Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

کافر کی ارتھی کے ساتھ اور تیرہویں میں جانے کا حکم


سوال: کسی سنی مسلمان کا کافر کی ارتھی کے ساتھ یہ سوچ کر جانا کہ یہ ہمارا دوست تھا یا ہمارا محلہ دار تھا کیسا ہے؟ اور کافروں کے مذہب کے مطابق مرنے والے کے 13 دن کے بعد تیرہویں ہوتی ہے جس میں پاٹھو (وظیفہ) پڑھا جاتا ہے۔ ہنود کا کہنا ہے کہ مرنے والے کی آتما (روح) کو شانتی پہنچتی ہے اور باقاعدہ دعوتیں کی جاتی ہیں۔ اس میں مسلمان کی شرکت کرنا اور اس تیرہویں کا کھانا کھانا کیسا ہے؟ جن لوگوں نے شرکت کی، کھانا کھایا، ان اشخاص کے لیے قانون شریعت میں کیا حکم ہے؟

جواب: سنی مسلمانوں کو کافر کی ارتھی کے ساتھ اور تیرہوئیں میں جانا ہرگز جائز نہیں۔ حدیث شریف میں ہے من كثر سواد قوم فهو منهم

ترجمہ: یعنی جو کسی قوم کی جماعت بڑھائے وہ انہیں میں سے ہے۔

فتاویٰ رضویہ میں ہے کہ دلی انس کافر سے حرام ہے اور ظاہری میل جول جس میں نہ کافر کی تعظیم ہو، نہ مسلمان کی ذلت، نہ کوئی طریقہ نا جائز برتا جائے کسی جائز کام کے سبب ہندؤ سے کر لینے میں حرج نہیں۔ بلا ضرورت اس سے بھی بچے کی آپس میں راہ و رسم بڑھا کر اکثر ناجائز باتوں تک پہنچا کرتے ہیں۔

اعلیٰ حضرت تحریر فرماتے ہیں کہ کفار سے اُمور دنیوی مثلاً تجارت وغیرہا میں موافقت کی جا سکتی ہے جہاں تک مخالفت شرع نہ ہو، مگر ان کے مذہبی امور میں موافقت کرنا ضرور لعنت الہی اُترنے کی باعث ہے۔ اور کافروں کی کوئی نیاز، کوئی عمل قبول نہیں، نہ ہرگز اس پر ثواب ممکن جیسے پہنچایا جائے۔

لہٰذا جو شخص غیر مسلم کی ارتھی کے ساتھ گیا گنہگار ہوا، توبہ کرے، اور تیرہویں بھی کافروں کی مذہبی تقریب ہے جن لوگوں نے اس میں شرکت کی اور کھانا کھایا وہ بھی گنہگار ہوئے توبہ کریں۔

(فتاویٰ مرکز تربیت افتاء: جلد، 2 صفحہ، 396)