاف ہو گیا کہ تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جنتی ہیں، جو کسی صحابی کو کافر کہے، وہ جنتی کو کافر کہتا ہے، اور جو ایسا عقیدہ رکھے وہ خارج از ایمان ہے، اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو کافر جان کر خود جہنمی بنتا ہے۔
امیر معاويہ رضی اللہ عنہ جلیل القدر صحابی رسول ہے اور صحابی رسول کے بابت اللہ تعالیٰ جلّ شانہ کا فرمان گزرا۔
لہٰذا یہ پیر سیدنا امیر معاویہؓ کو کافر کہہ کر خود کافر اور جہنمی بنا اور حدیث شریف میں ہے، سیدنا ابن مسعوؓد سے مرفوعاً روایت کیا خیر الناس قرنی یعنی میری صدی کے لوگ (صحابہ کرامؓ) سب سے بہتر ہے۔
اور ترمذی شریف میں ہے:
لا تمس النار مسلماً رانی او رای من رانی
یعنی آگ ( جہنم ) اس مسلم کو نہیں چھوئے گی
جس نے مجھے دیکھا یا میرے دیکھنے والے (صحابہ کرامؓ ) کو دیکھا۔
اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو جو گالی دے اُس پر اللہ تعالیٰ جلّ شانہ اور حضور اکرمﷺ، ملائکہ اور تمام لوگوں کی لعنت برستی ہے۔ حدیث شریف میں ہے
من سب اصحابي فعليه لعنة الله والملائكة والناس اجمعين
دوسری حدیث شریف میں ہے
ان اللہ اختارني و اختار لى اصحابا فجعل لی منھم وزراء وانصار واصھارا فمن سبھم فعلیہ لعنتہ اللہ والملئکتہ والناس اجمعین ،لا یقبل اللّٰہ منہ صرفا ولا عدلا
ترجمہ: بے شک اللہ تعالیٰ نے مجھے اور میرے صحابہ کو چن لیا اور میرے لیے ان ہی میں سے وزیر اور انصار اور سرال رشتہ دار بنائے تو جو شخص ان کو گالی دے اس پر اللہ تعالی اور ملائکہ اور تمام لوگوں کی لعنت ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ اس کا نہ نفل قبول فرماتا ہے نہ فرض۔
دیکھئے! صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر نکتہ چینی کا یہ عالم ہے تو کافر جاننے والے پر کیا وبا ہو گا۔
دوسری حدیث میں ارشاد آیا ہے:
ایمارجل قال لاخيه كافر فقد باء بها احدهما
یعنی جو کوئی کسی مسلم بھائی کو کافر کہے تو وہ ایک پر ضرور لوٹے گی، یعنی جسے کافر کہا اگر وہ کافر ہے تو ٹھیک ورنہ یہ خود کافر ہے۔ عام مؤمنین کے بارے میں یہ حکم ہے تو جو کوئی کسی صحابی کو کافر کہے تو بدرجہ اولی قائل فی الفور کافر ہوا۔
سیدنا امیر معاویہؓ جلیل القدر صحابی ہیں، ان کی شان میں متعدد حدیثیں ہیں اور ان سے بہت سی حدیثیں مروی ہے۔ حضرت امیر معاویہؓ اپنے والدین سے پہلے اسلام لائے، اور اسلام کے شرف کے ساتھ ساتھ، نسب، صحبت، مصاہرت کا بھی شرف حضور اکرمﷺ سے حاصل ہے اور ان اُمور کی وجہ سے جنت میں حضور اکرمﷺ کی رفاقت بھی لازم ہے۔
تطهير الجنان واللسان عن الخطور والتفوة بثلث سيدنا معاوية بن ابي سفيان میں علامہ امام احمد بن حجر ہیتمؒی فرماتے ہیں
فمنهما شرف الاسلام و شرف الصحبة وشرف النسب وشرف مصاهرته له المستلزمة المرافقة له في الجنة و لكونه معه فيها
ترمذى وغيره نے خاص سیدنا امیر معاویؓہ کی شان میں باب باندھا ہے۔
حدیث شریف میں ہے:
عن النبي انه قال لمعاوية اللهم اجعله هاديا مهديا واهد به
حضور اکرمﷺ نے فرمایا اے اللہ! اس کو ہادی اور مہدی بنا اور اس سے لوگوں کو ہدایت دے۔
دوسری حدیث میں ہے کہ جب سیدنا عمر بن خطابؓ نے سیدنا عمیر بن سعدؓ کو حمص سے معزول کیا اور سیدنا امیر معاویؓہ کو والی بنایا تو لوگوں نے کہا سیدنا عمیرؓ کو معزول کیا اور سیدنا امیر معاویہؓ کو والی بنایا تو لوگوں نے کہا سیدنا عمیرؓ کو منظور کیا اور سیدنا امیر معاویہؓ کو ولی بنایا حضرت عمیرؓ نے کہا سیدنا حضرت امیر معاویہؓ کا ذکر خیر سے کرو کہ میں نے حضور اکرمﷺ سے سنا ہے، فرماتے تھے کہا۔ کہ اے اللہ! اس سے لوگوں کو ہدایت دے۔ بفرض غلط اگر سیدنا امیر معاویہؓ کافر ہوتے تو ان کی شان میں حدیثیں مروی نہ ہوتیں۔
اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تعظیم دیکھئے اور سرکارﷺ کے فرمان کو کتنا سچا اور یقینی مانتے تھے کہ فرماتے ہیں سیدنا عمیر رضی اللہ عنہ ایک تو عہدے سے معزول بھی ہوئے پھر بھی فرماتے ہیں کہ سیدنا امیر معاویہؓ کا ذکر خیر ہی کے ساتھ کرو، کیونکہ سرکارﷺ نے خاص امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرمایا اللہ! ان سے مؤمنین کو ہدایت دے۔ تو اگر سیدنا امیر معاویہؓ میں کوئی خامی ہوتی تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اس قدر احتیاط نہ برتتے۔
سیدنا امیر معاویہؓ کی شان بہت اونچی ہے، جن کو سرکارﷺ نے اتنا چاہا، جن کو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اتنا رتبہ دیا سرکار دو عالمﷺ نے ہر صحابیؓ کی شان میں فرمایا
اصحابی کالنجوم بايهم اقتديتم اهتديتم
یعنی میرے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ستاروں کی طرح ہیں تم ان کی اقتدا کرو ہدایت یافتہ ہو جاؤ گے۔
یہ پیر پکا خبیث یا رافضی (شیعہ) معلوم ہوتا ہے اور شیطان کا پیر ہے، اس سے لوگ گمراہ ہوں گے، ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے نہ کہ راہِ راب ہوں گے، اس سے مرید ہونا حرام و ناجائز ہے، اور اس کے کفریہ عقائد کو جانتے ہوئے مرید ہونا کفر ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی شان میں اس سے بڑھ کر توہین کیا ہو سکتی ہے کہ اُن کو بالکل کافر ہی بنا دیا۔
سیدنا امیر معاوؓیہ پر لعن وطعن کرنے کے بابت علامہ شہاب الدین خفاجی نسيم الرياض شرح شفاء میں فرماتے ہیں
ومن يكون يطعن في معاوية فذلك كلب من كلاب الهاوية
جو امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر طعن کرے وہ جہنم کے کتوں میں سے ایک کتا ہے۔
ہاں یزید کی تکفیر و لعن کے بارے میں اختلاف ہے ہمارے امام اعظمؒ کا مذہب یہ ہے اس بارے میں کہ احتیاطاً سکوت برتے، یزید سے فسق و فجور متواتر ہیں کفر متواتر نہیں اور بحال احتمال نسبت کبیرہ بھی جائز نہیں نہ کہ تکفیر۔ بہرحال ہم حنفی مقلد ہیں، ہم اپنے امام کی تقلید کرتے ہوئے لعن و تکفیر میں سکوت ہی اختیار کریں گے۔
رہی یہ بات کہ یزید کو خلیفہ بنانے کے سبب حضرت امیر معاویہؓ پر طعن تو حرام اشد حرام ہے۔ اولاً تو سیدنا امیر معاویہؓ کو یزید کے حالات بخوبی معلوم نہ تھے، ثانیاً سیدنا امیر معاویہؓ خود مجتہد ہیں اور مجتہد کو اجتہاد میں صواب پر دو اجر اور اجتہاد میں خطاء پر ایک اجر ملتا ہے۔ حدیث شریف میں ہے اذا حكم الحاكم فاجتهد فاصاب فله اجران و اذا حكم فاجتهد فاخطا فله اجر واحد
یہ پیر بالکل بے علم ہے، اور پیر کا یہ کہنا کہ جو یزید اور سیدنا امیر معاویہؓ کو کافر نہ جانے وہ بھی کافر ہے، شرع پر سخت جرأت ہے اور سینکڑوں افراد بلکہ اُمت محمدیہ کو کافر بنانا ہے اور اس پر معاونین و مخلصین کا خاموش تماشائی بنا رہنا عجب مضحکہ خیز ہے۔
یہ پیر کافر و مرتد ہے، اس پر فرض ہے کہ صدق دل سے توبہ کرے اور تجدیدِ ایمان اور بیوی رکھتا ہے تو تجدیدِ نکاح بھی کرے اور معاونین و مخلصین جو اس پر راضی ہیں ان کو بھی مذکورہ حکم پر تعمیل واجب ہے۔ انہیں جیسے لوگوں سے متعلق حدیث شریف میں ہے
ان الله اختارني و اختار لى اصحابا واصهارا وسيأتي قوم يسبونهم وينتقصونهم فلا تجالسوهم ولا تشار بوهم ولا تواكلوهم ولا تناكحوهم
ترجمہ: بیشک اللہ تعالیٰ نے مجھے اور میرے صحابہؓ اور سسرالی رشتہ داروں کو چن لیا اور عنقریب ایک قوم آئے گی کہ انہیں گالی دے گی اور ان کی تنقیص کرے گی تو اُن کے پاس نہ بیٹھو اور نہ اُن کے ساتھ کھاؤ پیو اور نہ اُن کے ساتھ شادی بیاہ کرو۔
(فتاویٰ بریلی شریف: صفحہ، 271)