دوروزیہ مسلمانوں سے بد ترین دشمنی
سید تنظیم حسیندروزیہ اسماعیلیوں کی وہ شاخ ہے جو فاطمی امام خلیفہ الحاکم بامر اللہ کو ( نعوذ باللہ) خدا مانتے ہیں علامہ شمس الدین ذہبی ان کے متعلق لکھتے ہیں:
معلوم ہوا کہ ساحلِ شام پر الجردو کسروان نام کے پہاڑ تھے جس میں ہزاروں روافض دوروزرہتے ہیں اور لوگوں کا خون بہاتے اور انہیں لوٹتے ہیں اور جب 699 ھ، 1300ء میں مسلمانوں کو شکست ہوئی تو ان کے سازو سامان پر قبضہ کر لیا اور انہیں کافروں اور قبرص کے نصاریٰ کے ہاتھ بیچ دیا وہ گزرنے والے مسلمان سپاہیوں کو بھی پکڑ لیتے تھے اور اس طرح وہ مسلمانوں کے لیے ان تمام دشمنوں سے زیادہ خطرناک ثابت ہوئے ان کے بعض امراء نے نصاریٰ کا علم بلند کیا یہ پوچھے جانے پر کہ مسلمانوں اور عیسائیوں میں کون بہتر ہے؟ کہا کہ نصاریٰ بہتر ہیں لوگوں نے اس سے پوچھا کہ قیامت میں کس کے ساتھ حشر پسند کرو گے تو کہا کہ نصاریٰ کے ساتھ ان لوگوں نے کئی شہروں کو نصاریٰ کے حوالے بھی کیا۔
(رسالہ الحق: ماہِ مئی صفحہ، 14)
روافض باطنیہ اسماعیلی صلیبیوں سے تعاون:
علامہ شیخ ابو زہرہ روافضِ باطنیہ کے متعلق لکھتے ہیں: بلادِ شام اور اس کے بعد عالمِ اسلام پر صلیبی حملے کے وقت انہوں نے مسلمانوں کے مقابلہ پر صلیبیوں سے دوستی کی چنانچہ جب صلیبی بعض بلادِ اسلامیہ پر قابض ہوئے تو انہیں اپنا مقرب بنایا اور مختلف عہدوں پر بحال کیا اور جب نور الدین زنگی، صلاح الدین ایوبی اور دیگر ایوبی حکمران ہوئے تو یہ چھپ بیٹھے اور مسلمانوں کے اکابر اور بڑے سپہ سالاروں کے قتل کی سازش کرنے لگے۔
(تاریخ اسلام میں شیعت و باطنیت کا منفی کردار)
اسماعیلی نزاری یا مشرقی اسماعیلی اکابر کا قتل):
نزاری یا نزاریہ اسماعیلیوں کی وہ شاخ ہے جو فاطمی خلیفہ المستنصر باللہ کے بعد اس کے بیٹے احمد المستعلی کے بجائے اس کے بیٹے نزار کو امام برحق تسلیم کرتی ہے نزاری امامت کا سلسلہ مصر کی بجائے شمالی ایران میں قلعہ الموت پر قبضہ سے شروع ہوتا ہے اس کا باغی داعی حسن بن صباح ہے جو شیخ الجبال کے نام سے بھی معروف ہے ایسا کون پڑھا لکھا شخص ہوگا جس نے حسن بن صباح اور اس کی جنت اور حشیشین کا نام نہ سنا ہو حسن بن صباح ہی تھا جس نے ایک داعی کی حیثیت سے نزاری امامت کے سلسلہ کو قلعہ الموت میں مستحکم کیا حسن بن صباح نے اس قلعے پر 483ھ، 1090ء میں قبضہ حاصل کیا اس قلعہ کا نام محلِ وقوع اور ناقابل تسخیر ہونے سے متعلق بہت سی دلچسپ روایات ہیں یہی وہ قلعہ ہے جس کے nest Eagles شکرے، عقاب کا گھونسلا کہا گیا حسن بن صباح کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ اس قلعہ کے قبضے کے بعد 483ھ، 1090ء سے 518ھ 1124ء یعنی وفات تک قلعہ سے باہر نہیں نکلا اس نے ایک جان نثاروں کی تنظیم قائم کی اور اپنے فدائیوں کے ذریعہ قتل و غارت کے ایسے کارنامہ انجام دئیے کہ اسلامی دنیا تھرتھرا اٹھی یہ واقعات ایک جرمن مصنف فان ہمیر نے اپنی کتاب:
History of the Assassins۔
(یہ کتاب عرصہ سے نایاب تھی اس کا انگریزی ترجمہ چارلس وڈ نے کیا ہے حال ہی میں دوبارہ شائع ہوئی ہے اس کتاب سے سید امیر علی اور ڈاکٹر زاہد علی نے بھی استفادہ کیا ہے)
میں تفصیل سے بیان کیے ہیں ہم فان ہمیر کے تاثرات سے پہلے دوسرے حوالوں سے چند واقعات بطورِ نمونہ پیش کرتے ہیں:
شام کے ممتاز عالم شیخ عبدالرحمٰن المیدانی لکھتے ہیں:
944ھ، 1100ء میں قرامطہ نے پھر زور پکڑا ان کے سرغنہ احمد بن عبدالملک عطاش نزاری داعی کا مرکز قلعہ اصفہان قلعہ شاہ ور (King of Pearis) تھا اور حسن بن صباح کا الموت جس کے فدائیوں نے نظام الملک (سلجوقیوں کا نامور وزیر) کو قتل کیا 498ھ، 1104ء میں خراسان و ہندوستان کے قافلہ حجاج کورے (بہر کیپین کے جنوب میں ایک مشہور شہر) کے پاس باطنیوں نے قتل کیا بالآخر 518ھ، 1123ء میں حسن بن صباح مر گیا 520ھ، 1146ء میں وہ پھر سرگرم ہوئے نزاری داعی بہرام بن موسیٰ نے شام کو مرکز بنایا اور صلیبی حملوں سے فائدہ اٹھایا قلعہ بانیاس دمشق سے قریب پر قابض ہو کر مسلمانوں کو ستانے لگے مزدقانی المزدگانی۔حاکم دمشق کا فاطمی وزیر) نے صور (Tyre) کے صلیبیوں کو دمشق کی پیشکش کی اور کہا کہ جمعہ کے دن جامع اموی کے دروازے بند کر کے انہیں قبضہ دلا دے گا مگر یہ راز تاج الملوک امیرِ دمشق کو معلوم ہو گیا اس نے اسے بلا کر قتل کر دیا اور اس کا سر قلعہ کے دروازے پر لٹکا دیا 524ھ، 1130ء میں اسماعیلی باطنی نزاری نے پھر خراسانی حجاج کا قتل عام کیا مؤرخین کہتے ہیں کہ بلادِ اسلامیہ کا کوئی شہر ایسا نہ تھا جہاں شرفاء و حجاج کے اس قتل پر ماتم نہ ہوا ہو 571ھ، 1175ء میں صلاح الدین ایوبی قلعہ اعزاز نزد حلب کے محاصرہ کے دوران طائفہ اسدیہ کے امیر جاؤلی کے خیمہ میں گیا جہاں ایک باطنی نے اس کے سر پر حملہ کیا مگر وہ مغفر کے سبب محفوظ رہا اور صحیح سلامت نکل آیا۔
(تاریخِ اسلام میں شیعیت و باطنیت نیت کا منفی کردار، ماہنامہ الحق: مئی، 85 صفحہ، 16) اکبر شاہ خاں تاریخِ اسلام میں لکھتے ہیں:
ان ملحد فدائیوں کے ہاتھ سے جو لوگ قتل ہوئے ان میں خواجہ نظام الملک طوسی وزیرِ اعظم الپ ارسلان، ملک شاہ سلجوقی، فخر الدین بن خواجہ نظام الملک، جناب شمس تبریزیؒ، پیر طریقت مولانا رومیؒ نظام الملک معوذ بن علی وزیر خوارزم شاہ سلطان شہاب الدین غوری ہیں سلطان صلاح الدین ایوبی اور حضرت امام فخر الدین رازیؒ کو بھی ملاحدو باطنیہ نے قتل کی دھمکی دی مگر وہ بچ گئے۔
(تاریخِ اسلام: جلد، 2 صفحہ، 265 )
سلطان صلاح الدین ایوبی کا ذکر تو اوپر ہو چکا۔ اب ہم حضرت امام فخرالدین رازیؒ کا واقعہ سید امیر علی کے حوالے سے لکھتے ہیں: حسن بن صباح کی باطنیت مغربی اسماعیلیوں فاطمی سے مختلف تھی جیسا کہ شہرستانی اور محسن فانی نے واضح کیا ہے ان کی تحریروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان دونوں کے قلم پر فدائیوں کا خنجر سوار تھا۔
امام فاضل فخر الدین رازیؒ رے میں فقہ کے متعلق درس دیا کرتے تھے ایک مرتبہ انہوں نے اسماعیلیہ سے متعلق تنقید کی اس کی اطلاع الموت جس کو عقاب کا آشیانہ کہا جاتا تھا پہنچی اور فوراً ایک فدائی کو امام کی تنبیہ کے لیے مامور کیا گیا فدائی نے رے پہنچ کر خود کو جناب امام کے درس میں شامل کر لیا سات ماہ کے انتظار کے بعد امام کو اپنے حجرہ میں تنہا پاکر ان کی چھاتی پر سوار ہو کر ان کے گلے پر خنجر رکھ دیا جناب امام کے دریافت کرنے پر فدائی نے کہا کہ تم کو اس لیے مارا جاتا ہے کہ تم نے اسماعیلیہ کی ملامت کی ہے جناب امام نے وعدہ کیا کہ وہ آئندہ ایسا نہ کریں گے فدائی نے ان کی بات کو ماننے سے اس وقت تک انکار کیا جب تک کہ انہوں نے خداوند الموت سے وظیفہ لینا قبول نہ کر لیا تاکہ وہ آئندہ نمک حرامی نہ کر سکیں۔
(صفحہ، 341 The Spirit of islam )
اس واقعہ کو اسماعیلی مؤرخین نے بڑے افتخار کے ساتھ لکھا ہے حسن بن صباح سے متعلق تفصیلی حالات جی براؤن کی تاریخ ادبیات ایران انگریزی اور فان ہمیر کی تاریخغ حشیشین میں دیکھے جا سکتے ہیں ان دونوں مصنفوں نے سلسلہ وار ان ناموں کی فہرست دی ہے جن کو اسماعیلی فدائیوں نے قتل کیا فدائی تنظیم سے متعلق خود اسماعیلی تاریخ سے اقتباس پیش کیا جاتا ہے: سیدنا راشد الدین سنان نے 558ھ، 598ھ 1162ء 1193ء) جو شام میں اسماعیلی دعوت کے انچارج تھے سب سے پہلے اسماعیلیوں کو اندرونی طور پر منظم اور متحد کیا دوسری طرف بیرونی دشمنوں کا مقابلہ کرنے کے لیے فدائی بڑے بہادر تھے اور امام الوقت کے نام پر جان قربان کرنے سے دریغ نہ کرتے تھے۔ یہ مختلف زبانیں جانتے تھے اور بڑے بڑے حکمرانوں کے خفیہ راز معلوم کرنے کے ماہر تھے سیدنا سنان نے مختلف اسماعیلی قلعوں کے مابین پیغام رسانی کے لیے کبوتروں کو تربیت دے رکھی تھی اور اس پیغام رسانی کے لیے ایک خفیہ زبان استعمال کی جاتی تھی اس طرح آپ کبوتروں سے موجودہ دور کے وائرلیس کا کام لیتے تھے اور اس ذریعہ سے چونکہ آپ کو دشمنوں کے پروگراموں کی اطلاح پہلے سے مل جاتی تھی اسی لیے دشمن کے منصوبوں کو خاک میں ملانے میں کوئی دشواری پیش نہیں آتی تھی۔
(تاریخِ ائمہ اسماعیلیہ: حصہ، سوئم صفحہ، 68 69)
مندرجہ بالا اقتباس صاف ظاہر کر رہا ہے کہ شام میں چھٹی صدی ہجری میں اسماعیلی فدائیوں نے جو قتل و غارت گری کی اس کا تعلق راشد الدین سنان کی تنظیم سے تھا راشد الدین سنان کو تاریخِ ائمہ اسماعیلیہ میں نزاری امام حسن علی ذکرہ السلام 557ھ، 561 ہجری، 1162ء، 1266ء اور امام اعلاء محمد 561ھ، 607ھ، 1166ء، 1210ء)
کے زمانہ میں شام میں اسماعیلی دعوت کا انچارج بتایا گیا ہے اور لکھا ہے: آپ راشد الدین سنان نے صلاح الدین ایوبی 567ھ، 607ھ، 1166ء، 1193ء والی مصر اور صلیبیوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔
(ایضاً: صفحہ، 67)
تاریخِ ائمہ اسماعیلیہ میں حسن بن صباح کے ذکر میں کسی فدائی تنظیم کے قیام کے متعلق بالکل خاموشی اختیار کی گئی ہے بلکہ یہ کہا گیا ہے کہ الموت کی اسماعیلی ریاست سے متعلق ہمارے پاس کوئی ٹھوس اسماعیلی مأخذ نہیں ہے۔
(تاریخِ ائمہ اسماعیلیہ: حصہ، سوئم صفحہ، 57)
گویا اس طرح اقرار سے کہ حسن بن صباح نے بھی کوئی فدائی تنظیم قائم کی تھی پہلو تہی کی گئی ہے لیکن قلعہ الموت سے ہدایات پر فدائیوں کی ہلاکت خیزیوں کے واقعات کسی ثبوت کے محتاج نہیں
قریب ہے یار روزِ محشر چھپے گا کشتیوں کا خون کیوں کر
جو چپ رہے گی زبان خنجر لہو پکارے گا آستین کا
خالص اسماعیلی ذرائع سے اقتباس پیش کرنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ اب ایک ایسا گروہ پیدا ہو گیا ہے جو حسن بن صباح کی تمام ہلاکت خیزیوں کا جواز پیش کر رہا ہے اور اسماعیلیہ تو اس کو سیدنا حسن بن صباح قدس سرہ لکھنے لگے ہیں:
بہ بیں تفاوت رہ از کجا است تا بہ کجا۔
ہمیں اس کا پورا پورا احساس ہے کہ عامتہ المسلمین کو اسماعیلی فدائیوں کی ہلاکت خیزیوں کا علم اب تک پورے طور سے نہ ہو سکا قریباً 60، 70 سال قبل مولانا عبد الحلیم شرر نے فردوس بریں اور سوانحِ عمری حسن بن صباح میں ان ہلاکت خیزیوں اور ان کے محرکات پر کافی روشنی ڈالی تھی مگر یہ کتابیں ادبی حلقوں تک محدود رہیں کوئی مستقل کتاب اردو زبان میں فدائی تنظیم سے متعلق نہیں لکھی گئی حالات کے اعتبار سے اس کی ضرورت بھی نہ تھی اب بدلی ہوئی فضاء میں جس کا ذکر اوپر کیا گیا ہے یہ ضرورت محسوس ہوئی لیکن ہمارا مقصد تو صرف اسماعیلیوں کا منفی کردار پیش کرنا ہے لہٰذا حسن بن صباح کی فدائی تنظیم کا ذکر دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔
اب تک اسماعیلیوں میں صرف داعی اور رفیق ہوتے تھے داعی دعوت کے خفیہ طریق کار سے واقف ہوتے تھے ان کا کام اسماعیلی دعوت کی طرف راغب کرنا تھا جب کہ رفیق زیرِ تربیت افراد ہوتے تھے اس خفیہ جماعت میں ان دو قسم کے افراد کی اکثریت تھی حسن بن صباح نے اپنے مقاصد کے برآری کے لیے ایک تیسرے طبقہ کی ضرورت سمجھی جو بلا سوچے سمجھے اور برے سے برے انجام سے لاپرواہ ہو کر اپنے آقا کے احکامات کی تعمیل کرے قاتلوں کی اس برادری کا سربراہ سیدنا کہلاتا تھا جسے عام طور پر شیخ الجبال بھی کہتے تھے فدائی اس کے محافظ تھے اور اس کے قتل و غارت گری کے احکامات کی بے دھڑک تعمیل کرتے تھے۔
(صفحہ، 318 :A history of the saracens)
فدائیوں کے متعلق سید امیر علی لکھتے ہیں: عیسائی حکمرانوں نے بھی الموتیٰ قاتلوں کو اپنے دشمنوں سے نجات پانے کے لیے استعمال کیا انگلستان کے ریچرڈ نے Conrad of Montserrat کو الموت کے ایک فدائی کے ذریعے قتل کرایا حتیٰ کہ ایک پوپ نے بھی Frederick Barbaross گلو خلاصی کے لیے ایک فدائی کو استعمال کیا اگرچہ وہ ناکام رہا۔
(صفحہ، 342 :The Spirit of islam)
اسماعیلی فدائیوں کی یہ کارگزاریاں جو ان کے ائمہ معصومین کے ایماء پر ہوتی رہیں ان کے سیاہ اعمال نامہ کو لبریز کرنے کے لیے کچھ کم نہ تھیں کہ انہوں نے خلافتِ عباسیہ کی تباہی کو بھی بصدِ فخر ایک شاندار کارنامہ کی حیثیت سے اپنے ذمے لے لیا خلافتِ عباسیہ کی تباہی تو ایسی تھی کہ سعدیؒ کو کہنا پڑا:
آسمان راحق بود گر خوں بہ بارو برز میں
بر زوال ملک مستعصم امیر المؤمنین
اے محمد گر قیامت سربروں آری زخاک
سربروں آرو قیامت درمیان خلق ہیں
لیکن نزاری اسماعیلیوں نے بجائے اس کے کہ اپنا داغدار دامن چھپاتے اس کو بھی اپنے ماتھے کا ٹیکہ بنا لیا وہ اس طرح کے خواجہ نصیر الدین طوسی کو جو اس تباہی کے اہم کردار ہیں الموت کا تربیت یافتہ بلکہ نزاری امام علاؤ الدین محمد 618ھ، 653ھ، 1221ء 1255ء کا مشیر بتلایا گیا ہے۔
(تاریخِ ائمہ اسماعیلیہ: حصہ، سوئم صفحہ، 87)
آپ نصیر الدین طوسی نے سب سے پہلے قبستان کے اسماعیلی گورنر ناصر الدین عبد الرحیم بن منصور جو خود ایک عالم و فاضل تھے کی ملازمت کی اور اسی کے نام پر اخلاقِ ناصری لکھی اس کے بعد طوسی الموت چلے گئے اور وہاں اسماعیلی امام کی زیرِ سرپرستی علم و ادب کا کام کرنے لگے آپ نے اسماعیلی عقائد پر متعدد کتابیں لکھیں جن میں سے روضت التسلیم تصورات مطلوب المؤمنین اور مرات المحققین خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں ریاست الموت کے خاتمہ کے بعد نصیر الدین طوسی نے منگول سردار ہلاکو خان کی ملازمت اختیار کر لی۔
(2: تاریخ ائمہ اسماعیلیہ: صفحہ، 92، 93)
نصیر الدین طوسی نے مسلمانوں کی تباہی کے لیے جو کردار ادا کیا ہے وہ کسی بھی ذی فہم مسلمان بلکہ انسان کے لیے باعثِ فخر نہیں ہو سکتا مگر کیا کیا جائے جب بھی مسلمانوں کی تباہی کا ذکر آتا ہے تو در و دیوار سے آواز آنے لگتی ہے:
(سعدی از دست خویشتن فریاد)