Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

شق صدر اور اس کی حکمتیں

  ڈاکٹر طاہر القادری

حضور اکرمﷺ کی عمر مبارک کے تیسرے چوتھے سال میں تھے اور اپنے رضاعی بھائی عبداللہ کے ساتھ جنگل میں بکریوں کے ریوڑ کی رکھوالی فرما رہے تھے کہ اچانک نور کے دو پیکر نمودار ہوئے قریب آئے اور ایک ہموار جگہ پر آپﷺ کو بڑے آرام سے لٹا دیا، ایک نے انگلی کا اشارہ کیا تو سینہ مبارک چاک ہو گیا انہوں نے قلب اطہر کو نکالا اسے چیرا ایک خون کی پھٹکی نکالی اور کہا۔ 

هذا حظ الشيطان منک یا حبیب الله 

ترجمہ: اے اللہ کے محبوبﷺ‏ یہ شیطان کا حصہ ہے جو آپﷺ‏ سے الگ کر دیا گیا ہے۔

پھر اس کی جگہ علم و عرفان اور حکمت و بصیرت کے نورانی موتی بھر دیے قلب انور کو بند کیا اور سینہ مبارک کے اندر رکھ کر اسے بھی بند کر دیا۔

اسرار و معارف:

انسانی جسم میں دل ایک ایسا حساس عضو ہے جسے ذرا سی ٹھوکر لگے یا صدمہ پہنچے تو انسانی حیات معرضِ خطر میں پڑ جاتی ہے اور زندگی کا چراغ گل ہو جاتا ہے۔ یہاں حضور اقدسﷺ نے فرشتوں کا سارا عمل اول سے آخر تک بچشمِ خود ملاحظہ فرمایا انہیں قلب اطہر کو چیرتے، پھنکی نکالتے اور انوارِ حکمت بھرتے دیکھا مگر ایک لحظہ کے لیے بھی بے خبر اور بے ہوش نہ ہوئے، حیاتِ مقدسہ کو کوئی خطرہ لاحق نہ ہوا۔ جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ یہ ایک مافوق الطبعی عمل تھا جس کی کیفیات کو ہم اپنے محدود علم و فن کے ذریعے نہیں سمجھ سکتے اور نہ ہی عالم مادی پر اسے قیاس کر سکتے ہیں۔ یہ ان خصائص میں سے ہے جو صرف حضورﷺ ہی کو عطاء کیے گئے ہیں۔ اس واقعہ سے یہ ثابت کرنا مقصود تھا کہ جسمانی بلوغ کے بعد بھی شیطان اس مقدس ہستی کے قریب نہیں جا سکتا کیونکہ ان کے وجود مسعود کو اس جرم سے پاک کر دیا گیا ہے جو عام انسانی اجسام میں ہوتا ہے اور وہ شیطان کا مقام و مسکن بنتا ہے۔

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ:

شیطان سے تحفظ کے لیے اتنے طویل عمل کی کیا ضرورت تھی۔ ابتدا ہی سے وہ پھنکی پیدا نہ کی جاتی تاکہ قلبِ اطہر کو نکالنے اور چیرنے کی نوبت ہی نہ آتی؟

اس کا جواب یہ ہے کہ ہر انسان کے دل میں ایک خاص مقام ہوتا ہے جسے سودائے قلب کہتے ہیں۔ جس طرح انسان کی آنکھیں دیکھتی ہیں، کان سنتے ہیں، ناک

سونگھتی اور زبان ذائقہ محسوس کرتی ہے اور جسم کے باقی اعضا اپنا اپنا فعل سر انجام دیتے ہیں اور الگ الگ صلاحیت اور قوت کے حامل ہوتے ہیں۔ اسی طرح سودائے قلب بھی ایک خاص صلاحیت کا حامل ہوتا ہے۔ یہ شیطان کی وسوسہ اندازی کو قبول کرتا ہے۔ اگر کوئی شخص بد عمل اور فاسق و فاجر ہو۔ یہ شیطان کے اثرات کو تیزی سے قبول کرتا ہے، لیکن اگر کوئی شخص تقویٰ شعار اور نیک ہو تو شیطانی اثرات کو اسی تناسب سے رد کر دیتا ہے۔

انسانی جسم میں کچھ اجزا اور اعضاء ایسے ہیں کہ تحمیل خلقت کے لیے ان کا پیدا کیا جانا ضروری ہے۔ مگر بعد میں طہارت و نظافت کے نقطہ نظر سے ان کو جسم سے علیحدہ کر دیا جاتا ہے، جیسے ناخن اور غیر ضروری بال جب بڑھ جائیں تو کاٹ دیئے جاتے ہیں۔ اسی طرح سودائے قلب بھی جسمِ انسانی کا ایک حصہ ہے اگر ابتداء ہی سے پیدا نہ کیا جاتا تو خلقت مکمل نہ ہوتی۔ اس لیے آپﷺ تمام اجزائے انسانی سمیت پیدا کیے گئے پھر خصوصی عنایت کے ذریعہ اس کو علیحدہ کر دیا گیا تاکہ نوع انسانی کو بتایا جا سکے کہ حضورﷺ عالمِ بشریت کے وہ فردِ کامل ہیں جن کی اتباع تم آنکھیں بند کر کے کر سکتے ہو کیونکہ شیطان کے لیے ان کے قریب آنے کی کوئی راہ ہی نہیں، یہ ہستی ہر پہلو سے اس کی اثر انگیزی سے محفوظ ہے۔ کیونکہ ان کے جسم میں وہ مادہ ہی نہیں رہنے دیا گیا جو اس کا وسوسہ قبول کرتا ہے۔ اس لحاظ سے یہ واضح کر دیا گیا کہ حضورﷺ کی ذات اقدس  

يُوَسۡوِسُ فِىۡ صُدُوۡرِ النَّاسِۙ ۞ (سورۃ الناس: آیت 5)

کے شیطانی عمل سے کلیتاً محفوظ ہے۔ گویا شیطانی وساوس سے پاک ہونے کی بناء پر ان کی آئندہ زندگی میں بھٹکنے کا کوئی امکان ہی نہیں رہا۔ یہ ہمیشہ منجانب اللہ راہِ ہدایت پر ہی رہیں گے۔

(شرح الشفا ملا علی قاری: جلد، 1 صفحہ، 374)

2: شق صدر کی حکمت سمجھنے کے لیے ایک زاویہ نگاہ اور بھی ہے۔ وہ یہ کہ ہر پھل اور میوے میں گھٹلی ہوتی ہے پھل کی پیدائش، رنگت اور معیار اسی پر منحصر ہوتا ہے۔ جب پھل تیار ہو جاتا ہے تو گھٹلی نکال کر پھینک دیتے ہیں۔ سودائے قلب بھی بدن انسانی کا ایک جزو ہے، حصولِ تکمیل کے بعد اسے الگ کر کے اس کی جگہ حکمت و عرفان کے خزانے بھر دیئے گئے۔ یہ عمل اس لیے کیا گیا کہ بتایا جا سکے کہ یہ عظیم شان کے حامل ہیں ان کا ہمسر کوئی نہیں اور ان کی اسی عظمت کو آشکارا کرنے کے لیے خصوصی طریقے اختیار کیے گئے ہیں تاکہ ان کی انفرادیت اور شانِ امتیاز کسی پر مخفی نہ رہے۔

(نسیم الریاض خفاجی: صفحہ، 239)

آٹھ دس سال کی عمر تک بچہ کھیل کود کی طرف بہت زیادہ مائل ہوتا ہے اس کے مشاغل میں کوئی مقصدیت کار فرما نہیں ہوتی وہ صرف دل بہلانے کے لیے کچھ نہ کچھ کرتا رہتا ہے عام بچوں کی سرگرمیاں بھی عامیانہ ہوتی ہیں مگر جو عظیم مقاصد کے لیے پیدا کیے گئے ہوں انہیں بے مقصد نہیں چھوڑا جاتا بلکہ مخصوص ماحول میں رکھا جاتا ہے خاص انداز سے ان کی تربیت کی جاتی ہے، تاکہ وہ آئندہ ذمہ داریاں اٹھانے کے قابل ہو سکیں۔ یہاں بچپن میں شقِ صدر کے اس نورانی عمل کے ذریعے خصوصی صلاحیتیں اس لیے ودیعت کی گئیں کہ بچپن کے عمومی تقاضوں کی طرف طبیعت مبارک راغب نہ ہو اور بچپن ہی میں مقصدیت سنجیدگی اور وقار کی شان پیدا ہو جائے آپﷺ‏ کی اٹھان ایسی ہو کہ بڑی عمر والے بھی دیکھتے رہ جائیں اور زندگی کے لیے رہنمائی حاصل کریں۔

حضور اکرمﷺ کی صحبت و رفاقت کا یہ فیض تھا یا قدرت ہی کو یہ منظور تھا کہ حضور اقدسﷺ کے رضاعی بھائی عبداللہ کو یہ سب کچھ نظر آ جائے، اس نے جب یہ منظر دیکھا تو کم عمری کے باعث کچھ نہ سمجھ سکا، گاؤں کی طرف بھاگا اور جا کر حضرت حلیمہ سعدیہؓ کو بتایا کہ سفید لباس میں ملبوس دو نورانی آدمیوں نے قریشی بھائی کا پیٹ چاک کر دیا ہے۔ حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا بے قرار ہو گئی جب وہاں پہنچی تو اس وقت حضور اکرمﷺ واپس تشریف لا رہے تھے، صحیح سلامت دیکھ کر حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہا کی جان میں جان آئی اور سارا واقعہ سن کر بہت متحیر ہوئی، جس کا پیٹ چاک کر دیا جائے وہ زندہ کیسے رہ سکتا ہے وہ اس کی کوئی توجیہ نہ کر سکی اس نے اپنے شوہر کے ساتھ مل کر یہ فیصلہ کر لیا کہ حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا کی امانت اب فوراً لوٹا دینی چاہیے۔ 

ایک مرتبہ حضور اکرمﷺ کے دربارِ اقدس میں کئی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بیٹھے جمال جہاں آرا کی دید سے متمتع ہو رہے تھے کہ ایک شخص نے سب کا ترجمان بن کر عرض کیا۔ 

یا رسول اللہﷺ‏! ہمیں اپنی ذاتِ اقدس کے بارے میں کچھ بتائے؟

آپﷺ نے جواب میں ابتداء سے شقِ صدر تک کا ذکر اس طرح بیان فرمایا۔

و روى ابنِ إسحاق عن نفر من أصحاب رسول الله قالوا له: يا رسول الله أخبرنا عن نفسك قال: (نعم أنا دعوة أبی إبراهيم و بشرى عيسى ورأت أمی حين حملت بی أنه خرج منها نور أضاء لها قصور الشام واسترضعت فی بنی سعد بن بكر فبينا أنا مع أخ لی خلف بيوتنا نرعى بهما لنا إذ أتانی رجلان عليهما ثياب بيض بطست من ذهب مملوء ثلجا ثم أخذانی فشقا بطنی واستخرجا قلبی فشقاه فاستخرجا منه علقة سوداء فطرحاها ثم غسلا قلبی وبطنی بذلك الثلج حتى أنقياه ثم قال أحدهما لصاحبه: زنه بعشرة من أمته فوزننی بهم فوزنتهم ثم قال: زنه بمئة من أمته فوزننی بهم فوزنتهم ثم قال: زنه بألف من أمته فوزننی بهم فوزنتهم فقال: دعه عنك فوالله لو وزنته بأمته لوزنها (و إسناده جيد قوی)

ترجمہ: میں اپنے جدِ امجد حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا اور اپنے بھائی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بشارت ہوں جب میری ذات بصورتِ امانت میری والدہ کے سپرد ہوئی تو انہوں نے دیکھا کہ ان سے ایک نور خارج ہوا جس کی روشنی میں انہوں نے محلاتِ شام دیکھ لیے۔ میری پرورش قبیلہ بنو سعد بن بکر میں ہوئی ہے ایک دفعہ کا ذکر ہے میں اپنے بھائی کے ساتھ گھروں کے پچھواڑے بکریاں چرا رہا تھا کہ اتنے میں دو آدمی آئے انہوں نے سفید کپڑے پہنے ہوئے تھے ان کے پاس ایک طشت زر میں تھا، جس میں برف بھری ہوئی تھی، انہوں نے مجھے پکڑ کر پیٹ چاک کیا دل نکال کر چیرا اور اس میں سے سودائے قلب کو نکال کر پرے پھینکا پھر دل اور پیٹ کو اسی برف کے ساتھ دھو دیا۔ پھر ایک نے کہا انہیں دس امتیوں کے ساتھ تولو۔ جب انہوں نے تولا تو میرا پڑا بھاری نکلا۔ اس نے کہا۔ اب سو امتیوں کے ساتھ تولو۔ جب تولا تو پھر بھی میرا پلڑا بھاری نکلا۔ اس نے کہا اب ہزار امتیوں کے ساتھ تولو۔ جب تولا تو اس دفعہ بھی میرا پلڑا ہی بھاری نکلا۔ پہلے نے کہا رہنے دو، اگر تم انہیں پوری امت کے ساتھ بھی تولو گے تو پھر بھی ان کا پلڑا ہی بھاری نکلے گا۔

اس واقعہ کو روایت کیا ہے۔ اس روایت کے مطابق ان دو فرشتوں میں سے ایک حضرت جبرائیل علیہ السلام تھے۔ حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ میں نے وہ نشان بھی حضور اکرمﷺ کے سینہ مبارک پر دیکھا ہے۔