سن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا
سید تنظیم حسینمشہور شیعی مؤرخ امیر علی لکھتے ہیں:
اور علماء اور حکماء ان مسلمان فراعنہ کی حکومت کو پر رونق بنانے کے لئے ایشیاء اور اندلس سے بلائے جاتے تھے۔
(تاریخِ عرب: صفحہ، 614 A short Hidory of the Saracens)
امیر علی نے انگریزی زبان میں فاطمی خلفاء کے لئے Musim Pha raohs کے الفاظ استعمال کئے ہیں: فرعون کہنے سے اس طرف اشارہ ہے کہ فاطمی خلفاء نے اپنے آپ کو خدائی صفات سے متصف کر لیا تھا جس کا ذکر بابِ ہفتم میں کیا گیا ہے۔
ڈرچ عالم ڈی غویہ کہتا ہے de-Goeje:
عرب اور اسلام سے بڑی نفرت ہی وہ سبب تھا جس نے تیسری صدی کے نصف میں ایک شخص عبداللہ بن میمون نامی کو جو پیشے کی حیثیت سے قداح معالج چشم اور نسل کے اعتبار سے ایرانی تھا ایسی تجویز سجھائی جو بڑی دلیری اور چالاکی سے سوچی گئی اور غیر معمولی یقین اور قوت سے عمل میں لائی گئی۔
اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے ایسے ذریعے فراہم کئے گئے جو بجا طور پر یہ شیطانی کہے جاسکتے ہیں انسانی کمزوری کے ہر پہلو پر حملہ کیا گیا ایمان لانے والوں کو جان نثاری سکھلائی گئی بے پروا اشخاص کو صرف رخصت ہی نہیں بلکہ آزادی کی تعلیم دی گئی عقل مندوں کو فلسفہ بتایا گیا منصبوں کو آخرت کی امید میں دلائی گئیں اور عام لوگوں کو معجزے دکھائے گئے اسی طرح یہود کے سامنے ایک مسیح نصاریٰ کے روبرو ایک فارقلیط مسلمانوں کے ایک مہدی اور ایرانی اور شامی مشرکوں کے لئے ایک فلسفیانہ مذہبی نظام پیش کیا گیا یہ نظام ایک ایسے خاموش استقلال کے ساتھ پیش کیا گیا جو ہمارے لئے حیرت انگیز ہے اور اگر ہم اس کے مقصد کو بھول سکیں تو ہماری تحسین کا مستحق ہے۔
(تاریخِ فاطمیینِ مصر: حصہ، دوم صفحہ، 284، 285)
اسٹینلے لین پول کہتا ہے:
فاطمی حکومت کے دو صدیوں تک برقرار رہنے کا سبب نہ تو حکمرانوں کی قابلیت تھی اور نہ محکوموں کا اخلاص۔
(تاریخ فاطمینِ مصر: حصہ، دوم صفحہ، 286)
امیر علی ایک دوسری جگہ لکھتے ہیں:
اسماعیلیوں سے صلیبیوں نے یورپ میں مذہبی و غیر مذہبی خفیہ انجمنوں کے قیام کے لئے رہنمائی حاصل کی میں نہیں بلکہ بہت سی خفیہ انجمنوں کے نام لینے کے بعد کہتے ہیں:
ان سب انجمنوں کے ابتدائی خطوط قاہرہ یا الموت سے جا ملتے ہیں:
(The Spirit of Islam: page٫ 342)
ڈاکٹر زاہد علی لکھتے ہیں:
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مہدی اور اس کے بعد کے چند اماموں نے اسماعیلیت کو فروغ دینے کی کوشش تو بہت کی لیکن اس میں ناکام ہونے کے بعد دوبارہ اس کی طرف زیادہ توجہ نہیں کی صرف سیاسی قوت پر قانع رہے۔
بربر اور مصری شیعی حکومت سے راضی تو تھے لیکن خود شیعہ بنتا نہیں چاہتے تھے۔
ان واقعات کے لحاظ سے کوئی تعجب نہیں کہ مصر میں اسماعیلیت کبھی عام طور پر نہ پھیلی ہو صرف چند ہی افراد اپنے مذہب سے پوری طرح واقف ہوں۔ (تاریخ فاطمیینِ مصر: حصہ، دوم صفحہ، 301، 302) VATIKIOTIS اپنی کتاب کو ختم کرتے ہوئے لکھتا ہے:
آخر میں ہم اپنے ناظرین پر یہ تاثر چھوڑنا نہیں چاہتے کہ فاطمی اسماعیلیت ایک ایسے فرقہ کی حیثیت سے ابھری جس کے ٹھوس مذہبی عقائد تھے بلکہ ہم اس رائے سے اتفاق کرنے کو تیار ہیں کہ فاطمیوں کا جو بھی عقیدہ تھا وہ بعد میں وضع کیا گیا تھا اور وہ ہر صورت میں علویوں کی سیاسی مقاصد کے تحت تھا ہم اس الزام کو بھی مسترد نہیں کرتے کہ سیاسی تنخواہ دار اس تحریک میں ستم رسیدہ علویوں کی ہمدردی میں شامل نہیں ہوئے بلکہ ان کی شمولیت میں ان کے اپنے مقاصد تھے۔
(The Fatimid Theory of State page: 178)
Vatikiotis: نے اس سے پہلے باب میں کہا ہے فاطمی اسماعیلیہ چونکہ مہدی کے ظہور پر خوشگوار اور پر سکون مستقبل کا وعدہ پورا نہ کر سکی لہٰذا وہ ایک الہامی تحریک کی حیثیت سے ناکام ہو گئی۔
(The Fatimid Theory of State page:172)
اہل امریکہ کے جدید ترین تاثرات:
روزنامہ جنگ کے نامہ نگار نیر زیدی اپنے ہفتہ واری کالم میں امریکہ میں اسلامی تاریخ اور فنون لطیفہ کی تشہیر کے عنوان کے تحت لکھتے ہیں۔
(روزنامہ جنگ مؤرخہ 23 اکتوبر 1985ء صفحہ، 3)
کیوں کہ امریکی ذرائع ابلاغ تو صرف میں باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ اسلام صرف دہشت گرد پیدا کرتا ہے۔
اہلِ علم جانتے ہیں کہ اس تاثر کی بنیاد وہی ہے جس کا ذکر امیر علی نے اوپر کیا ہے یہ وہ عظیم خدمت ہے جو اسماعیلیہ نے اسلام کی کی جس پر ان کو ناز ہے:
(مرا خود کاشکے ماور نہ زادے)
نوٹ: خصوصی امور سے متعلق مغربی محققین و دیگر مصنفین کے تاثرات متعلقہ ابواب میں دیئے گئے ہیں۔