Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

مرتد کے ساتھ تعلقات وغیرہ کا حکم


سوال: جو شخص قرآن وحدیث کو نہ مانے بلکہ اللہ تعالیٰ جلّ شانہ کے مقدس قرآن اور آقائے مدینہﷺ کے مقدس حدیث کو فتنہ بتائے، اس پر شریعت کا کون سا حکم نافذ کیا جائے گا ؟

جواب: جو شخص قرآن و حدیث کی باتوں کو نہ مانے اور قرآن و حدیث کو فتنہ بتائے (معاذاللہ)، وہ شخص دائرہ اسلام سے خارج ہو کر کافر و مرتد ہو گیا اور اس کے سارے اعمال اکارت و برباد ہو گئے، اس کی بیوی اس کے نکاح سے باہر ہو گئی، بعد عدت جس سے چاہے نکاح کر سکتی ہے، اور جو کوئی کلمہ کفر بکے اس کے اعمال دنیا و آخرت میں برباد ہو جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ جلّ شانہ فرماتے ہیں

وَمَنۡ يَّرۡتَدِدۡ مِنۡكُمۡ عَنۡ دِيۡـنِهٖ فَيَمُتۡ وَهُوَ کَافِرٌ فَاُولٰٓئِكَ حَبِطَتۡ اَعۡمَالُهُمۡ فِى الدُّنۡيَا وَالۡاٰخِرَةِ وَاُولٰٓئِكَ اَصۡحٰبُ النَّارِ‌‌هُمۡ فِيۡهَا خٰلِدُوۡنَ ۞(سورۃ البقرہ: آیت نمبر 217)

ترجمہ: اور تم میں جو کوئی اپنے دین سے پھرے پھر کافر ہو کر مرے تو اُن لوگوں کا کیا اکارت گیا دنیا میں اور آخرت میں، اور وہ دوزخ والے ہیں، انہیں اس میں ہمیشہ رہنا ہے۔

اس آیت سے معلوم ہوا کہ ارتداد سے تمام اعمال باطل ہو جاتے ہیں، آخرت میں تو اس طرح کہ ان پر کوئی اجر و ثواب نہیں اور دنیا میں اس طرح کہ شریعت مرتد کے قتل کا حکم دیتی ہے، اس کی عورت اس پر حلال نہیں رہی ، وہ اپنے اقارب کا ورثہ پانے کا مستحق نہیں رہتا، اس کا مال معصوم نہیں رہتا، اس کی مدح وثنا اور امداد جائز نہیں۔

شخص مذکور پر توبہ فرض ہے، اور بعد تو بہ صحیح تجدیدِ ایمان فرض ہے اور بیوی رکھتا ہے تو تجدیدِ نکاح بھی فرض ہے اور جب تک شخص مذکور حکم مذکور پر عمل نہ کرے ہر واقف حال مسلمان پر لازم ہے کہ ترک تعلق کرے۔

اور اگر وہ بے توبہ صحیحہ و تجدیدِ ایمان مر جائے تو اس کی نمازِ جنازہ نہیں پڑھی جائے گی اور مسلمانوں کے قبرستان میں دفن نہ کیا جائے گا، ہاں، حکم مذکور پر عمل کرے تو تعلقات جائز ہوں گے اور اس کی نمازِ جنازہ پڑھی جائے گی اور مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کیا جائے گا۔

(فتاوی بریلی شریف: صفحہ، 146)