Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

امّ المؤمنین حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا

  جعفر صادق

           اُمّ المؤمنین حضرت میمونہؓ

نام میمونہ 
والد حارث بن حزن 
والدہ ہند بنت عوف 
سن پیدائش بعثت نبوی سے 16 سال قبل
قبیلہ قریش بنو ہلال
زوجیتِ رسولﷺ 7 ہجری 
سنِ وفات 51 ہجری
مقامِ تدفین مقامِ سَرفْ مکہ مکرمہ کا نواحی علاقہ
کل عمر 80 سال

                   نام و نسب

آپ کا پیدائشی نام برہ تھاجسے آپﷺ  نے بدل کر میمونہ کر دیا سلسلۂ نسب اس طرح ہے: میمونہ بنت حارث بن حَزن بن بُجير بن ہُزم بن رُؤَيْبَۃ بن عبد الله بن ہلال بن عامر بن صَعْصَعَۃ بن معاویۃ بن بكر بن هَوَازِن بن منصور بن عِكْرِمَۃ بن خَصفۃ بن قَيْس بن عَيْلان بن مُضَر۔
جبکہ والدہ کی طرف سے کچھ یوں ہے میمونہ بنت ہند بنت عوف بن زہیر بن حارث بن حماطۃ بن جرش بن اسلم بن زيد بن سہل بن عمرو بن قيس بن معاويہ بن جشم بن عبد شمس بن وائل بن الغوث بن قطن بن عريب بن زہير بن غوث بن ايمن بن الہميسع بن حمير بن سبأ بن يشجب بن يعرب بن قحطان۔
والد کی طرف سے آٹھارویں پشت میں مُضَر پر جا کر آپؓ  کا سلسلۂ نسب جناب نبی کریمﷺ سے جا ملتا ہے۔

                          ولادت

آپؓ کی ولادت نبی کریمﷺ کے اعلانِ نبوت سے تقریباً 16 سال پہلے ہوئی۔

              خاندانی پس منظر

سیدہ میمونہؓ  کا تعلق قریش کے معزز قبیلہ بنو ہلال سے تھا،آپؓ کی ایک بہن ام الفضل لبابۃ الکبریٰؓ  کا نکاح حضرت عباس بن عبدالمطلبؓ کے ساتھ ہوا ان سے حضرت عبداللہ بن عباسؓ پیدا ہوئے۔

دوسری بہن لبابۃ الصغریٰ کا نکاح ولید بن مغیرہ مخزومی کے ساتھ ہوا جن سے مشہور صحابی حضرت خالد بن ولیدؓ  پیدا ہوئے۔
تیسری بہن عصماءؓ  کا نکاح اُبّی بن خلف سے ہوا لیکن انہوں نے اسلام قبول کر لیا تھا، چوتھی بہن عِزہؓ  کا نکاح زیاد بن مالک الہلالی سے ہوا انہوں نے بھی اسلام قبول کر لیا تھا۔

اس کے علاوہ آپؓ کی ایک ماں شریک بہن اسماء بنت عمیسؓ کا نکاح حضرت جعفر طیارؓ  سے ہوا ان سے عبداللہ، عون اور محمد رضی اللہ عنہم پیدا ہوئے۔ جنگ مُوتہ میں حضرت جعفر طیارؓ  شہید ہو گئے ان کی شہادت کے بعد اسماء بنت عمیسؓ  کا سیدنا ابو بکر صدیقؓ سے ہوا ان سے محمد بن ابو بکرؓ  پیدا ہوئے۔ سیدنا ابو بکر صدیقؓ کی وفات کے بعدان کا نکاح حضرت علی المرتضیٰؓ  سے ہوا ان سے ایک بیٹا یحیٰ پیدا ہوا۔
دوسری ماں شریک بہن سلمیٰ بنت عمیسؓ  کا نکاح حضرت حمزہؓ سے ہوا، ان سے ایک بیٹی امۃ اللہ پیدا ہوئی حضرت حمزہؓ  کی شہادت کے بعد ان کا شداد بن الہادؓ  سے نکاح ہوا جن سے عبداللہ اور عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہما پیدا ہوئے۔

تیسری ماں شریک بہن سلامہ بنت عمیسؓ  کا نکاح حضرت عبداللہ بن کعبؓ سے ہوا جبکہ چوتھی ماں شریک بہن زینب بنت خزیمہؓ  کا نکاح جناب نبی کریمﷺ  سے ہوا۔

                            فائدہ

ماں شریک بہن وہ ہوتی ہے کہ ان دونوں کی ماں ایک ہو، والد الگ الگ ہوں۔ یعنی ماں نے پہلے ایک شخص سے شادی کی اس سے اولاد ہوئی، خاوند کی وفات یا طلاق کے بعد اس ماں نے کسی دوسرے شخص سے شادی کی، اس سے بھی اولاد ہوئی۔ اب پہلے شخص سے جو اولاد ہوئی وہ اور اس دوسرے شخص سے جو اولاد ہوئی اسے” ماں شریک“ کہتے ہیں۔
سیدہ میمونہؓ کی والدہ ہند بنت عوف کا نکاح خزیمہ بن عبداللہ بن عمر بن عبد مناف بن ہلال بن عامر سے ہوا، ان سے اُم المؤمنین سیدہ زینب بنت خزیمہؓ  پیدا ہوئیں۔ اسی طرح ان کا نکاح عمیس بن معد بن حارث خثعمیہ سے ہوا ان سے اسماء، سلمیٰ اور سلامہ رضی اللہ عنہن پیدا ہوئیں اور انہی ہند بنت عوف کا نکاح سیدہ میمونہؓ کے والد حارث بن حَزن ہلالی سے ہوا جن سے لبابۃ الکبریٰ، لبابۃ الصغریٰ، عصماء اور عزہ پیدا ہوئیں۔

ہند بنتِ عوف کی خوش نصیبی

سیدہ میمونہؓ کی والدہ ہند بنت عوف کے بارے میں یہ بات مشہور تھی کہ دامادوں کے اعتبار سے کوئی عورت اس خوش نصیب بڑھیا کے مقام کو نہیں پہنچ سکتی کیونکہ ان کے دامادوں میں درج ذیل جلیل القدر شخصیات شامل ہیں:
محمد رسول اللہﷺ 
سیدنا ابوبکرصدیقؓ 
سیدنا علی المرتضیٰؓ 
حضرت عباسؓ 
حضرت جعفر طیارؓ
حضرت حمزہؓ 
حضرت عبداللہ بن کعبؓ 
حضرت شداد بن الہادؓ 
اس کے علاوہ ان کے نواسوں اور نواسیوں میں بھی کئی جلیل القدر صحابہ و صحابیات رضی اللہ عنہم شامل ہیں۔

                        پہلا نکاح

سیدہ میمونہؓ کا پہلا نکاح مسعود بن عمرو بن عمیر ثقفی کے ساتھ ہوا۔ اس نے سیدہ میمونہؓ کو طلاق دے دی۔ یہ وہی عمرو بن عمیر ثقفی ہے جس کے تین بیٹے عبد یالیل، مسعود اور حبیب طائف کے معززین شمار ہوتے تھے ان کو نبی کریمﷺ ص نے اپنے سفر طائف میں خصوصی طور پر دعوتِ اسلام دی، لیکن انہوں نے بد اخلاقی کا مظاہرہ کیا اور اوباش لڑکوں کو آپﷺ  کے پیچھے لگا دیا۔

                             دوسرا نکاح

اس کے بعد آپؓ کا دوسرا نکاح ابو رُہم بن عبدالعزیٰ سے ہوا۔کچھ عرصہ ان کے ساتھ گزارا اور ان کا بھی انتقال ہو گیا۔

                         عمرۃ القضاء

ماہ ذوالقعدہ 7 ہجری کو عمرۃ القضاء کے لیے آپﷺ  مکہ مکرمہ تشریف لے گئے۔ اسے عمرۃ القضاء اس کہا جاتا ہے کہ اس سے ایک سال پہلے ذوالقعدہ 6 ہجری میں آپﷺ  نے ایک خواب دیکھا کہ میں مدینہ منورہ سے مکہ گیا ہوں وہاں میں نے بیت اللہ کا طواف کیا۔ صحابہ کرامؓ سے اس خواب کا ذکر فرمایا تو صحابہ کرامؓ  نے بھی اس خواہش کا اظہار کیا کہ ہم بھی آپ کی معیت میں شرفِ ہمراہی چاہتے ہیں۔
چنانچہ آپﷺ  نے صحابہ کرامؓ کو ہمراہ لیا جب آپﷺ مقامِ حدیبیہ پہنچے جو مکہ کے قریب ہے اور اس کا کچھ حصہ حدود حرم میں بھی داخل ہے تو کفار نے مزاحمت کی۔ مختصر یہ کہ چند کڑی شرائط کے ساتھ آپ کو واپس لوٹنا پڑا، ان میں ایک شرط یہ بھی تھی کہ آئندہ سال عمرہ کے لیے تشریف لائیں اور جتنے دن اہل مکہ چاہیں آپ وہاں رہ سکتے ہیں۔ اسلحے کے بغیر آنا ہے ہاں صرف تلواریں لانے کی اجازت ہو گی اور وہ بھی میان میں ہوں گی۔ چنانچہ آپﷺ ماہ ذوالقعدہ 7 ہجری کو تشریف لائے۔ آپﷺ کے ہمراہ صرف وہ صحابہ کرامؓ تشریف لائے جو صلح حدیبیہ میں آپ کے ساتھ شریک تھے، آپﷺ  اور صحابہ کرامؓ  نے عمرہ ادا فرمایا۔
اسی دوران جب آپﷺ  عمرۃ القضاء کو ادا فرما چکے تھے اور مکہ مکرمہ ہی میں تشریف فرما تھے تو حضرت عباسؓ نے نبی کریمﷺ  نے عرض کی کہ یارسول اللہﷺ !آپ برہ )میمونہ (بنت حارث کو اپنے رشتۂ ازدواج سے جوڑ لیں۔ چونکہ سیدہ میمونہؓ کی بہن ام الفضل لبابۃ الکبریٰؓ  حضرت عباسؓ کی اہلیہ تھیں، آپؓ  خاندانی طور پر سیدہ میمونہؓ کو اچھی طرح جانتے تھے اور آپؓ  کے اعلیٰ اخلاق و کردار سے خوب واقف تھے۔ اس لیے نبی کریمﷺ  سے گزارش کی کہ آپ ان سے نکاح فرما لیں۔ آپﷺ نے قبول فرمایا۔ حضرت عباسؓ  نے 400 درہم حق مہر کے عوض آپ کا نکاح کر دیا۔

  

سیدنا میمونہؓ اُم المؤمنین بنتی ہیں

صلح حدیبیہ کی شرائط میں ایک یہ بھی تھی کہ مسلمان صرف تین دن مکہ میں رہیں گے، شرط کے مطابق مدت قیام بھی پوری ہو چکی تھی۔ سہیل بن عمرو اور حویطب بن عبدالعزی قریش کی جانب سے دربار رسالت مآبﷺ میں حاضر ہوئے اور کہا: شرط کے مطابق چونکہ مدت قیام ختم ہوگئی ہے لہذا آپﷺ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ مدینہ واپس تشریف لے جائیں۔ آپﷺ صلی اللہ علیہ وسلم نے ولیمہ میں شرکت کے لیے انہیں کہا لیکن انہوں نے بات ماننے سے یکسر انکار کر دیا۔
چنانچہ آپﷺ  نے صحابہ کرامؓ  کو روانگی کا حکم دیا۔ اور خود بھی مکہ سے چل پڑے۔ اس دوران آپﷺ  نے اپنے آزاد کردہ غلام حضرت ابو رافعؓ  کو حکم دیا کہ وہ سیدہ میمونہؓ  کو مکہ سے ہمارے قافلے تک پہنچائیں۔ چنانچہ ابو رافعؓ سیدہ میمونہؓ کو مقررہ مقام) سَرِفْ……. س پر زبر اور راء کے نیچے زیر کے ساتھ تک بخیر وعافیت لے آئے۔ آپﷺ 400 درہم حق مہر ادا کیا۔

                ایک اہم مسئلہ

قرآن کریم اور احادیث میں ایک فقہی مسئلہ ہے کہ کوئی شخص دو بہنوں کو نکاح میں اکٹھے نہیں رکھ سکتا۔ خواہ وہ سگی بہنیں ہوں / ماں شریک ہوں یا باپ شریک ہوں۔ اُم المؤمنین سیدہ زینب بنت خزیمہؓ اور سیدہ میمونہ بنت حارثؓ دونوں ماں شریک بہنیں ہیں اور دونوں رسول اللہﷺ  کی ازواجاتِ مطہرات میں سے تھیں۔

یہاں یہ بات ذہن میں آسکتی ہے کہ جب دو بہنوں کو نکاح میں جمع نہیں کیا جاسکتا تو آپﷺ  نے دو بہنوں سے نکاح کیسے فرما لیا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اصل مسئلہ اس طرح ہے کہ بیک وقت دونوں کو نکاح میں ایک ساتھ جمع نہیں کیا جاسکتا۔

ہاں اگران بہنوں میں سے ایک نکاح میں باقی نہ رہے خواہ اس کی وجہ طلاق ہو یا عورت کا فوت ہونا تو دوسری بہن سے نکاح کیا جاسکتا ہے۔ بیک وقت دونوں کو ایک ساتھ نکاح میں جمع کرنا حرام ہے۔ اور نبی کریمﷺ  نے اُم المؤمنین سیدہ زینب بنت خزیمہؓ سے پہلے نکاح فرمایا پھر ان کی وفات کی بعد اُم المؤمنین سیدہ میمونہؓ  سے نکاح فرمایا۔

نوٹ: اس مسئلہ سے متعلق دیگر احکام و مسائل میری کتاب” مسلمان عورت“ میں ملاحظہ فرمائیں۔

          اس مبارک نکاح کی برکات

یہ تو آپ کے علم میں آ چکا ہے کہ سیدہ میمونہؓ  کا پیدائشی نام برہ تھا جسے آپﷺ  نے تبدیل فرما کر میمونہ رکھ دیا۔ میمونہ کا مطلب ہوتا ہے باعث برکت۔ آپﷺ  کے پیشِ نظر اس نام کو منتخب کرنے کی کئی پوشیدہ حکمتیں بھی ہوں گی لیکن جو ظاہر ہے وہ یہ ہے کہ
صلح حدیبیہ کے اگلے سال عمرۃ القضاء کی ادائیگی نے مسلمانوں کی شان و شوکت اور دینِ اسلام پر جانثاری نے اہل مکہ پر بہت گہرے اثرات مرتب کیے، کفار و مشرکین مکہ کا زور ٹوٹ چکا تھا۔ صرف چند بدگمانیاں باقی تھیں، انہیں یہ صاف نظر آ رہا تھا کہ اگر اہلِ مکہ کے ساتھ مسلمانوں کا مزید کچھ میل جول اور رہا تو سارے مکہ والے اسلام قبول کر لیں گے غالباً یہی وجہ تھی کہ صلح حدییبہ میں کفار کی طرف سے یہ شرط بطور خاص تھی کہ آئندہ سال مسلمان تین دن کے اندر اندر عمرہ کر کے واپس چلے جائیں۔
نبی کریمﷺ کی دلی خواہش یہی تھی کہ یہ لوگ اسلام قبول کر لیں اور اس مبارک خواہش کی تکمیل کے لیے آپﷺ نے طرح طرح کی صعوبتیں جھیلیں، سختیاں برداشت کیں، ظلم و ناانصافی کو سہتے رہے۔
اس لیے بیوہ و بے آسرا نیک خاتون کو سہارا دینے کے ساتھ ساتھ آپ کے پیشِ نظر اس وقت کے معروضی حالات بھی تھے۔ آپ سمجھتے تھے کہ اس نکاح سے فوائد و ثمرات میں اہلِ مکہ کے بااثر شخصیات کے علاوہ اہل نجد کے لوگ بھی اسلام کے قریب آ جائیں گے، اسلامی اخلاق و تعلیمات کا قریب سے مشاہدہ کریں گے تو جو بدگمانیاں اذہان و قلوب میں گردش کر رہی ہیں وہ ختم ہو جائیں گی۔
چنانچہ ایسے ہی ہوا سیدہ میمونہؓ  کے خاندان والے مکہ کے با اثر لوگوں میں سے تھے۔ اس نکاح کے بعد سیدہ میمونہؓ کے بھانجے حضرت خالد بن ولیدؓ  نے اسلام قبول کیا اسی موقع حضرت عمرو بن العاصؓ اور حضرت عثمان بن طلحہؓ کنجی بردار کعبہ نے بھی اسلام قبول کر لیا۔
دوسری طرف اہل نجد کا سردار زیاد بن مالک الہلالی جو کہ سیدہ میمونہؓ کا بہنوئی تھا جب اہلِ نجد کو اپنے قبیلے کے ساتھ رسول اللہﷺ  کی ایک طرح کی قرابت داری کا علم ہوا تو وہی لوگ جنہوں نے کبھی دھوکے کے ساتھ 70 مبلغین اسلام کو شہید کرنے کا سنگین جرم کیا تھا اب وہی لوگ رسول اللہﷺ  کے حامی بن گئے اور مسلمان ہو کر اہلِ اسلام کی اجتماعی قوت میں اضافہ کا سبب بنے۔ اس نکاح کے ذریعے یہ تھیں وہ بنیادی حکمتیں جو رسول اللہﷺ  کے پیش نظر تھیں۔ اس کے علاوہ اور بھی کئی ہوں گی جن کا علم اللہ اور اس کے رسولﷺ  کے پاس ہے۔

باکمال ایمان کی نبوی شہادت

آپؓ کے باکمال ایمان کی گواہی جناب نبی کریمﷺ  نے دی ہے، حدیث پاک میں ہے کہ ایمان والی خواتین آپس میں بہنیں ہیں اس کے بعد آپﷺ  نے چند خواتین کے نام لیے جن میں پہلا نام سیدہ میمونہؓ کا ہے۔

                      گھریلو زندگی

آپؓ اتنے بڑے اعزاز سے عزت پانے کے باوجود اپنے گھریلو کام کاج خود کرتیں، چنانچہ آپ کے بھانجے یزید بن الاصمؒ فرماتے ہیں کہ میری خالہ اُم المؤمنین سیدہ میمونہؓ  گھر کے کام کاج خود کرتیں، کثرت سے مسواک کرتیں اور نمازوں کی ادائیگی کا خوب اہتمام کرتیں۔

                     تقویٰ و صلہ رحمی

آپؓ کے دل میں خدا کی محبت بھی موجود تھی اور یہ خوف بھی تھا کہ کہیں میرے کسی کام سے اللہ ناراض نہ ہو جائے۔ معاشرتی رہن سہن میں اسلامی تعلیمات کی سب سے بنیادی چیز صلہ رحمی بھی آپ کے اندر کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی، تقوی اور صلہ رحمی یہ دو اوصاف حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی میں بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپؓ   کو یہ نعمتیں خوب عطا فرمائی تھیں، اُم المؤمنین سیدہ عائشہؓ  آپ کے ان دو عمدہ اوصاف کی گواہی دیتے ہوئے فرماتی ہیں:
انھا کانت من اتقانا للہ واوصلنا للرحم
ترجمہ: میمونہ ہم میں خدا خوفی اور صلہ رحمی میں ممتاز مقام رکھتی ہیں۔

                      علم و فضل

آپؓ نے دین کی تعلیم کو امت تک پہنچانے میں بہت بڑا کام کیا ہے، گھریلو مسائل اور خانگی امور میں رسول اللہﷺ کی تعلیمات سے روشناس کرایا۔ بالخصوص خواتین سے متعلق اکثر طہارت و پاکیزگی کے مسائل احادیث مبارکہ میں آپؓ کے حوالے سے مذکور ہیں۔
ایک مرتبہ سیدہ میمونہؓ کے بھانجے حضرت عبداللہ بن عباسؓ اس حالت میں تشریف لائے کہ آپ کے بال بکھرے ہوئے تھے۔ اُم المؤمنین سیدہ میمونہؓ نے اس کی وجہ پوچھی تو فرمانے لگے کہ مجھے ام عمار کنگھا کرتی ہے لیکن یہ دن ان کے ماہواری کے چل رہے ہیں، اس لیے انہوں نے کنگھا نہیں کیا۔
آپؓ  نے فرمایا کہ شریعت کا مسئلہ ایسے نہیں جیسے تم نے سوچ رکھا ہے بلکہ ان دنوں میں بھی وہ آپ کو کنگھا وغیرہ کر سکتی ہے پھر اس پر دلیل کے طور پر اپنا ذاتی عمل پیش کیا کہ جب ہمارے خاص ایام ہوتے تھے اس دوران بھی نبی کریمﷺ  ہماری گود میں سر رکھ آرام فرما لیتے اور قرآن کریم کی تلاوت بھی فرماتے تھے …… اس کے بعد انہیں سمجھایا کہ بیٹا ! خاص ایام کے اثرات ہاتھوں تک سرایت نہیں کرتے۔
نوٹ: ایام خاص کے احکام ومسائل میری کتاب” مسلمان عورت” میں تفصیل کے ساتھ ملاحظہ فرمائیں۔

                   سخاوت و دریا دلی

آپؓ  فیاضی و سخاوت میں بھی بلند مقام رکھتی تھیں، غریب پروری اور لوگوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے قرضہ اٹھانے سے بھی دریغ نہ کرتی تھیں۔ کبھی کبھار تو قرضہ بہت اٹھا لیتیں۔ چنانچہ لوگوں کی سماجی ضروریات کو پورا کرنے کے پیش نظر ایک بار زیادہ رقم قرض لی تو کسی نے کہا کہ آپ اس کو کس طرح ادا کریں گی؟
تو اس سے آپؓ  نے فرمایا: رسول اللہﷺ  کا ارشاد ہے: جو شخص ادا کرنے کی نیت میں مخلص ہو قرضے کی ادائیگی کا بندوبست خدا خود کر دیتا ہے۔ اسی سے آپؓ کے توکل علی اللہ کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آپ کو کس قدر اللہ کی ذات پر یقین اور اعتماد تھا۔

غلام / لونڈیاں کو آزاد کرنا

سیدہ میمونہؓ کثرت سے غلام اور لونڈیاں آزاد کرتی تھیں۔ ایک بار آپؓ  نے ایک لونڈی آزاد کی تو آپﷺ  نے ان کے حق میں دعا دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اللہ تمہیں اس کا اجر عطا فرمائے۔

                         وفات

جس مقام پر آپﷺ نے نکاح کے بعد آپؓ  کو قربت بخشی بالکل اسی مقام پر آپؓ  خدا کے قرب میں چلی گئیں۔ یعنی مقام سرف میں آپؓ کا ولیمہ ہوا اور اسی مقام پر آپؓ  نے وفات پائی۔
51 ہجری سیدنا امیر معاویہؓ کے دور امارت میں آپؓ  حج یا عمرہ کی غرض سے مکہ مکرمہ تشریف لائیں، یہاں آ کر آپؓ  کی طیبعت ناساز ہوئی، اپنے بھانجے حضرت یزید بن الاصمؒ  کو فرمایا کہ مجھے مکہ سے لے چلو اس لیے کہ مجھے رسول اللہﷺ نے فرمایا تھا کہ آپ کا انتقال مکہ میں نہیں ہوگا۔ یزید بن الاصمؒ  فرماتے ہیں کہ ہم لوگ اُم المؤمنین سیدہ میمونہؓ کو مرض کی حالت میں مکہ سے لے کر چلے جب مقام سرف پر پہنچے تو آپؓ  کا انتقال ہو گیا۔

                                جنازہ

آپؓ کی نماز جنازہ حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے پڑھائی۔ حضرت عطاء تابعیؒ  فرماتے ہیں کہ ہم لوگ سیدہ میمونہؓ  کے جنازے میں شریک تھے، جب آپؓ کا جنازہ اٹھایا گیا تو حضرت عبداللہ بن عباسؓؓ نے فرمایا کہ یہ رسول اللہﷺ  کی زوجہ مطہرہ ہیں اس لیے باادب طریقے سے آہستہ آہستہ لے کر چلو، زیادہ حرکت نہ دو۔

                              تدفین

آپؓ کو عبداللہ بن عباسؓ، یزید بن الاصمؒ ، عبداللہ بن شدادؒ  اور عبداللہ خولانیؒ  نے قبر میں اتارا۔ پہلے تین بھانجے ہیں جبکہ عبداللہ خولانیؒ  یتیم تھے ان کی پرورش اور کفالت آپؓ  نے فرمائی تھی۔
…… ……
نوٹ: مندرجہ بالا ازواجِ مطہرات جنہیں امہات المؤمنین ہونے کا شرف حاصل ہے ان کی تعداد 11 ہے۔ ان کے علاوہ کچھ کنیزیں اور باندیاں بھی آپﷺ  کےزیر تصرف تھیں۔ ان کے نام یہ ہیں:

  1. سیدہ ماریہ قبطیہ ان سے رسول اللہﷺ  کے فرزند حضرت ابراہیم پیدا ہوئے جو 18 ماہ بعد فوت ہو

2. سیدہ ریحانہ بنت شمعونؓ
3. سیدہ نفیسہؓ 
4. سیدہ جمیلہؓ