اذان کے بارے میں چند گزارشات یہ ہیں
اذان کے بارے میں چند گزارشات یہ ہیں
قران کریم کی تین آیات میں نماز کے لیے بلاوے کا ذکر ہے:
(1) يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَـتَّخِذُوا الَّذِيۡنَ اتَّخَذُوۡا دِيۡنَكُمۡ هُزُوًا وَّلَعِبًا مِّنَ الَّذِيۡنَ اُوۡتُوا الۡكِتٰبَ مِنۡ قَبۡلِكُمۡ وَالۡـكُفَّارَ اَوۡلِيَآءَ ۚ وَاتَّقُوا اللّٰهَ اِنۡ كُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِيۡنَ،
وَ اِذَا نَادَيۡتُمۡ اِلَى الصَّلٰوةِ اتَّخَذُوۡهَا هُزُوًا وَّلَعِبًا:
(2) يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِىَ لِلصَّلٰوةِ مِنۡ يَّوۡمِ الۡجُمُعَةِ فَاسۡعَوۡا اِلٰى ذِكۡرِ اللّٰهِ :
(3) وَمَنۡ اَحۡسَنُ قَوۡلًا مِّمَّنۡ دَعَاۤ اِلَى اللّٰهِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَّقَالَ اِنَّنِىۡ مِنَ الۡمُسۡلِمِيۡنَ:
ان تینوں آیتوں میں اذان کے بارے میں ایمان والوں کو مخاطب کیا گیا ہے، پہلی اور تیسری آیات میں ابتداء میں يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا: کا ذکر ہے، دوسری آیت کے اخر میں اذان دینے والے کے مسلمان ہونے کا ذکر اِنَّنِىۡ مِنَ الۡمُسۡلِمِيۡنَ: کے الفاظ مذکور ہے۔
قرآن کریم کی آیات سے معلوم ہوا کہ نماز کے لئے اذان دینا مسلمانوں کے ساتھ خاص ہے، قرآن کریم اور احادیث مبارکہ میں کہیں ایک ایسا واقعہ نہیں ملتا، جس میں نماز کے لئے اذان کسی غیر مسلم نے دی ہو، پس اس میں کوئی شک نہیں کہ اذان شعائر اسلام میں سے ہے۔
سیدنا انسؓ فرماتے ہیں کہ: آنحضرتﷺ جب کسی قوم پر چڑھائی کرتے تو، رات کے پچھلے حصے میں اذان کی طرف توجہ رکھتے، اگر اذان سن لیتے تو ان پر حملہ نہ کرتے، ورنہ غزا جاری رکھتے، صحیح بخاری شریف میں ہے۔ فان سمع اذانا كف عنهم: وان لم يسمع اذانا اغار عليهم:
اس سے پتہ چلا کہ اذان وہاں کے لوگوں کا امتیازی نشان ہے، جہاں اذان سنی جائے گی، وہیں کہ لوگوں کو مسلمان سمجھا جائے گا۔ اب اگر غیر مسلم کو بھی اذان دینے کی اجازت ہو تو اذان سنتے ہی جنگ سے رک جانا اور ہتھیار پیچھے کر لینا اس پر عمل کیسے ہو سکے گا……؟ قادیانیوں (اور شیعوں) کو اذان کی اجازت دینے سے اس قسم کی احادیث عملاً معطل ہو کر رہ جائیں گی۔