Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

نبی ﷺ کا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو قراءات اور حروف سبعہ کی تعلیم دینا

  ڈاکٹر ناصر بن سعد القثامی

نبی ﷺ کا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو قراء ات اور حروف سبعہ کی تعلیم دینا

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں قرآن کریم کی حفاظت اور قراء ات ِقرآنیہ کی تعلیم و تعلم کا اصل انحصار تلقی (براہ راست سن کریاد کرنا) اور حفظ پر رہا ہے۔جونہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم امین الوحی جبریل سے قرآن سنتے ، فوراًآپ کے دل پر نقش ہو جاتا تھا۔پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بذات خود صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو قرآن رضی اللہ عنہم کا ایک ایک لفظ یاد کرواتے تھے۔چنانچہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ:

’’ كَانَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعَلِّمُنَا الْقُرْآنَ، فَإِذَا مَرَّ بِسُجُودِ الْقُرْآنِ سَجَدَ وَسَجَدْنَا مَعَهُ۔ ‘‘ 

 مسند أحمد ۲-۱۵۷،

مسند احمد کے محقق شعیب ارناؤظ نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔لیکن

سنن ابی داؤد ، رقم:۱۴۱۳،

اور

صحیح ابن خزیمہ ۱-۲۷۹

میں یہ الفاظ ہیں:

کان رسول اللّٰہ یقرأ علینا القرآن فیقرأ السورۃ فیہا سجدۃ فیسجد ونسجد معہ۔.

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں قرآن پڑھ کر سناتے۔ دوران ِتلاوت جب سجدہ کی آیت سے گزرتے تو سجدہ کرتے اور ہم بھی آپ کے ساتھ سجدہ کرتے۔‘‘

’’رسول اللہ ﷺ ہمیں قرآن سکھایا کرتے تھے۔ جب آپ قرآن میں سجدے کی آیت سے گزرتے تو سجدہ کرتے اور ہم بھی آپ کے ساتھ سجدہ کرتے۔‘‘

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے قرآن کریم پڑھانے اور یاد کروانے کا اس قدر اہتمام اور صحابہ میں اس قدر چرچا تھا کہ دیگر معاملات میں اس کی مثالیں دی جاتی تھیں۔چنانچہ حضرت جابر بیان کرتے ہیں کہ

’’ كَانَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعَلِّمُنَا الِاسْتِخَارَةَ كَمَا يُعَلِّمُنَا السُّورَةَ مِنَ الْقُرْآنِ۔ ‘‘ 

[ صحیح البخاری ، کتاب التہجد ، رقم۱۱۶۲، تحقیق:محمد زہیر بن ناصر الناصر، دار طوق النجاۃ ، الطبعۃ الأولی ، ۱۴۲۲ھ.] 

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں تمام معاملات میں دعائے استخارہ اس طرح یاد کرواتے ، جس طرح قرآن کی کوئی سورت یاد کرواتے تھے۔‘‘

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بھی قرآن کریم کی تعلیم وتدریس میں اپنے ساتھ شریک کر لیا تھا۔ چنانچہ عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

’’ كَانَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُشْغَلُ، فَإِذَا قَدِمَ رَجُلٌ مُهَاجِرٌ عَلَى رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَفَعَهُ إِلَى رَجُلٍ مِنَّا يُعَلِّمُهُ الْقُرْآنَ۔ ‘‘ 

[ مسند أحمد ۵-۳۲۴۔ مستدرک امام حاکم ۳-۳۵۶،

نیز انہوں نے اسے شرط شیخین پر صحیح الإسناد قرار دیا ہے.] 

’’جب کوئی شخص ہجرت کر کے آتا تو رسول اللہ اسے ہم میں سے کسی کے حوالے فرما دیتے تاکہ وہ اسے قرآن سکھائے۔‘‘

قرآن کریم اور قراء ات قرآنیہ کے ساتھ صحابہ رضی اللہ عنہم کی وابستگی اور وارفتگی کا بڑا سبب وہ عظیم رتبہ تھا جو اللہ تعالیٰ نے قرآن کے معلم اور متعلم کو وافر اجر کی صورت میں عطا فرمایا ہے۔جیساکہ حدیث مبارکہ ہے:

’’ إِنَّ أَفْضَلَكُمْ مَنْ تَعَلَّمَ القُرْآنَ وَعَلَّمَهُ۔ ‘‘ 

[ صحیح البخاری ،کتاب فضائل القرآن ، رقم:۵۰۲۸.] 

’’بلاشبہ تم میں سب سے بہترین وہ شخص ہے جو قرآن سیکھتا اور دوسروں کو اس کی تعلیم دیتا ہے۔‘‘

اور قرآن کریم کو اللہ تعالیٰ نے سات حروف پر نازل فرمایا اور اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ وہ اپنی امت کو سات حروف کے مطابق قرآن پڑھائیں۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حکم الٰہی کی پوری پوری تعمیل کی۔ حدیث مبارکہ ہے:

’’إن اللّٰه یأمر ک أن تقرئ أمتک القرآن علی سبعۃ أحرف فأَیُّمَا حَرْفٍ قَرَئُ وا عَلَیْہِ فَقَدْ أَصَابُوا۔‘‘

 [ صحیح مسلم ، کتاب الصلاۃ ، باب: أنزل القرآن علی سبعۃ أحرف ،رقم:۸۲۱، تحقیق:فؤاد محمد عبد الباقی؛ سنن أبی داؤدر،باب: أنزل القرآن علی سبعۃ أحرف، رقم:۴۱۷۸تحقیق: محمد محی الدین عبد الحمید ، دار الفکر.] 

’’بے شک اللہ تعالی ٰ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیتا ہے کہ اپنی امت کو سات حروف پر قرآن پڑھاؤ۔جس حرف پر بھی لوگ اسے پڑھیں گے، بلاشبہ وہ درست ہو گا۔‘‘

جبریل امین علیہ السلام جس طرح سات حروف پر قرآن لے کر نازل ہوتے ، حکم خداوندی کی تعمیل میں آپ صحابہ رضی اللہ عنہم کو بعینہ اسی طرح قرآن پڑھادیتے۔کسی کو ایک طرح سے اور کسی کو دوسری طرح سے پڑھاتے۔ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے درمیان قراء ات کے سلسلے میں جو اختلاف ہوا ،اس کی وجہ بھی یہی تھی کہ بعض نے ایک قراء ۃ کے مطابق قرآن سیکھا تھا تو بعض نے دو یا زائد قراء توں کے مطابق سیکھا تھا۔پھر جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم دور دراز علاقوں میں پھیل گئے تو ہر صحابی اپنے شاگردوں (تابعین) کو اور تابعین نے اپنے شاگردوں (تبع تابعین ) کو اسی قراء ۃ کے مطابق قرآن پڑھایا ،جس کے مطابق خود اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پڑھا تھا۔چنانچہ امام اندرابی فرماتے ہیں:

’’لم یحفظ عن رسول اللّٰه قراء ۃ مجردۃ علی وجہ واحد من أول القرآن إلی آخرہ لأنہ کان یقرئ ویقرأ بالوجوہ کلہا ، مرۃ علی ذا الوجہ ومرۃ علی ذلک۔ ‘‘

 [ الإیضاح فی القراء ات ، ابن أبی عمر الإندرابی، تحقیق: منی عدنان ، ص ۳۹۰.] 

’’ایسا نہیں ہے کہ کسی صحابی رضی اللہ عنہ نے شروع سے آخر تک پورے قرآن کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک ہی طریقہ کے مطابق حفظ کیا ہو ، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمام وجوہ ِ قراء ۃ کے مطابق قرآن پڑھتے اورپڑھاتے تھے۔کبھی ایک قراء ۃکے مطابق پڑھتے تو کبھی دوسری قراء ۃ کے مطابق پڑھتے۔ ‘‘

اور اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اپنی ساری توانائیاں صرف کرکے قراء ا ت کی مختلف وجوہ اور ان کی ادائیگی کی مختلف کیفیات کو اسی انداز میں ضبط اور محفوظ کر دیا جس طرح انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حاصل کیا تھا۔وہ اس سلسلہ میں کس قدر حساس اور حریص واقع ہوئے تھے ؟اس کا اندازہ عمرفاروق رضی اللہ عنہ اور ہشام بن حکیم رضی اللہ عنہ کے واقعہ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ان الفاظ سے کیا جا سکتا ہے:

’’ فَاسْتَمَعْتُ لِقِرَاءَتِهِ، فَإِذَا هُوَ يَقْرَؤُهَا عَلَى حُرُوفٍ كَثِيرَةٍ، لَمْ يُقْرِئْنِيهَا رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ۔ ‘‘

’’جب میں نے ان کی قراء ت پر غور کیا تو میں نے سنا کہ وہ متعدد ایسے حروف پر قراء ت کر رہے تھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے نہیں پڑھائے تھے۔‘‘

ان الفاظ میں اس حقیقت کی طرف واضح اشار ہ ہے کہ عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور ہشام بن حکیم رضی اللہ عنہ کو سورہ فرقان کا ایک ایک حرف اور اس کی ادائیگی کا طریقہ اسی طرح ازبر تھا جس طرح انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا۔چنانچہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں سے مختلف وجوہ ِقراء ۃ پر سورۃ فرقان سنی تو زبانِ نبوت صلی اللہ علیہ وسلم سے دونوں کی توثیق کرتے ہوئے فرمایا:

ہکذا أنزلت’’

ہاں اسی طرح نازل ہوا ہے۔‘‘ 

 صحیح البخاری ، کتاب الخصومات ، باب الخصوم بعضہم فی بعض ، رقم:۲۴۱۹.

 ۔ابن جزری نے اس حقیقت کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے

’’أقام أئمۃ ثقات تجردوا لتصحیحہ ، وبذلوا أنفسہم فی إتقانہ وتلقوہ من النبی حرفا حرفا ، لم یہملوا منہ حرکۃ ولا سکونا ولا إثباتا ولاحذفا ولادخل علیہم فی شئ منہ شک ولا وہم،وکان منہم من حفظہ کلہ ومنہم من حفظ أکثرہ ، ومنہم من حفظ بعضہ ، کل ذلک فی زمن النبی صلي اللّٰه عليه وسلم ‘‘ 

[ النشر فی القراء ات العشر ۱-۶ابن الجزری،شمس الدین أبو الخیر محمد بن محمد بن یوسف (ت۶۳۳ہـ) تصحیح ومراجعۃ: علی محمد الضباع،مکتبہ التجاریۃ الکبری ، مصر [تصویر دار الکتاب العلمیۃ] .]

 ’’اللہ تعالیٰ نے (صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ) ایسی معتبر اور ثقہ شخصیات کو کھڑا کیا جنہوں نے اپنے آپ کو قرآن کریم کی حرف بحرف درست قراء ۃ کے لئے وقف کر دیا۔اور اس فن میں مہارت کے لئے اپنی ساری کوششیں صرف کردیں۔انہوں ایک ایک حرف ، حرکت ، سکون ، اثبات اور حذف کو براہ راست رسول اللہ سے حاصل کرنے کا اہتمام کیا۔ انہیں قراء ات قرآنیہ پر اس قدر عبورتھاکہ کبھی اس سلسلہ میں انہیں کوئی وہم اور شک لاحق نہیں ہوا۔ان میں سے بعض وہ تھے ، جنہیں مکمل قرآن یاد تھا، بعض کو اکثراور بعض کو کچھ حصہ یاد تھا۔اور یہ سب کچھ دور ِرسالت میں وقوع پزیر ہوا۔‘‘

اور بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سبعہ احرف اور قراء ات ِقرآنیہ کے فن میں خاصی شہرت رکھتے تھے اور قرآن کے اکثر حصہ پر انہیں عبور حاصل تھا۔جیسا کہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

’’ لَقَدْ أَخَذْتُ مِنْ فِي رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِضْعًا وَسَبْعِينَ سُورَةً۔ ‘‘ 

[ صحیح البخاری ، کتاب جمع القرآن ، باب القراء من أصحاب النبی ، رقم:۵۰۰۰.] 

’’میں نے۷۰ سے زائدسورتیں براہ راست رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان اقدس سے حاصل کی تھیں۔‘‘

وہ مزید فرماتے ہیں:

’’وفات کے سال جبریل امین علیہ السلام نے دو دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن پیش کیا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کے دور سے فارغ ہوئے تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے قرآن پڑھنا شروع کیا۔ میں پڑھ رہا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم میری تحسین فرما رہے تھے۔ چنانچہ اگرکوئی شخص میری قراء ۃ کے مطابق پڑھے تو نفرت میں اسے ترک نہ کرے۔ اور اگر دیگر قراء ات میں سے کوئی قراء ۃ پڑھے تو بھی نفرت میں اسے ترک نہ کرے۔جس نے ایک آیت کا انکار کیا ، گویا اس نے تمام آیات کا انکار کردیا۔‘‘ 

[ تفسیر الطبری ۱-۲۸، المعجم الکبیر للطبرانی۱۰-۲۰۴، شعب الإیمان للبیہقی ۳-۵۳۴.] 

امام سخاوی نے ابو عبید قاسم بن سلام کے حوالہ سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے اپنی کتاب ’القراء ات ‘کے آغاز میں ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا ذکر کیا ہے جن سے کسی قدر وجوہ قراء ات نقل ہوئی ہیں، خواہ وہ ایک حرف ہے یا اس زیادہ ہیں۔ 

[ جمال القراء وکمال الإقراء ، ابو الحسن السخاوی ، ۵۱۵.] 

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بڑی محنت سے ان تمام قراء ات کو امت کے سامنے پیش کیا جو انہوں نے براہ راست رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حاصل کی تھیں اور اپنی زندگی قراء ات قرآنیہ کو پڑھانے کے لئے وقف کر دی۔ امام ذہبی نے سام بن مشکم کے حوالہ سے لکھا ہے کہ ابو الدرداء رضی اللہ عنہ نے مجھ سے کہا: ان لوگوں کو شمار کرو جو میرے پاس قرآن پڑھ رہے ہیں۔ میں نے گنا تو ان کی تعداد ۱۰۷۰ سے اوپر تھی اور دس طلباء کے لئے ایک قاری مقرر تھا۔امام ذہبی لکھتے ہیں:

’’یہ وہ ہستیاں تھیں جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں قرآن کریم حفظ کر لیا اور پھر ان سے آئندہ نسلوں نے براہ راست قرآن حاصل کیا۔ مشہور قراء ات کی اسانید انہیں کے گرد گھومتی ہیں۔‘‘ 

[ معرفۃ القراء الکبار للذہبی:۱-۲۰.] 


اسم الكتاب: 
حدیث سبعہ احرف کا عمومی جائزہ

مترجم: ڈاکٹر محمد اسلم صدیق