Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

تعزیہ داری اور روضہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ بنانے کا شرعی حکم


سوال: زید کہتا ہے کہ ہندوستان میں جس طرح تعزیہ داری کا عام رواج ہے کہ سیدنا حسینؓ کے روضے کے نام پر مندر کی شکل بناتے ہیں اور اس کو رکھ کر ڈھول وغیرہ بجاتے ہیں یہ ناجائز ہے۔ بکر کہتا ہے کہ ڈھول تاشہ وغیرہ بجانا جائز ہے۔ تعزیہ داری کو ناجائز اور مندر کی شکل بنانے والا سنی نہیں ہے، بد دین ہے۔ تو ان میں کون حق پر ہے؟

جواب: زید حق پر ہے۔ بیشک ہندوستان میں مروجہ تعزیہ داری نا جائز و حرام ہے۔ اور بیشک عام طور پر تعزیہ دار حضرت حسینؓ کے روضہ کا نقشہ نہیں بناتے بلکہ مندر کی شکل کا ڈھانچہ بنا کر اس کو اپنی بیوقوفی سے حسین رضی اللہ عنہ کے روضہ کا نقشہ سمجھتے ہیں اور بیشک ڈھول وغیرہ جیسا کہ محرم میں عموماً بجاتے ہیں حرام و ناجائز ہے۔

اور بکر جاہل گنوار ہے جو ہندوستان کی مروجہ تعزیہ داری اور ڈھول تاشہ وغیرہ بجانے کو جائز سمجھتا ہے۔اور اگر اس نے واقعی مروجہ تعزیہ داری کو ناجائز بتانے والے کو غیر سنی اور بد دین کہا تو اس پر توبہ لازم ہے کہ علمائے اہلِ سنت نے مروجہ تعزیہ داری کو ناجائز قرار دیا ہے۔

یہاں تک کہ اعلیٰ حضرت نے اپنے رسالہ تعزیہ داری میں ہندوستان کی مروجہ تعزیہ داری کو ناجائز و حرام و بدعت سیئہ لکھا ہے۔اور حضرت مولانا شاہ عبدالعزیز محدث دہلوؒی اپنے فتاویٰ عزیزی میں تحریر فرماتے ہیں کہ:

تعزیہ داری ہم چون مبتدعان کنند بدعت است و هم چنین ساختن ضرائح وصورت وقبور وعلم وغیرہ ایس همه بدعت است و ظاهر است که بدعت حسنه که در ان ماخوذ باشد نیست بلکه بدعت سئیہ است.

اور حافظ ملت حضرت شاہ عبدالعزیز مراد آبادیؒ تحریر فرماتے ہیں کہ مروجہ تعزیہ داری ڈھول تاشہ باجا وغیرہ

یزیدیوں کی نقل اور رافضیوں کا طریقہ ہے، یہ ناجائز و حرام ہے۔

(فتاویٰ فیض الرسول: جلد، 1 صفحہ، 247)