امام پر کفر عائد ہو تو اس کی اقتداء کیسی ہے
سوال: کسی شخص نے فتویٰ دیا قران و حدیث کے لحاظ سے اس پر کفر عائد ہوا یہ اعلانیہ توبہ عائد ہوا اور اس فتویٰ کو سائل حاصل کرنے کے بعد آٹھ دن اپنے گھر رکھے آٹھ دن کے بعد مستحق توبہ کو اطلاع دے مستحق توبہ بھی سمجھتا ہو اور اس کے پیچھے نماز بھی پڑھتا رہا ہو اس دوران کی نماز درست ہے کہ نہیں اگر اسی عرصہ میں مستحق توبہ انتقال کر جاتا تو اس کا گناہ مستحق توبہ پر عائد ہوتا یا کہ فتویٰ دبائے رکھنے پر؟
جواب: اگر امام پر شریعت مطہرہ کے لحاظ سے کفر عائد ہو تو اس کی اقتداء میں نماز درست نہیں ہیں مقتدیوں پر فرض ہے کہ کفر بکنے کے بعد جتنی نمازیں اس کی اقتداء میں پڑھی گئی ہیں سب کا اعادہ کریں کہ اس اقتداء میں نماز باطل محض ہے۔
فتاویٰ امجدیہ میں ہے، کہ اگر بینہ عادلہ سے امام مزکور سے ایسے کلمات ثابت ہوں تو اس پر عدم جواز امامت کا حکم کیا جا سکتا ہے ورنہ نہیں۔
اور اگر کسی فسق کی وجہ سے اس پر اعلانیہ توبہ عائد ہو، تب بھی جتنی نماز حالت فسق میں اس کے پیچھے پڑھی ہیں انہیں پھر سے پڑھیں۔
غنیۃ شرح مذیہ میں ہے لو قاموا فاسقایاثمون بناء علی کراھۃ تقدیمہ کراھۃتحریم لعدم اعتنانہ بامور دینہ وتساھلہ فی الایتان بلوازمہ فلا یبعد منہ الخلال ببعض شروط الصلٰوۃ وفعل ما ینافیھابل ھوالغقلب بالنظر الی فاقہ ولذا کم تجز الصلٰوۃ خلیفہ اصلا عند مالک وروایۃ عنہ احمد
خدانخواستہ اگر مستحق توبہ کی موت ہو جاتی تو گناہ فتویٰ رکھنے والے پر عائد ہوتا لہٰذا اس پر واجب تھا کہ فورا وہ فتویٰ مستحق توبہ کو دے دیتا تا کہ وہ توبہ کر کے بری ہو جاتا۔ بعدہ اس کے پیچھے نماز پڑھنے میں کوئی قباحت لازم نہ اتی۔
(فتاویٰ مرکز تربیت افتاء: جلد، 1 صفحہ، 209)