مروجہ تعزیہ داری اور اس میں شرکت کرنے اور اس کی تائید کرنے والوں کا حکم
سوال: آج کل جو تعزیہ نکلتا ہے اس میں دو قبریں بھی بنائی جاتی ہیں، ایک کو حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور ایک کو اور حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے، آگے پیچھے باجا گاجا، ڈھول تاشہ وغیرہ ہوتا ہے فلمی گیت وغیرہ گایا جاتا ہے، کبھی کبھی مرثیہ بھی پڑھا جاتا ہے، اکھاڑا بھی ساتھ رہتا ہے، لاٹھی بھالا وغیرہ کا کھیل جگہ جگہ سڑک پر تعزیہ روک کر کھیلا جاتا ہے، ہاتھی گھوڑے بھی ساتھ رہتے ہیں، لمبا لمبا جھنڈا رنگ برنگ کا تعزیہ کے ساتھ رہتا ہے، کسی کسی تعزیہ میں قبر میں اندر کو ایک ایسی تصویر (مجسمہ) بنا رہتا ہے لکڑی یا مٹی وغیرہ کا، جس کا سر عورت کا اور دھڑ سارا گھوڑے کا، پھولوں کا ہار اگر بتی وغیرہ بھی رہتی ہے۔ خوب ہنگامہ شور شرابا کرتے ہوئے یہ تعزیہ مع ان اسباب کے ایک میدان میں جاتا ہے جسے کربلا کہتے ہیں، یہ بھی وہاں جا کر تعزیہ کی سجی سنوری چیزیں پھول اگر بتی اُتار کر وہاں ایک اونچی جگہ پر یا کنواں رہتا ہے ڈال کر یہ قافلہ تعزیہ پر کپڑا لپیٹ کر پھر اپنے سابقہ جگہوں پر لے جاتا ہے جسے امام باڑہ کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔ راستے بھر تعزیہ کے ساتھ یہ آوازیں اٹھائی جاتی ہیں حسین حسین، یا حسین واہ، واہ واہ، واہ کیا اکھاڑا ہے، ارے کیا شاندار تعزیہ ہے، کوئی مقابلہ نہیں اس کا۔ ہر سال نکلتا ہے، ہر سال نکلے گا وغیرہا جیسے الفاظ، گھوڑے، ہاتھی پر عربی طرز کے لباس پہنا کر تلوار وغیرہ یا دعا کے لیے ہاتھ اٹھتے ہیں، لڑکے جوان بیٹھے رہتے ہیں۔
اسی طرح ایک اور چیز جسے سپر کہا جاتا ہے وہ بھی نکلتا ہے، جس کی شکل یوں ہوتی ہے کہ دونوں طرف رسی دو انار آدمیوں کے ہاتھ میں ہوتی ہے، سپر کو ایک آدمی اُٹھائے سڑک کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک دوڑاتا ہے دونوں طرف کی رسی ڈھیلی ہوتی ہے اور گھیرنی کی طرح بیچ والا آدمی اسے گھماتا ہے اور وہی الفاظ جو اوپر تعزیہ کیلئے مذکور ہیں دہرائے جاتے ہیں۔
یہ دونوں محرم اور چہلم میں نکلتا ہے، شام سے لے کر دوسرے دن دوپہر کبھی کبھی شام تک سڑک کے دونوں جانب ساری قوم کی عورتوں کی کثیر تعداد ہوتی ہے، عزت و آبرو بھی نیلام ہو جاتی ہے۔ میرے خیال میں یہ سراسر حرام ہے۔ شہادت امام عالیؓ مقام کا مذاق اڑانا ہوا اور قوم کی عزت و آبرو بھی گئی۔
کیا یہ دونوں چیزیں جائز ہیں؟ کیا سنیت بریلویت مسلک سے اس کا کوئی تعلق ہے؟ میرے خیال میں تو نہیں ہونی چاہیے؟ جو لوگ یہ دونوں چیزیں نکالتے ہیں اور اس کے نکالنے کی تائید کرتے ہیں۔ شریعت اسلامیہ ان پر کیا فتویٰ دیتی ہے؟ اور کیا یہ دونوں چیزیں نکالنا دیکھنا جائز ہے؟ کچھ سنی حضرات تائید کرتے ہیں۔ حقیقت حال سے واقف کر کے احسان کریں۔
جواب: تعزیہ کا جلوس آگے پیچھے ڈھول تاشہ، باجا گاجا نامی گیت، جاندار کی تصویر، عورتوں کا ہجوم اور اسی طرح کے دیگر خرافات جو آج کل تعزیہ داری میں کیے جاتے ہیں ناجائز و حرام ہیں۔ جو لوگ ان بے ہودہ باتوں کا انتظام کرتے ہیں اور وہ لوگ کہ اس کی تائید میں ہیں سب گنہگار ہیں۔
اعلیٰ حضرت تعزیہ داری کا حکم بیان کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں کہ عشرہ محرم الحرام کی اگلی شریعتوں سے اس شریعت پاک تک نہایت با برکت و محل عبادت ٹھہرا ہوا تھا ، اِن بے ہودہ رسوم نے جاہلانہ و فاسقانہ میلوں کا زمانہ کر دیا۔ اب تعزیہ داری اس طریقہ نامرضیہ کا نام ہے قطعاً بدعت و نا جائز و حرام ہے۔ مروجہ تعزیہ داری کے بارے میں یہ ہے فتویٰ امام اہلِ سنت کا کہ وہ بدعت ناجائز اور حرام ہے۔
لہٰذا مسلمان اہل سنت پر لازم ہے کہ اس قسم کی تعزیہ داری میں کسی طرح ہرگز شریک نہ ہوں اور نہ اپنے اہلِ و عیال کو شرکت کی اجازت دیں ورنہ گنہگار مستحق عذاب نار ہوں گے۔
(فتاویٰ فیض الرسول: جلد، 2 صفحہ، 511)