Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں لوگ بیس رکعتیں رمضان میں پڑھتے تھے۔۔۔ وسندہ صحیح (مولانا غلام مصطفیٰ ظہیر امن پوری)

  محسن اقبال

تمام مسلمانوں کو السلامُ علیکم
لو جی! یہ ہیں مولانا غلام مصطفیٰ ظہیر امن پوری صاحب۔
اپنے مختصر رسالہ رکعات تراویح میں کہتے ہیں کہ سائب بن یزید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں لوگ بیس رکعتیں رمضان میں پڑھتے تھے۔۔۔ وسندہ صحیح ۔۔۔

تو امن پوری صاحب نے تسلیم کیا کہ اس روایت کی سند صحیح ہے۔

آگے لکھتے ہیں کہ یہ بیس رکعت پڑھنے والے لوگ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نہیں بلکہ کوئی اور لوگ تھے یعنی غیر معروف تھے۔۔۔۔

اسی روایت کے نیچے لکھتے ہیں کہ سائب بن یزید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم (یعنی صحابہ کرام ) عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں گیارہ رکعت تراویح بمع وتر پڑھتے تھے۔۔

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے خلاف دوسرے لوگوں کا قول حجت نہیں اور وہ لوگ غیر معروف تھے۔۔۔۔۔

عجیب بات ہے کہ امن پوری کے نزدیک جب سائب بن یزید رضی اللہ عنہ بیس رکعت کا ذکر کرتے ہیں تو پڑھنے والے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نہیں بلکہ غیر معروف لوگ بن جاتے ہیں اور جب یہی سائب بن یزید گیارہ رکعت کا زکر کرتے ہیں تو پڑھنے والے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بن جاتے ہیں۔۔۔۔

تو امن پوری کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے دور میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو گیارہ رکعت تراویح پر جمع کیا اور غیر معروف لوگوں کو بیس رکعت تراویح پر جمع کیا۔۔۔۔

اب سوال تو یہ بنتا ہے کہ جب بیس رکعت تراویح پر عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو جمع کیا تو وہ بیس رکعت پڑھنے والے لوگ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نہیں تو اور کون لوگ تھے؟؟
بقول امن پوری کہ ان غیر معروف لوگوں نے اعتراض نہیں کیا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو تو گیارہ ہر جمع کر دیا اور ہمیں بیس ہر جمع کر دیا؟؟؟

پھر اس جہالت کا مطلب یہ بھی نکلتا ہے کہ  جب گیارہ رکعت تراویح صحابہ کرام کو الگ پڑھائی جاتی تھیں اور بیس رکعت دوسرے لوگوں کو الگ پڑھائی جاتی تھی ۔۔۔

اب امن پوری کے اس تضاد کو کیا نام دیا جائے؟؟؟

بہرحال اتنا تو امن پوری نے مان لیا کہ بیس رکعت تراویح کی سائب بن یزید رضی اللہ عنہ کی روایت صحیح سند سے ثابت ہے۔۔۔

غلامِ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم
محسن اقبال