نماز تراویح ایک مستقل نماز
طارق انور مصباحینماز تراویح ایک مستقل نماز
حضور اقدس تاجدار کائنات صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ہر شب صلواۃ اللیل ، نماز وتر اور نماز تہجد ادا فرماتے ۔ ان میں سے کوئی نماز ،نماز تراویح نہیں ۔ان مذکورہ نمازوں سے متعلق روایات و احادیث کو کچھ لوگوں نے تراویح پر محمول کر دیا ہے، جب کہ تراویح ، ماہ رمضان کی مخصوص نماز کا نام ہے ۔ جو نماز میں سال بھر پڑھی جاتی ہیں ، وہ تراویح کیسے ہوسکتی ہیں ۔
ع بریں عقل و دانش بباید گریست
(۱) امام ابوالولید الباجی مالکی (۴۰۳ھ-۴۷۴ھ ) نے رقم فرمایا:
قيـام رمضان يجب ان يكون صلاة تختص به ولو كان شائعا في جميع العام لما اختص به ولا انتسب اليه كما لا تنتسب اليه الفرائض والنوافل التي تصلي في غيره على حسب ما تفعل فيه)
(المنتفی شرح الموطاج ۱ص۲۶۳)
(ت) قیام رمضان (نماز تراویح) ضروری ہے کہ ایک ایسی نماز ہو جو رمضان کے ساتھ خاص ہو، اور اگر وہ سال بھر پڑھی جاتی ہو تو وہ رمضان کے ساتھ خاص نہیں ہوگی ، اور نہ ہی رمضان کی طرف منسوب ہوگی جیسا کہ وہ فرائض و نوافل نمازیں رمضان کی طرف منسوب نہیں ہوتی ہیں جو غیر رمضان میں پڑھی جاتی ہیں ،جیسا کہ وہ رمضان میں پڑھی جاتی ہیں ۔
توضیح: وہ فرائض ونوافل جو رمضان و غیر رمضان ، ہر ماہ میں یعنی سال بھر پڑھی جاتی ہیں، وہ رمضان کی طرف منسوب نہیں ہوتی ہیں ، جیسے نماز پنج گانہ اور نماز تہجد واشراق و چاشت وغیرہ ۔اب جو نماز رمضان کی طرف منسوب ہوگی ، وہ خاص رمضان میں پڑھی جائے گی ، اور یہ نماز تراویح ہے، جو رمضان میں ادا کی جاتی ہے اور غیر رمضان میں نہیں ادا کی جاتی ۔ اسی طرح نماز جمعہ اور نماز عیدین خاص نمازیں ہیں ۔ ہر دن یہ نمازیں ادا نہیں کی جاتیں ۔
(۲) شیخ الاسلام ابوز کریا انصاری شافعی (۸۲۳ھ۔۹۲۶ھ) نے تحریر فرمایا:
{وامـا خبرماكان يزيد رسول الله صلى الله عليه وسلم في رمضان ولا غيره على احدى عشرة ركعة فمحمول على الوتر}
(الغررالبہیۃ شرح المنظومة البہجۃ الوردیہ ج ۲ص۴۰۵ )
(ت) لیکن حدیث ما کان یزید: الحدیث‘‘ تو یہ حدیث وتر پر محمول ہے ۔
(۳) عـن ابـن عبـاس قـال: لما نزلت اول المزمل، كانوا يقومون نخوا من قيامهم في شهر رمضان حتى نزل اخرها وكان بين أولها واخرها سنة
( سنن ابی داؤد ۱۸۵- السنن الکبری للبیھقی ج ۴ ص ۶۸ )
(ت) حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہا نے فرمایا کہ جب سورہ مزمل کی اولین آیات نازل ہوئیں ( جن میں قیام اللیل کا حکم ہے) تو صحابہ کرام، ماہ رمضان میں اپنے قیام کی طرح (اس وقت ) قیام کرتے تھے، یہاں تک کہ سورہ مزمل کی آخری آیت نازل ہوئی (جس میں قیام لیل کا منسوخ ہونا مذکور ہے) اور اس کی اولین آیات اور آخری آیت کے نزول کے درمیان ایک سال ( کا فاصلہ تھا۔
توضیح: مذکورہ بالا روایت بتارہی ہے کہ سال بھر جو نوافل ادا کی جاتی تھیں ، اس سے زائد نوافل رمضان میں ادا کی جاتی تھیں ،جیسا کہ قیام اللیل کی فرضیت کے عہد میں قریباً پوری رات صحابہ کرام عبادت الہی میں مشغول رہتے ۔اسی طرح رمضان کی راتوں میں مشغول عبادت رہتے ۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ صلوۃ التراویح،نوافل دائمہ معتادہ کے علاوہ ہے۔
قیام اللیل کی فرضیت کے عہد میں صحابہ کرام کی عبادت کے تعلق سے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا کا بیان مندرجہ ذیل ہے ۔
عن سعد بن هشام قال قلت لعائشة رضي الله عنها حدثيني عن قيام الـلـيـل قـالـث:الست تقرء يا أيها المزمل-قال، قلت : بلى-قالت: فإنّ أول هذه السورة نزلت فقام أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم حتی إنتفخت أقدامهـم وحبس خاتمتها في السماء إثنتي عشرة شهرا ثم نزل أخرها فصار قيام الليل تطوعا بعد فريضة-الحديث
( سنن ابی داؤد ص ۱۹۰ صحیح مسلم ج ۱ص۲۵۶ -سنن نسائی ج۱ص۱۸۲)
(ت) حضرت سعد بن ہشام رضی اللہ تعالی عنہ نے بیان کیا کہ میں نے حضرت ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے عرض کیا کہ آپ مجھے قیام الیل کے بارے میں بتائے تو انھوں نے فرمایا کہ کیا تم ((يا ايها المزمل ) ) نہیں پڑھتے ہو؟ میں نے عرض کیا : کیوں نہیں ،تو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے فرمایا کہ اس سورہ کی اولین آیات نازل ہوئیں تو حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے صحابہ نے قیام لیل فرمایا ، یہاں تک کہ ان کے قدموں میں سوجن آ گئی اور اس کی آخری آیت آسمان میں بارہ مہینے روک لی گئی ، پھر اس کی آخری آیت نازل ہوئی تو قیام اللیل فرض ہونے کے بعد نفل ہو گیا۔
توضیح: قیام لیل کی فرضیت ثابت کر نے والی سورہ مزمل کی آیات منقوشہ ذیل ہیں :
يأيها المزمل : :قم الليل إلا قليلا :: نطفة أو انقص منه قليلا::
أو زد عليه ورتل القرآن ترتيلا}
( سورہ مزمل : آیت ۱ تا۴ )
ترجمہ: اے جھرمٹ مار نے والے! رات میں قیام فرما سوا کچھ رات کے۔ آدھی رات یا اس سے کچھ کم کرو، یا اس پر کچھ بڑھاؤ ، اور قرآن خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھو۔ ( کنز الایمان )
مرقومہ بالا آیات میں قیام لیل کی فرضیت کا ذکر ہے ۔اس کے بعد تخفیف ہوئی تخفیف کے بعد نماز پنج گانہ کی فرضیت سے قیام لیل مکمل منسوخ ہوگئی تخفیف کا حکم اس فرمان میں ہے ۔
فاقرء وا ما تيسر منه
( سورہ مزمل: آیت۲۰ )
( تو جتنا قرآن میسر ہو، پڑھو )
نماز پنج گانہ کی فرضیت کے بعد قیام لیل کی فرضیت ختم ہوگئی ۔حافظ عسقلانی نے رقم کیا :
حكى الشافعي عن بعض اهل العلم ان آخر السورة نسخ افتراض قيام الـلـيـل،الا مـا تـيـسـر مـنـه لـقـوله: (فاقرء وا ماتيسر منه ثم نسخ فرض ذلك
بالصلوات الخمس}
(فتح الباری ج ۴ ص ۱۲۴)
(ت) حضرت امام شافعی رضی اللہ تعالی عنہ (۱۵۰ھ۔ ۲۰۴ھ) نے بعض اہل علم سے حکایت بیان فرمائی کہ سورہ مزمل کے آخری حصے نے ( طویل ) قیام لیل کی فرضیت کو منسوخ کر دیا ،مگر جتنا قیام ہو سکے ،رب تعالی کے فرمان کے سبب ( پس جتنا میسر ہو ، پڑھو ) پھر اس مختصر قیام کی فرضیت نماز پنج گانہ کے سبب منسوخ ہوگئی۔