شق صدر کا واقعہ
ابو احمد کلیم الدین یوسفانبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام پر معجزے کا ظہور اللہ رب العالمین کی سنت رہی ہے، نبیوں کی تائید و نصرت و تصدیق، احقاقِ حق اور ابطالِ باطل کے لیے معجزے کا ظہور ہوتا ہے، تمام انبیاء کرام علیہم السلام میں سب سے زیادہ معجزے کا ظہور نبی کریمﷺ پر ہوا، جن میں سب سے بڑا اور دائمی معجزہ قرآن کریم ہے۔
قارئین کرام! جنہیں اللہ رب العزت نبی بنانا چاہتا ہے ان پر خرقِ عادت اشیاء کا ظہور نبوت سے قبل ہونے لگتا ہے، جیسے نبی کریمﷺ کے شقِ صدر کا معجزہ، اسی طرح نبی اکرمﷺ کی بعثت سے قبل مکہ میں ایک پتھر انہیں سلام کیا کرتا تھا۔
شقِ صدر کا واقعہ مختصر یوں ہے کہ: نبی کریمﷺ کو حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا رضاعت کے لیے اپنے گھر لے گئیں، ایک دن نبی اکرمﷺ بچوں کے ساتھ کھیل رہے تھے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام ان کے پاس آئے، اور انہیں زمین پر لٹا کر سینہ چاک کیا، اور سینہ سے دل نکال کر دل کو چاک کر کے جما ہوا خون کا ایک ٹکڑا نکالا اور کہا کہ یہ شیطان کا حصہ تھا، پھر نبی کریمﷺ کے دل کو سونے کی طشتری میں رکھ کر زمزم کے پانی سے دھویا، اور اسے سل کر اپنی جگہ پر رکھ دیا۔
(صحیح مسلم: جلد، 1 صفحہ، 146 حدیث نمبر، 162)
یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب نبی کریمﷺ کی عمر تین سال یا اس سے زائد تھی، کیوں کہ حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا دو سال دودھ پلا کر نبی اکرمﷺ کو ان کی والدہ کے پاس لائیں اور پھر ان سے گذارش کرکے نبی اقدسﷺ کو اپنے ساتھ جب دوسری مرتبہ لے کر گئیں تو یہ واقعہ پیش آیا۔
(سیرت ابنِ ہشام: جلد، 1 صفحہ، 164)
اس واقعہ پر دو قسم کا اشکال وارد کیا جاتا ہے؟
1: اس واقعہ کو معجزہ کیسے شمار کیا جا سکتا ہے، کیوں کہ یہ واقعہ نبوت سے قبل کا ہے؟ نیز یہ کہ یہ واقعہ انسانی فطرت و طبیعت کے بالکل خلاف ہے؟
جواب: نبوت سے قبل معجزے کا ظہور حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر بھی ہوا تھا، چنانچہ انہوں نے اپنی والدہ عفیفہ حضرت مریم علیہا الصلاۃ والسلام کی پاک دامنی کی گواہی اس وقت دی جب وہ دودھ پی رہے تھے، یہ واقعہ سورۃ مریم میں بڑی تفصیل کے ساتھ موجود ہے، اور رضاعت میں بچے کی عمر دو سال سے کم ہی کی ہوتی ہے، جبکہ نبی کریمﷺ تو تین سال یا اس سے زائد کے تھے، جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حق میں نبوت سے قبل معجزے کے ظہور میں کوئی چیز مانع نہیں ہو سکتی تو سید الانبیاء و خاتم النبیینﷺ کے حق میں چیں بہ جبین ہونا کیا معنی رکھتا ہے؟
اور یہ کہنا کہ یہ واقعہ انسانی طبیعت و فطرت کے بالکل خلاف ہے تو یاد رہے کہ معجزہ اسی کا نام ہے جو عادت اور عرف کے بالکل خلاف ہو۔
دوسری بات یہ کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا اپنی والدہ کے گود میں لوگوں سے گفتگو کرنا بھی انسانی عادت اور طبیعت کے خلاف ہے تو پھر اس پر ایمان لانا، اور نبی کریمﷺ کے ساتھ پیش آئے واقعہ پر اشکال وارد کرنا کہاں تک درست ہے؟
دوسرا اشکال: نبی کریمﷺ کے شقِ صدر کے اس واقعہ کو امام مسلم رحمۃ اللہ نے سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے، سوال یہ ہے کہ اس واقعہ کے وقت حضرت انس رضی اللہ عنہ موجود نہیں تھے تو انہوں نے اس واقعہ کو بیان کیسے کیا؟
جواب: سب سے پہلی بات یہ جان لیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین جو احادیث بیان کرتے ہیں یا تو انہوں نے ان احادیث کو بلا واسطہ نبی کریمﷺ سے سنا ہوتا ہے، یا پھر وہ ان احادیث کو اپنے ہی جیسے بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے سنتے ہیں اور اسے نقل کرتے ہیں، اور یقیناً اس واقعہ کے وقت کوئی بھی صحابی رضی اللہ عنہ موجود نہیں تھے، بلکہ خود نبی کریمﷺ کی عمر تین سال تھی، تو قرینہ یہی کہتا ہے کہ نبی کریمﷺ نے اس واقعہ کو خود بیان کیا ہو گا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے نبی کریمﷺ سے سن کر اس واقعہ کو ہم تک نقل کیا ہو گا، اس بات کی دو دلیلیں ہیں،
پہلی دلیل:
سیدنا عتبہ بن عبد السلمی رضی اللہ عنہ مشہور صحابی ہیں وہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی کریمﷺ سے سوال کیا کہ اے اللہ کے رسولﷺ شروعاتی ادوار میں آپﷺ کے ساتھ کیا ہوا، یعنی علاماتِ نبوت کا ظہور وغیرہ، نبی کریمﷺ نے حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا کے یہاں شقِ صدر کا جو ماجرا پیش آیا تھا اسے تفصیل سے بیان کیا۔
اس واقعہ کو امام احمد رحمۃ اللہ نے اپنی مسند میں (جلد، 29 صفحہ، 194 حدیث نمبر، 17648) اور امام حاکم رحمۃ اللہ نے مستدرک میں (جلد، 2 صفحہ، 673) ذکر کیا ہے۔
امام حاکم رحمۃ اللہ نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے، اور امام ہیثمیؒ نے اس حدیث کی سند کو حسن قرار دیا ہے،
(مجمع الزوائد: جلد، 8 صفحہ، 222)
پتہ یہ چلا کہ خود نبی کریمﷺ نے اس واقعہ کو بیان کیا تھا، اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ان سے سن کر امت تک پہنچایا۔
دوسری دلیل:
حضرت حلیمہ سعدیہؓ جن کے یہاں یہ واقعہ پیش آیا تھا انہوں نے نبی کریمﷺ کے ہاتھ پر آ کر اسلام قبول کیا تھا، ابنِ عبدالبرؒ اور ابنِ حجرؒ نے انہیں صحابیات میں شمار کیا ہے،
(الاستیعاب فی معرفۃ الأصحاب: جلد، 4 صفحہ، 1813 الاصابہ فی تمیز الصحابہ: جلد، 8 صفحہ، 87)
اس لیے یہ عین ممکن ہے کہ حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا نے بھی اس واقعہ کو بیان کیا ہو کیونکہ اس واقعہ کے وقت وہ موجود تھیں۔
خلاصہ کلام یہ کہ نبی کریمﷺ نے اس واقعہ کو خود بیان کیا تھا، نیز حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا جو کہ اس واقعہ کی شاہد تھیں اس واقعہ کو بیان کیا ہو۔
اس لیے سیدنا انسؓ اگرچہ اس واقعہ کے وقت موجود نہیں تھے، لیکن انہوں نے اس واقعہ کو یا تو نبی کریمﷺ سن کر بیان کیا ہو گا، جیسا کہ اس کی دلیل گذری، یا پھر جو اس واقعہ کے وقت موجود تھے ان سے اس واقعہ کو سنا ہو گا، دونوں صورت میں حدیث بالکل صحیح اور نقل و عقل کے موافق ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
ابو احمد کلیم الدین یوسف جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ