Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

مسلمانوں کے مساجد میں کفار کے آنے جانے کی ممانعت


مسلمانوں کے مساجد میں کفار کے آنے جانے کی ممانعت

کفار کا مسلمانوں کے مسجدوں میں آنا جانا، تو یہ اس کے بھی مجاز نہیں۔ ان کا یہ تعاہد ان کے مسلمان ہونے کا گمان پیدا کرتا ہے۔ مسلمان مامور ہیں کہ مسجد میں عام آنے جانے والے کو مسلمان سمجھیں، جس طرح یہ (کفار) مسجد بنانے کے اہل نہیں، انہیں مسجدوں میں عام داخلے کی بھی اجازت نہیں۔ 

حافظ ابوبکر جصاصؒ لکھتے ہیں کہ: مسجد کو آباد کرنا دو طرح سے ہیں۔ اس میں آنا جانا اور اس میں رہنا، اور دوسرا اسے بنانا اور اس کی مرمت وغیرہ کرنا۔ یہ آیت تقاضا کرتی ہے کہ کافروں کو مسجدوں میں داخل ہونے، بنانے، ان کے اُمور میں متولّی ہونے اور وہاں ٹھہرنے سے روکا جائے، کیونکہ آباد کرنا (عمارت کا) لفظ دونوں باتوں کو شامل ہے۔ 

تمام مساجد کا قبلہ مسجدِ حرام ہے، وہاں مشرکوں کو داخلے کی اجازت نہیں، یہ حکم گو خاص ہے، لیکن اس سے بھی انکار نہیں ہو سکتا کہ فروع اپنی اصل سے کلیتہً خالی بھی نہیں ہوتیں۔

علامہ ابوبکر محمد بن عبداللّٰہ المعروف بابن العربیؒ لکھتے ہیں کہ: اللّٰہ تعالیٰ جل شانہ نے مشرکین کو مسجدِ حرام میں داخل ہونے سے روکا ہے۔ اور دوسری تمام مساجد میں داخل ہونے سے اس طرح روکا ہے کہ روکنے کی علت بیان کر دی، اور وہ انہیں نجاست سے بچانا ہے کہ مسجد ہر ناپاکی سے بچانا واجب ہے، اور یہ سب بات ظاہر ہے، اس میں کوئی خفا نہیں۔

اسلامی ملک میں آباد اہلِ ذمہ مسجد میں داخل ہونا چاہیں تو امام شافعیؒ اور امام مالکؒ کے نزدیک انہیں مسلمانوں کی اجازت کے بغیر اس میں داخل ہونے کی اجازت نہیں۔ اگر کوئی غیر مسلم مسلمانوں سے پوچھے بغیر مسجد میں داخل ہو جائے تو حاکم شرع اسے تعزیر (سزا) دے سکتا ہے۔ 

علامہ محمد بن عبداللّٰہ الزرکشیؒ لکھتے ہیں کہ: اگر کوئی غیر مسلم بغیر اجازت کے مسجد میں داخل ہو جائے تو اسے تعزیر دی جا سکتی ہے۔ مگر یہ کہ وہ اس سے بے خبر ہو کر مسجد میں داخل ہونا مسلمانوں کی اجازت پر موقوف تھا، اس صورت میں اسے معذور سمجھا جا سکتا ہے۔