Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

کافر کو مسجد میں لانا


کافر کو مسجد میں لانا

سوال: ہمارے یہاں ایک مسجد تعمیر کی گئی ہے۔

مسجد کے افتتاح پر علمائے کرام شام میں تشریف لانے والے تھے، لیکن اس سے پہلے ایک شخص صبح ہی اپنے نام نمود کے لیے غیر قوم لیڈر کو مسجد کے اندر لے آیا، جماعت کے ذمہ داران بھی موجود تھے۔ مجھے خبر ملی تو میں نے حاجی بوڑھی صاحب کو فون کیا، کہ حاجی صاحب آپ ایک غیر قوم کو مسجد میں لائے تھے۔ اس کے بارے میں کیا خیال ہے؟ تو حاجی صاحب نے کہا شریعت کا مسئلہ ہے، علماء سے رابطہ کرو تو میں نے علماء سے رابطہ کیا کہ مسجد میں کافر کو بٹھانا کیسے ہے؟ اس پر جماعت کے ذمہ داران نے مجھے جماعت سے الگ کر دیا یہاں تک کہ اگر جماعت کا کوئی بھائی ہمارے لوگوں سے بات کرے تو کمیٹی والے 500 روپے فائن لگاتے ہیں۔

مفتی صاحب سے عرض ہے کہ شریعت کے متعلق سوال پوچھنے پر کمیٹی والے مجھے جماعت سے الگ کیے ہیں۔ اور جو مجھ سے بات کرے، وہ جماعت میں جرمانہ دے ایسا کرنا کہ شریعت میں جائز ہے؟ اور ایسا کرنے والوں کے بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے؟اور کمیٹی کے ذمہ داران کے بارے میں شریعت کا کیا حکم نافذ ہے؟

جواب: مسجد میں کافر کو لانا جائز نہیں، کہ وہ مسجد کے آداب سے واقف نہیں اور حدیث نبویﷺ میں اس سے ممانعت فرمائی گئی ہے۔ اور نا جاننے پر اہلِ علم سے شرعی مسئلہ پوچھنا حکم خداوندی ہے باری تعالی جل شانہ کا ارشاد ہے

فَاسْأَلُوا اَهۡلَ الذِّكۡرِ اِنۡ كُنۡتُمۡ لَا تَعۡلَمُوۡنَ ۞

(سورۃ الانبیاء: آیت نمبر، 7)

لہٰذا اس حکم خداوندی کے بجا لانے والے کو جماعت سے الگ کر دینا بھی حرام ہے۔ پھر ایسے شخص سے بات کرنے والے پر کمیٹی والوں کا 500 روپیہ فائن لگانا بھی نہ جائز ہے۔ کہ ایک تو مسئلہ پوچھنا جرم نہیں دوسرے مالی جرمانہ لینا شرعاً جائز نہیں۔ لہٰذا ان تمام افراد پر لازم ہے کہ توبہ استغفار کریں اور شرعی مسئلہ پوچھنے والے سے معافی مانگیں۔

(فتاویٰ مرکز تربیت افتاء: جلد، 1 صفحہ، 285)