تعزیہ داری کیلئے اہتمام خاص کرنا اور اس کے انتظام کیلئے لوگوں سے چندہ لینا اور دینا، اور ایسے لوگوں سے سلوک رکھنا
سوال1: تعزیہ داری جو مسلمانوں میں رائج ہے اس کیلئے اہتمام خاص کرنا اور اس کے انتظام کیلئے لوگوں
سے چندہ لینا اور دینا جائز ہے یا نہیں؟ اگر نہیں تو کیوں؟
2: ہمارے گاؤں میں لوگ برسوں سے تعزیہ داری کی رسم انجام دیتے آرہے ہے۔ از روئے شرع جیسا کہ فقیہ ملت وغیرہ کی کتابوں سے ظاہر ہے کہ جب انہیں اس امر سے روکا جاتا ہے تو وہ کہہ دیتے ہیں کہ آج کل کے نئے نئے پڑھے ہوئے مفتی لوگ اپنے گھر سے نیا نیا مسئلہ نکالتے ہیں، پہلے کوئی نہیں منع کرتا تھا، ہم لوگ بابائے آدم علیہ السلام سے کرتے آرہے ہیں، اور کریں گے۔ ایسا کہنا از روئے شرع کیسا ہے؟ قائل کے ساتھ کیسا سلوک کرنا چاہیے؟
جواب1: مروجہ تعزیہ داری کیلئے اہتمام خاص کرنا ناجائز و گناہ ہے۔ سراج الہند حضرت مولانا شاہ
عبد العزیز محدث دہلویؒ تحریر فرماتے ہیں تعزیہ داری عشرہ محرم و ساختن ضرائح و صورت و غیره درست نیست یعنی عشرہ محرم میں تعزیہ اور قبر و صورت وغیرہ بنانا جائز نہیں۔
پھر چند سطر کے بعد تحریر فرماتے ہیں تعزیہ داری کہ ہمچون مبتدعان می کنند بدعت است و همچنین ضرائح و صورت و علم و غیره ایی ہم بدعت است و ظاهر است که بدعت سیئه است تعزیه داری جیسا که بد مذہب کرتے ہیں بدعت ہیں اور ایسے ہی تابوت، قبروں کی صورت اور علم وغیرہ یہ بھی بدعت ہے، اور ظاہر ہے کہ بدعت سئیہ ہے۔
اعلیٰ حضرت تحریر فرماتے ہیں کہ تعزیہ رانجه مجمع بدعات سیئہ ہے، اس کا دیکھنا، بنانا جائز نہیں اور تعظیم و عقیدت سخت حرام و اشد بدعت ہے۔ اور اس کے انتظام کیلئے لوگوں سے چندہ لینا اور دینا بھی جائز نہیں، اس لیے کہ یہ گناہ ہے اور گناہ پر مدد حرام ہے۔ اور تعزیہ داری میں کسی قسم کی امداد جائز نہیں قال الله تعالى وَلَا تَعَاوَنُوۡا عَلَى الۡاِثۡمِ وَالۡعُدۡوَانِ
(سورۃ المائدہ: آیت نمبر، 2)
حضرت مولانا شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ تحریر فرماتے ہیں کہ یہ بھی جائز نہیں ہے، اس لیے کہ یہ گناہ پر مدد ہے اور گناہ پر مدد ناجائز ہے۔
2: تعزیہ داری سے روکنے پر لوگوں کا کہنا سراسر ان کی جہالت، علماء پر الزام تراشی اور علماء کی توہین ہے کہ آج کل نئے نئے مفتی اپنے اپنے گھر سے نیا نیا مسئلہ نکالتے ہیں، پہلے نہیں کوئی منع کرتا تھا۔ اس لیے کہ علمائے کرام و مفتیان عظام ہمیشہ اسے ناجائز و بدعت کہتے رہے اور تعزیہ داری سے منع فرماتے رہے، جیسا کہ جواب نمبر 1 میں پیشوایان اہلِ سنت حضرت مولانا شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ اور اعلیٰ حضرت کے فتاویٰ سے واضح ہے۔
اور یہ کہنا کہ لوگ بابا حضرت آدم علیہ السلام سے کرتے آرہے ہیں، اور کریں گے سخت بُرا ہے کہ یہ بولی مسلمانوں کی نہیں ہے بلکہ یہود و نصارٰی کی بولی ہے کہ وہ بھی ایسا ہی کہتے تھے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ جلّ شانہ کا ارشاد ہے:
وَاِذَا قِيۡلَ لَهُمۡ تَعَالَوۡا اِلٰى مَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰهُ وَاِلَى الرَّسُوۡلِ قَالُوۡا حَسۡبُنَا مَا وَجَدۡنَا عَلَيۡهِ اٰبَآءَنَا ؕ اَوَلَوۡ كَانَ اٰبَآؤُهُمۡ لَا يَعۡلَمُوۡنَ شَيۡـئًـا وَّلَا يَهۡتَدُوۡنَ۞(سورۃ المائدہ: آیت نمبر، 104)
ترجمہ: یعنی جب ان سے کہا جائے آؤ اس کی طرف جو اللہ تعالیٰ نے اُتارا اور رسول کی طرف، کہتے ہیں ہمیں وہ بہت ہیں جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا، اگرچہ ان کے باپ دادا نہ کچھ جانیں اور نہ راہ پر ہوں۔
حضرت صدر الشریعہ تحریر فرماتے ہیں کہ کفار کے میلوں میں شریک ہو کر ان کے میلے اور جلوس مذہبی کی شان و شوکت بڑھانا کفر ہے۔
لہٰذا ان لوگوں پر لازم ہے کہ توبہ واستغفار کریں اور تعزیہ داری نہ کرنے نیز علماء کی توہین نہ کرنے کا عہد کریں، اگر وہ ایسا نہ کریں تو مسلمان اُن سے دُور رہیں اُن کو اپنے سے دور رکھیں۔
(فتاویٰ فقیہ ملت: جلد، 1 صفحہ، 62)