اذان، علامتِ اسلام میں سے ہے
اذان، علامتِ اسلام میں سے ہے
علامہ ابن ہمام الحنفیؒ لکھتے ہیں کہ: اذان دین اسلام کی علامات میں سے ہے۔ علامہ ابن نجیمؒ بھی لکھتے ہے۔ الاذان من اعلام الدين: فقہ حنفی کی تعلیم بھی یہی ہے کہ کافر اذان نہ دے۔
علامہ شامیؒ لکھتے ہیں کہ: فاسق کی اذان معتبر ہے، اگر اس سے صحیح اطلاع نہ ہو پائے، یعنی نماز کا وقت ہو جانے میں اس کے قول پر اعتماد نہ ٹھہرے، لیکن کافر کی اذان اور غیر عاقل کی اذان بالکل ہو نہیں پاتی (یعنی وہ اذان نہیں ہے)۔
فقہ شافعی میں بھی مسئلہ اسی طرح ہے کہ: مسلم عاقل کے سوا کسی کی اذان معتبر نہیں، کافر اور پاگل کی اذان معتبر نہیں، کیونکہ یہ دونوں عبادت کے اہل ہی نہیں۔
سورہ جمعہ کی آیت يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِىَ لِلصَّلٰوةِ مِنۡ يَّوۡمِ الۡجُمُعَةِ فَاسۡعَوۡا اِلٰى ذِكۡرِ اللّٰهِ: میں لفظ :نُوۡدِىَ: مجہول کا صیغہ ہے، جس کا فاعل مذکور نہیں۔ آیت کا حاصل یہ ہے کہ: اے ایمان والو! جمعہ کے دن جب بھی نماز کے لئے تمہیں آواز دی جائے تو تم نماز کے لئے دوڑ کر آؤ۔
پس اگر غیر مسلموں کی بھی اذانیں ہوں اور ان کی بھی مسجدیں ہوں، اور مسلمانوں پر اذان سنتے ہی ادھر آنا ضروری ٹھہرے، کیونکہ یہاں :نودی: کا فاعل مذکور نہیں، اور اس طرح مسلمانوں کی نمازیں ضائع ہونے کے مواقع عام ہوں، تو کیا اس کی وجہ یہ نہیں کہ غیر مسلموں کو اذان دینے کا اصولاً حق نہ تھا، اور اگر مسلمان ان کے نداؤں پر حاضر نہ ہوں تو اس طرح کیا یہ آیت اپنے عموم میں عملاً معطل ہو کر نہ رہ جائے گی……؟
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اذان مسلمانوں کا شعار ہے، اور اس میں کسی مذہب کو شریک ہونے کی اجازت نہیں دی جا سکتی، ورنہ یہ شعار اسلام نہ رہے گا۔
فتاویٰ قاضی خان میں ہے کہ: اذان فرض نماز باجماعت پڑھنے کے لئے سنت ہے، یہ سنت اور اجماعِ اُمت سے ثابت ہے، اور یہ بے شک شعائر اسلام میں سے ہے۔ اگر کسی شہر یا قصبے یا محلے کے لوگ اذان کہنا چھوڑ دیں تو امام انہیں مجبور کر کے اذان جاری کرائے گا، پھر بھی نہ کریں تو ان سے جہاد کرے گا۔
فقہاءؒ نے تو اس بات کی بھی اجازت نہیں دی کہ جہاں اذان ہوتی ہو، وہاں ذمی لوگ برسر عام ناقوس بجائیں اور مسلمانوں سے ایک طرح کا ٹکراؤ ہو، بلکہ انہیں ان کی عبادت گاہوں کے اندر محدود کیا گیا ہے۔ تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ مسلمانوں کی اذانوں کے مقابلے میں غیر مسلم اپنی اذانیں دیں اور مسلمانوں کے لئے التباس پیدا کریں……؟
امام ابو حنیفہؒ کے شاگرد امام محمدؒ لکھتے ہیں کہ: اہلِ ذمہ کو اگر وہ ناقوس اپنے پرانے عبادت خانوں کے اندر ہی بجائیں اس سے روکا نہ جائے گا اگر وہ باہر ناقوس بجانا چاہیں تو انہیں ایسا کرنے نہ دیے جائے گا، کیونکہ اس میں ظاہراً ان کا اذان سے معارضہ ہو گا۔
اب اس سے زیادہ مسلمانوں کی مظلومی کیا ہو گی کہ خود، دارالاسلام (پاکستان) میں شعائر اسلام خالصاً مسلمانوں کا نشان نہ رہیں، اور غیر مسلم گروہ مسلمانوں کے ان شعائر میں شریک رہے۔ غیر مسلم قادیانی (اور شیعہ) مسلمانوں کو کافر کہیں اور ان کے شعائر میں التباس پیدا کریں اور خود انہی شعائر کو اپنائیں، اس سے بڑھ کر ان شعائر اسلام کی اور کیا بےحرمتی ہو گی؟ پس لازم ہے کہ اسلامی سلطنت میں مسلمان سربراہ شعائر اسلام کی پوری حفاظت کرے۔