Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

رافضیوں سے دوستی کرنے والے کا انجام، اور بد مذہبوں و مرتدوں کا مذہبی بائیکاٹ کرنا


سوال: زید کہتا ہے کہ بدمذہبوں اور مرتدوں کا مذہی بائیکاٹ کرنے کا جو حکم دیا جاتا ہے اور ان کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے سے جو منع کیا جاتا ہے، یہ بداخلاقی ہے۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ تو اس کے بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے؟

جواب: زید یا تو خود بد مذہب ہے اور یا تو جاہل، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ جلّ شانہ و رسولﷺ کے دشمنوں، بد مذہبوں اور مرتدوں کا مذہبی بائیکاٹ کرنا، ان سے دور رہنا، ان کے یہاں شادی بیاہ نہ کرنا اور ان کے ساتھ سختی سے پیش آنا بد اخلاقی نہیں ہے بلکہ خلق عظیم سے ہے کہ خداوند قدوس اور اس کے پیارے مصطفیٰﷺ نے ہم کو یہی حکم فرمایا ہے اور

ہمارے بزرگوں نے ہم کو یہی سبق دیا ہے کہ بد مذہبوں اور مرتدوں سے دور رہو۔ ان کے یہاں شادی بیاہ کرنا تو بڑی بات ہے ان کے ساتھ اُٹھنا بیٹھنا بھی گوارا نہ کرو جیسا کہ خدائے تعالیٰ جلّ شانہ کا ارشار ہے

 وَاِمَّا يُنۡسِيَنَّكَ الشَّيۡطٰنُ فَلَا تَقۡعُدۡ بَعۡدَ الذِّكۡرٰى مَعَ الۡقَوۡمِ الظّٰلِمِيۡنَ ۞

(سورۃ الانعام: آیت نمبر 68) 

ترجمہ: اور اگر شیطان تم کو بھلا دے تو یاد آنے کے بعد ظالم قوم کے پاس نہ بیٹھو۔

وقال الله تعالىٰ وَلَا تَرۡكَنُوۡۤا اِلَى الَّذِيۡنَ ظَلَمُوۡا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ

(سورۃ ھود: آیت نمبر 113)

ترجمہ: اور ظالموں کی طرف مائل نہ ہو کہ تمہیں (جہنم کی) آگ چھوئے گی۔

اور بدمذہبوں کے بارے میں نبی کریمﷺ ارشاد فرماتے ہیں

 ایاكم واياهم لا يضلونكم ولا یفتنو نکم

یعنی ان سے دور رہو اور انہیں اپنے سے دور رکھو، کہیں وہ تمہیں گمراہ نہ کر دیں، کہیں وہ تمہیں فتنہ میں نہ ڈال دیں۔

وقال النبيﷺ اذار أيتم صاحب بدعة فاكفهر وافى وجهه فان الله يبغض كل مبتدع

ترجمہ: یعنی جب تم کسی بدمذہب کو دیکھو تو اس کے سامنے ترش روئی سے پیش آؤ، اس لیے کہ خدائے تعالیٰ جلّ شانہ ہر بدمذہب کو دشمن رکھتا ہے۔

امام ربانی مجد دالف ثانیؒ حضرت شیخ احمد سر ہندیؒ تحریر فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ جلّ شانہ نے اپنے حبیبﷺ سے ارشاد فرمایا کہ کفر پر سختی کرو تو رسول خداﷺ جو خلق عظیم سے موصوف ہیں، ان کو سختی کرنے کا حکم فرمانے سے معلوم ہوا کہ کفر والوں کے ساتھ شدت سے پیش آنا خلق عظیم میں داخل ہے۔

خدا تعالیٰ جلّ شانہ کے دشمنوں کو کتے کی طرح دُور رکھا جائے۔ ان کے ساتھ دوستی و محبت اللہ تعالیٰ جلّ شانہ رسولﷺ کی دشمنی تک پہنچا دیتی ہے۔

(کلمہ و نماز کے سبب) آدمی گمان کرتا ہے کہ وہ مسلمان ہے اللہ تعالیٰ جلّ شانہ اور رسولﷺ پر ایمان رکھتا ہے (اس لیے ان سے دوستی اور رشتہ کرتا ہے) لیکن وہ یہ نہیں جانتا کہ اس طرح کی بے ہودہ حرکتیں اس کے اسلام کو بر بادکر دیتی ہے۔

اعلیٰ حضرت تحریر فرماتے ہیں کہ امیر المؤمنین سیدنا فاروق اعظمؓ نے مسجد اقدس نبی لﷺ میں نماز مغرب کے بعد کسی مسافر کو بھوکا پایا۔ اپنے ساتھ کاشانہ اقدس خلافت میں لے آئے ، اس کیلئے کھانا منگایا ، جب وہ کھانا کھانے بیٹھا تو کوئی بات بد مذہبی کی اس سے ظاہر ہوئی، فوراً حکم ہوا، کھانا اٹھا لیا جائے اور اسے باہر نکال دیا جائے۔ سامنے سے کھانا اٹھوا لیا اور اسے نکلوا دیا۔

بد مذہبوں اور مرتدوں سے دور رہنے اور ان کو اپنے سے دور رکھنے کا حکم اس لئے ہے کہ ان سے میل جول رکھنے اور ان کے پاس اٹھنے بیٹھنے پر کفر کا قوی اندیشہ ہے۔

امام جلال الدین سیوطیؒ شرح الصدور میں تحریر فرماتے ہیں کہ ایک شخص رافضیوں کے پاس بیٹھا کرتا تھا؟ اس کے مرتے وقت لوگوں نے اسے کلمہ طیبہ کی تلقین کی۔ اس نے کہا نہیں کہا جاتا۔ پوچھا کیوں؟ کہا یہ دو شخص کھڑے ہیں۔ یہ کہتے ہیں تو اُن کے پاس بیٹھا کرتا تھا جو سیدنا صدیق اکبرؓ سیدنا فاروق اعظمؓ کو برا کہتے تھے، اب چاہتا ہے کہ کلمہ پڑھ کر اُٹھے نہ پڑھنے دیں گے۔

اعلیٰ حضرت اس واقعہ کو نقل کرنے کے بعد تحریر فرماتے ہیں کہ جب سیدنا صدیقِ اکبرؓ و سید نا فاروق اعظمؓ کو برا کہنے والوں کے پاس بیٹھنے والوں کی یہ حالت ہے تو جو لوگ اللہ تعالیٰ جلّ شانہ اور رسولﷺ کو بُرا کہتے ہیں، ان کی تنقیص شان کرتے ہیں اور انہیں طرح طرح کے عیب لگاتے ہیں، ان کے پاس بیٹھنے والوں کو کلمہ نصیب ہونا اور بھی دشوار ہے۔

(فتاوىٰ فيض الرسول: جلد، 2 صفحہ، 642)