Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

فقیہ ملت حضرت علامہ مفتی جلال الدین احمد امجدی رحمۃ اللہ کا فتویٰ صدر شعبہ افتاء دارالعلوم اہل سنت فیض الرسول سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے گستاخوں سے بائیکاٹ کرنے اور ان سے تمام تعلقات منقطع رکھنے کا حکم


فقیہ ملت حضرت علامہ مفتی جلال الدین احمد امجدیؒ کا فتویٰ صدر شعبہ افتاء دارالعلوم اہلِ سنت فیض الرسول

سوال: زید کہتا ہے کہ سیدنا امیر معاویہؓ صحابی ہے اور بکر کہتا ہے کہ صحابی نہیں۔ ان کو کیا کہا جائے؟ تا کہ ایمان و عقیدہ خراب نہ ہو جائے۔

جواب: حضرت امیر معاویہؓ حضور اکرمﷺ کے جلیل الشان صحابی اور منشی ہیں۔ حدیث شریف کی 

مشہور کتاب مشکوۃ شریف ہے جس کے آخر میں محدث شیخ ولی الدین رازی عبداللہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے حدیث بیان کرنے والے چند صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی ایک مختصر فہرست شامل کی ہے، اس فہرست میں حرف الميم فصل کا پہلا حرف میم ہے۔ اس عنوان کے نیچے حضرت محدث ولی الدینؒ تحریر فرماتے ہیں کہ

سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ خاندانِ قریش قبیلہ بنی امیہ میں سے ہے، آپؓ اور آپؓ کے والد ماجد سیدنا ابوسفیانؓ فتح مکہ کے دن مسلمان ہو کر حضور اکرمﷺ کی غلامی میں داخل ہوئے، آپؓ بارگاہ رسالتﷺ کے منشی تھے۔ سیدنا عبداللہ ابنِ عباسؓ اور حضرت ابوسعیؓد نے آپؓ سے حضور اکرمﷺ کی حدیثیں سنی ہیں۔

اس حوالہ سے دن دوپہر کی طرح خوب واضح ہو گیا کہ حضرت امیر معاویہؓ حضور اکرمﷺ کے صحابی ہیں اور حضور اکرمﷺ کے دربار کے منشی بھی ہیں۔

حضرت عبداللہ ابنِ عباسؓ اور حضرت ابوسعیدؓ نے سیدنا امیر معاویؓہ کو صحابی رسول مان کر ان سے حضور اکرمﷺ کی حدیث سنی اور قبول کی۔

اللہ تعالیٰ جلّ شانہ قرآن مجید میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے متعلق اعلان فرماتا ہے

 وَكُلًّا وَّعَدَ اللّٰهُ الۡحُسۡنٰى‌ (سورۃ الحدید: آیت نمبر 10)

ترجمہ: یعنی اللہ تعالیٰ نے تمام صحابہ کرام سے جنت کا وعدہ فرما لیا ہے۔

حضور اکرمﷺ اپنے صحابیوں کے حقوق بیان کرنے کے سلسلے میں ارشاد فرماتے ہیں اذار ایتم الذين يسبون اصحابي فقولوا لعنة الله على شركم (اے مسلمانو!) جب تم اُن لوگوں کو دیکھو جو میرے صحابیوں کو بُرا کہتے ہیں تو اُن سے بر ملا کہہ دو تمہاری بد گوئی پر خدا تعالیٰ کی پھٹکار پڑے۔

یہ حقوق تو عام صحابیوں کے ہیں اور سیدنا امیر معاویہؓ تو ایک جلیل القدر فقیہ صحابی ہیں ان کے حقوق تو اور زیادہ ہیں۔ اور حضرت امیر معاویہؓ کے جلالت شان کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ 41 ہجری میں شہزادہ رسولﷺ، سیچنا حسنؓ نے ان کو سارے جہاں کے مسلمانوں کا خلیفہ اور حاکم اعلیٰ بنایا اور خود ان کے دست حق پرست پر بیعت فرمائی اور شہزادہ اصغر حسینؓ نے سیدنا امیر معاویہؓ کا خلیفہ ہونا ان کی زندگی بھر تسلیم فرمایا۔

اب اس کے بعد جو شخص امیر معاویؓ رضی اللہ عنہ کی شان میں گستاخی کرے یا آپ کی خلافت کو حق نہ مانے وہ سیدنا حسنؓ اور سیدنا حسینؓ کا کھلا دشمن اور باغی قرار پائے گا۔ ہندوستان اور پاکستان کے تمام سنی مسلمانوں کی مستند کتاب بہار شریعت میں ہے کہ

تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اہلِ خیر و صلاح ہیں اور عادل ہیں۔ ان کا جب ذکر کیا جائے تو خیر ہی کے ساتھ کیا جائے کسی صحابیؓ کے ساتھ سوئے عقیدت (برا گمان) اگرچہ چاروں خلفاء (سیدنا صدیق اکبرؓ سیدنا فاروق اعظمؓ، سیدنا عثمانؓ غنی، سیدنا علی المرتضیٰؓ) کو مانے اور اپنے کو سنی کہے مثلاً سیدنا امیر معاویہؓ اوران کے والد ماجد حضرت ابوسفیانؓ اور آپؓ کی والدہ ماجدہ حضرت ہندہؓ اسی طرح حضرت عمرو بن عاصؓ، حضرت مغیرہ بن شعبؓہ حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ ان میں سے کسی کی شان میں گستاخی، تبرا ہے اور اس کا قائل رافضی (شیعہ) ہے۔

حاصل گفتگو یہ ہے کہ زید کی بات حق ہے اور بکر کی بات جھوٹی اور باطل ہے، پھر چونکہ سیدنا امیر معاویہؓ کے صحابی ہونے سے انکار کرنا یہ ان کے حق میں توہین اور گستاخی ہے اور بکر سے یہ گستاخی ہوئی ہے۔

لہٰذا بکر کو یہ فتویٰ دکھا کر اُس کو توبہ کرایا جائے اور اگر (معاذ اللہ) بکر کے سر پر گمراہی اور رافضیت کا بھوت سوار ہو گیا ہو اور سمجھانے پر وہ نہ مانے تو جامع مسجد میں اعلان کر دیا جائے کہ بکر سنی نہیں رہ گیا وہ شہزادہ رسولﷺ حضرت حسینؓ کا دشمن ہو گیا ہے۔ اعلان کے بعد مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ بکر کا بائیکاٹ کر دیں اور اس سے تمام تعلقات اُس وقت تک منقطع رکھیں جب تک وہ توبہ کر کے سنی مسلمان نہ ہو جائے۔

مسلمانوں کو سخت ہدایت کی جاتی ہے کہ اگر وہ اپنے دین و ایمان کا بھلا چاہیں تو شمع نیازی مرتد اور راشد الخیری رافضی گمراہ کی کتابیں ہرگز ہرگز نہ پڑھیں ورنہ شیطان مردو ان کے ایمان اور عقیدہ کو برباد کر کے جہنم میں دھکیل دے گا۔

(فتاویٰ فیض الرسول: جلد، 1 صفحہ، 78)