Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

غیر مسلموں کے مندر میں گھنٹی بندھوانے والے سے تعلقات رکھنا


سوال: ایک مرتبہ الیکشن کے موقع سے خالد کی عورت پر دھانی میں کھڑی ہوئی تو اس کو انتخابی نشان گھنٹی ملا جس پر خالد کا لڑکا زاہد سے ایک گھنٹی لایا اور سریش نامی ایک غیر مسلم کو گھنٹی سپرد کر دی اور کہا کہ اس کو مندر میں بندھوا دو، اس پر سریش نے کہا سبن بھائی! خوب سوچ سمجھ لو، کیونکہ ایک مرتبہ یہ مندر میں بندھ گئی تو اُتاری نہیں جائے گی ۔ انہوں نے کہا ایسا کچھ نہیں ہے۔ سریش نے پھر دوبارہ کہا سبن بھائی! میں پھر کہہ رہا ہوں سوچ لو، ورنہ کل پھر تم کہو کہ ہماری برادری میں بڑی فضیحت (یعنی لعنت ملامت) ہو رہی ہے، لہذا اُتار دو تو یہ اتاری نہیں جائے گی۔ تو انہوں نے کہا کہ ایسا کچھ نہیں ہے، صرف تم بندھوا دو۔

اس واقعہ کے دوسرے دن جب بات کافی پھیل گئی اور پورے علاقے میں لوگوں نے لعنت ملامت شروع کر دی لیکن اس کے باوجود بھی زاہد نے سریش کی مندر میں گھنٹی بجانے کی ڈیوٹی لگا دی اور اس کے عوض میں بیٹری ماچس کے نام پر کچھ خرچ وغیرہ بھی دیا جانے لگا۔ گھنٹی بجانے کی ڈیوٹی کچھ دن مسلسل لگی رہی۔

اس واقعہ کے پانچ دن بعد اسی طرف سے ربیع الاول شریف کا جلوس نکلا۔ جلوس میں شریک کئی لوگوں کو اور سنی دارالعلوم کے کچھ طلباء کو لوگوں نے دکھایا کہ دیکھو یہی گھنٹی بندھوائی گئی ہے۔

مذکورہ صورت حال کا علم ہونے پر بھی ایک سنی صحیح العقیدہ عالم دین جو پیر بھی ہیں ان کے اور ان کے لڑکوں کے زاہد سے قریبی تعلقات تھے اور آج بھی بدستور قائم ہیں۔ مندرجہ بالا صورتوں میں زاہد عالم دین اور ان کے لڑکوں پر شریعت مطہرہ کیا حکم عائد کرتی ہے؟

جواب: مندر میں گھنٹی بندھوانا حرام اشد حرام بدکام بدانجام ہے۔ زاہد گنہگار، مستحق عذاب نار و مستوجب غضب جبار ہے، اس پر لازم ہے کہ صدق دل سے تو بہ واستغفار کرے اور تجدیدِ ایمان و تجدیدِ بیعت بھی کر لے اور اگر بیوی والا ہو تو تجدیدِ نکاح بھی کرے۔

عالم دین جو سنی صحیح العقیدہ اور پیر ہیں ان سے اور ان کے لڑکوں سے معلوم کیا جائے ،انہیں معلوم تھا یا نہیں۔ اگر معلوم ہوتے ہوئے بلا توبہ کرائے ان سے تعلق رکھا تو یہ جائز نہیں ۔ 

قال الله تعالى وَاِمَّا يُنۡسِيَنَّكَ الشَّيۡطٰنُ فَلَا تَقۡعُدۡ بَعۡدَ الذِّكۡرٰى مَعَ الۡقَوۡمِ الظّٰلِمِيۡنَ ۞(سورۃ الانعام: آیت نمبر 68)

ترجمہ: اور اگر بعد توبہ ان سے تعلق رکھے ہوئے ہیں تو حرج نہیں۔

(فتاویٰ بریلی شریف: صفحہ، 266)