عشرہ محرم میں مصنوعی کربلا اور روضہ بنانے اور دیگر رسوم باطلہ کا حکم
عشرہ محرم میں مصنوعی کربلا اور روضہ بنانے اور دیگر رسوم باطلہ کا حکم
مصنوعی کربلا، امام باڑہ اور فرضی روضہ بنا کر اسے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا روضہ سمجھنا، پھر اس کے ساتھ سیدنا حسینؓ کے روضہ مبارکہ کی طرح برتاؤ کرنا حرام و گناہ ہے۔ صاحبِ عقل بخوبی یہ جانتا ہے کہ فرضی روضہ ہرگز ہرگز حسین رضی اللہ عنہ کا روضہ نہیں، نہ ہی وہ کربلا، نہ ہی امام کی بارگاہ یا آرام گاہ ہے، پھر اس کے ساتھ اصل روضہ امام کا سا برتاؤ کرنا کیونکر جائز ہو سکتا ہے؟
اسلام فرضی و مصنوعی چیز کو حقیقی اور سچی ماننے کی تعلیم نہیں دیتا، عوام کا یہ طریقہ غلط ہے اور اسے سیدنا حسینؓ کا روضہ سمجھ کر وہاں فاتحہ پڑھنے والے اور اس طرح کے دوسرے امور انجام دینے والے گنہگار ہیں۔
بعض جگہوں پہ مروجہ تعزیہ داری کو بھی روضہ سے تعبیر کرتے ہیں، اگر یہاں روضہ سے مراد سائل کی یہی ہے تو اس کا حکم بھی واضح ہے کہ مربہ تعزیہ داری باتفاق علمائے اہل سنت ناجائز و گناہ ہے۔
سراج الہند حضرت مولانا شاہ عبدالعزیزؒ تحریر فرماتے ہیں تعزیہ داری عشره محرم و ساختنی ضرائح وصورت وغیره درست نیست تعزیه داری که ہمچون مبتدعان می کنند بدعت است و ہمچنیں ضرائح و صورت قبور و علم وغیره ایں هم بدعت است و ظاهر است که بدعت سیه است. ایں چوبها که ساخته اوست قابل زیارت نیستند بلکه قابل ازاله اند: چنانچه در حدیث آمده: من رای منكم منكرا فليغيره بيده فان لم يستطع فبلسانه فان لم يستطع فبقلبه و ذلك اضعف الايمان رواه مسلم
ترجمہ: یعنی عشرہ محرم میں تعزیہ داری اور قبر کی صورت وغیرہ بنانا جائز نہیں۔ تعزیہ داری جیسا کہ بدمذہب کرتے ہیں بدعت ہے اور ایسے ہی تابوت، قبروں کی صورت اور علم وغیرہ یہ بھی بدعت ہے، اور ظاہر ہے کہ بدعت سیئہ ہے۔ یہ تعزیہ جو بنایا جاتا ہے زیارت کے قابل نہیں بلکہ اس قابل ہے کہ اسے نیست و نابود کیا جائے جیسا کہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ تم میں جو شخص کوئی بات خلاف شرع دیکھے تو اسے اپنے ہاتھ سے ختم کر دے اور اگر ہاتھ سے ختم کرنے کی قدرت نہ ہو تو زبان سے منع کرے اور اگر زبان سے بھی منع کرنے کی قدرت نہ ہو تو دل میں برا جانے اور یہ سب سے کمزور ایمان ہے۔
(فتاویٰ مرکز تربیت افتاء: جلد، 2 صفحہ، 373)