اگر حسین رضی اللہ عنہ نہ ہوتے تو صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی صداقت، فاروق رضی اللہ عنہ کی عدالت، عثمان رضی اللہ عنہ کی سخاوت، علی رضی اللہ عنہ کی شجاعت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت اور خدا تعالیٰ کی قدرت نہ ہوتی، ایسے الفاظ کہنے والے کے ساتھ سما
اگر حسین رضی اللہ عنہ نہ ہوتے تو صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی صداقت، فاروق رضی اللہ عنہ کی عدالت، عثمان رضی اللہ عنہ کی سخاوت، علی رضی اللہ عنہ کی شجاعت نبیﷺ کی نبوت اور خدا تعالیٰ کی قدرت نہ ہوتی، ایسے الفاظ کہنے والے کے ساتھ سماجی بائیکاٹ کرنے کا حکم
سوال: زید نے اپنی تقریر میں کہا کہ اگر حسین اعظم رضی اللہ عنہ نہ تو ہوتے تو ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی صداقت نہ ہوتی۔ سیدنا فاروق اعظمؓ کی عدالت، عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی سخاوت، مولی علیؓ کی شجاعت، نبیﷺ کی نبوت، رسولﷺ کی رسالت، خدا تعالیٰ کی قدرت نہ ہوتی (معاذ الله ثم معاذ الله)
حسین اعظمؓ نے اپنی شہادت سے حضرت ابوبکر صدیقؓ کی صداقت کو بچایا، فاروق اعظمؓ کی عدالت، عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی سخاوت، مولی علی رضی اللہ عنہ کی شجاعت نبیﷺ کی نبوت، رسولﷺ کی رسالت، خدا تعالی کی قدرت کو بچایا۔
یہ جملے صیح ہیں یا نہیں؟ زید پر بحکم شرعی کون سا حکم نافذ ہو گا؟
جواب: زید مذکورہ جملے بولنے کی وجہ سے کافر و مرتد ہو گیا کہ اس نے اللہ رب العزت کی ایک عظیم صفت یعنی قدرت کیلئے احتیاج ثابت کیا ہے اور اس ممکن الزوال مانا ہے، جبکہ اللہ رب العزت کی ذات و صفات قدیم، واجب الوجود، ازلی ابدی ہیں، اپنے وجود و بقا میں کسی کے محتاج نہیں۔
جو شخص اللہ تعالیٰ جل شانہ کی ذات یا کسی بھی صفت کو وجود یا بقا میں کسی کا محتاج سمجھے، یقیناً کافر ہے۔
طریقہ محمدیہ میں ہے قال فی التاتار خانية من قال بحدوث صفة من صفات الله تعالى فھو کافر
العقائد النسفيه میں ہے وله صفات ازلية و هي لا هو و لا غیرہ اور اس کے صفحہ 35 پر ہے
لواثبتنا المعلم صفة الله تعالى لكان موجود او صفة قديمة و واجب الوجود و دائما من الازل الى الابد
اسی طرح حسین اعظمؓ نہ ہونے پر نبی کی نبوت نہ ہونے کا قول بھی کفر ہے۔
لہٰذا زید پر لازم ہے کہ اپنے ان اقوال سے توبہ و رجوع کرے، ساتھ ہی تجدیدِ ایمان پھر تجدیدِ نکاح بھی کرے۔ اگر زید ایسا نہیں کرتا تو مسلمانوں پر لازم ہے اس کا سماجی بائیکاٹ کریں ورنہ وہ بھی گنہگار ہوں گے۔ اللہ تعالی جل شانہ کا ارشاد ہے
وَاِمَّا يُنۡسِيَنَّكَ الشَّيۡطٰنُ فَلَا تَقۡعُدۡ بَعۡدَ الذِّكۡرٰى مَعَ الۡقَوۡمِ الظّٰلِمِيۡنَ ۞
(سورۃ الانعام: آیت نمبر، 68)
(فتاویٰ مرکز تربیت افتاء: جلد، 2 صفحہ، 72)